عادل ـ سہیل
محفلین
::::: اسلام میں موسیقی اور گانے ::::: پہلا حصہ ::: شرعی حیثیت :::::
اللہ کے عطاء کردہ عِلم کی مدد سے ، پچھلے چند سالوں میں اِنسان نے جو کُچھ بنایا اُس میں سے ایک چیز موبائل فون بھی ہے ،اور اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ موبائل فون تقریباً ہر شخص کا ہمیشہ کا ساتھی بن چُکا ہے کہیں کِسی جگہ اُسکے بغیر نہیں رہا جاتا ، حتی کہ اللہ کے گھروں میں ، اللہ کی عِبادت کرتے ہوئے بھی یہ ننھا سا ساتھی جیب میں ہوتا ہے اور بسا اوقات جِس کی جیب میں ہوتا ہے اُسکی اوردوسروں کی عِبادت میں خلل ، بلکہ عِبادت میں کمی اور گُناہ میں اِضافے کا سبب بنتا ہے ،
ذرا سوچیئے کہ آپ کِسی بڑی یا محبوب شخصیت سے مُلاقات کے لیئے اُس کے پاس داخل ہونے والے ہوں تو اپنے اِس ننھے ساتھی کے ساتھ کیا سُلوک کریں گے ؟
بے شک ہر عقل مند فوراً یہ کہے گا کہ ''' میں اپنا موبائل خاموش کر کے مُلاقات کا آغاز کروں گا ، تا کہ مُلاقات میں خلل نہ ہو اور وہ بڑی یا محبوب شخصیت ناراض نہ ہو''' اور یہ بات ہے بھی بالکل ٹھیک ، بس اب ذرا یہ خیال فرمائیے کہ کیا اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے بڑھ کر عظیم اور بڑی کوئی اور شخصیت ہے ؟ کیا آپ کے لیئے اُس سے بڑھ کو کوئی اور محبوب ہے ؟ اگر آپ کا جواب نہیں ہے، تو پھر کیسے ! مسجد میں داخل ہونے سے پہلے آپ اپنا موبائل خاموش کرنا بُھول جاتے ہیں؟؟؟ کُچھ بھی کہا جائے ، بات یہ ہی بنتی ہے کہ اللہ کی عظمت کا وہ احساس جو اِیمان والوں کی صفات میں شامل ہوتا ہے ، نہیں رہا ورنہ کیسے بُھولا جاتا ؟ اور نہ ہی اللہ کی محبت اُس طرح دِلوں میں ہے جِس طرح کہ ہونی چاہیئے ورنہ محبوب سے ملاقات سے پہلے اُس کی پسند کی ہر چیز ساتھ کر لینے کا مکمل خیال ہوتا ہے نہ کہ اُس کی ناراضگی والی چیزیں ساتھ لے جائی جاتی ہیں،
ہو سکتا ہے ، بہت سے لوگوں کی طرح آپ بھی یہ خیال فرمائیں کہ ، اگرمسجد میں کبھی موبائل کی کوئی گھنٹی یا ٹون بج بھی جائے تو اِس میں کوئی گُناہ تو نہیں ہے ، اِس سوچ کا سبب اِسلام میں مسجد کی عِزت وحیثیت اور موسیقی کی شرعی حیثیت سے نا واقفیت ہے ، اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے ( فِی بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّہ ُ أَن تُرفَعَ وَیُذکَرَ فِیہَا اسمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیہَا بِالغُدُوِّ وَالآصَال O رِجَالٌ لَّا تُلہِیہِم تِجَارَۃٌ وَلَا بَیعٌ عَن ذِکرِ اللَّہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاءِ الز َّکَاۃِ یَخَافُونَ یَوماً تَتَقَلَّبُ فِیہِ القُلُوبُ وَالأبصَارُ ) ( اُن گھروں میں جِنکو بُلند کرنے اور اُنمیں اللہ کے نام کا ذِکر کرنے کا اللہ نے حُکم دِیا ہے وہاں صُبحُ و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں O وہ جِنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذِکر سے ، نماز قائم کرنے سے ، زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی (کیونکہ ) وہ ڈرتے ہیں اُس دِن سے جِس میں دِل اور آنکھیں اُلٹ پُلٹ ہو جائیں گے) النُور /آیت ٣٦،٣٧
پس اللہ کے گھر ، اُس کا ذِکر کرنے کے لیئے ہیں موسیقی یعنی شیطان کی آوازیں سُنانے کے لیئے نہیں، پس کہتا ہوں :::
ہوتا تھا رحمان کے گھر میں ذِکرِ رحمان ::: اور مجلسیں جِن میں ہو بھلائیِ مُسلمان
جدت پسندی نے بجا دیا نقارہِ شیطان ::: سجنے لگیں مجالسِ دُنیا ،ہوا دِین کا نُقصان
کُچھ مُسلمان بھائی ، موسیقی سُننے سُنانے کے حرام فعل سے بچنے کے لیئے اپنے موبائلز میںٹونز کی بجائے تسبیح ، تکبیر ، اذان یا آیاتِ قرانی اِستعمال کرتے ہیں ، اُن کے لیے ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اِس نیک نیتی پر بہترین أجر عطاء فرمائے اور اُنہیں نصحیت کرتے ہیں کہ اللہ کا کلام اِس لیئے نہیں کہ اُسے بطور گھنٹی استعمال کِیا جائے ، بلکہ اِس لیئے کہ اُس پڑھا جائے اُس پر اِیمان رکھا جائے اور اُس پر عمل کِیا جائے ، اور یہی معاملہ اللہ کا ذِکر کاہے ،
::::: موسیقی ، ، گانا سُننا ، سُنانا ، آلات موسیقی کا اِستعمال ، خرید و فروخت ، یہ سب کام اِسلام میں حرام قرار دئیے گئے ہیں ، ہمارے کئی مُسلمان بھائی بہن ایسے ہیں جو بے چارے اِدھر اُدھر کے فلسفے پڑھ سُن کر یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ موسیقی ایک حد تک جائز ہے ، یعنی اگر اُسمیں فحاشی نہ ہو ، اور وہ ہیجان انگیز نہ ہو تو ہلکی پھلکی موسیقی سُن لینے میں کوئی حرج نہیں ، ذرا جمالیاتی حس کو تسکین مل جاتی ہے ، کشادگی و فرحت کا احساس ہوتا ہے ، یا یہ کہ کِسی خوشی کے موقع پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیئے موسیقی کا استعمال کیا جا سکتا ہے ، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کِیا جائے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہاں کوئی خوشی ہے کہ ماتم ،، وغیرہ وغیرہ ۔
اور یہاں کہتا ہوں :::
واہ تیری جمالیاتی حِس کا ہے یہ کمال::: حُسن کو کر دِیا قبیح اور قبیح کو حسان
جچتے نہیں عقلِ جدت پسند میں اب ::: پرانے ہوئے اللہ و رسول کے فرمان
فِکرِ جدید میں احساسِ تنگی رہے کیوں ::: کہتے ہو عادِل کو ، کرو تبدیلی کا امکان
لیکن ہم اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام میں تبدیلی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، فِکر و حیات ، سمجھ و عقل ہر چیز کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے مُقرر شدہ حدود میں رکھتے ہیں ، اور وہاں ہم کِسی قِسم کی موسیقی سے دِل بہلانے کی کوئی گنجائش نہیں پاتے ، اور نہ کِسی خوشی یا غم کے اِظہار کے لیئے اِس حرام ذریعے کو اپنانے کی کوئی گُنجائش ملتی ہے ، رہا معاملہ نکاح اور عید کے موقع پر دف بجانے کا تو اُس کی تفصیل اِنشاء اللہ آگے آئے گی ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فرماتا ہے (وَمِن النَّاسِ مَن یَشتَرِی لَہوَ الحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللَّہِ بِغَیرِ عِلمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُواً اُولَٰۤئک لَھُم عَذَابٌ مُّھِینٌ)(اورلوگوں میں ایسے بھی ہیں جوایسی چیزوں کو خریدتے ہیں جِن کے ذریعے بے عِلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اِسے ( اللہ کی راہ کو ) مذاق بنائیں یہی ہیں وہ لوگ جِن کے لیے رسوا کر دینے والاعذاب ہے ) سورت لُقمان / آیت ٦ ، اِس آیت میں فرمائے گئے اِلفاظ '' لَہوَالحَدِیث'' کی تفسیر میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ نے تین بار فرمایا ''' ھُو الغناء والذی لا إِلہ إِلَّا ھُو، اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اِس کا مطلب گانا ہے ''' مُستدرک الحاکم /حدیث ٣٥٤٢ /کتاب التفسیر /باب٣٢ (حدیث صحیح/تحریم آلات الطرب۔اِمام ألبانی/ص۔١٤٣)
::: اورعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا فرمان ہے ''' ھُو الغِنَا و اشباھہ ،اِسکا مطلب گانا اور اُس جیسے دیگر کام ہیں ''' مُصنف ابن ابی شیبہ /کتاب التفسیر /باب ١٣٩ ، اِس باب میں اِن دو صحابیوں کے عِلاوہ تابعین کی طرف سے بھی یہی تفسیر بیان ہوئی ہے۔
::::: کیا آپ کو پتہ کہ جب شیطان نے آدم کی اولاد کو بھٹکانے کےلیئے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( قَالَ اذْہَب فَمَن تَبِعَکَ مِنہُم فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُم جَزَاء مَّوفُوراًo وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنہُم بِصَوتِکَ وَأَجلِب عَلَیہِم بِخَیلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکہُم فِی الأَموَالِ وَالأَولادِ وَعِدہُم وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیطَانُ إِلاَّ غُرُوراًo إِنَّ عِبَادِی لَیسَ لَکَ عَلَیہِم سُلطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلo) ( اللہ نے فرمایا ،جاؤ اِنسانوں میں سے جو تمہاری تابعداری کرے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو ( تم سب کے کیئے کا )پورا پورا بدلہ ہے O اِن میں سے جِسے بھی تُم اپنی آواز سے بہکا سکو بہکا لو ، اور اِن پر اپنے سوار و پیدل سب (ساتھیوں) کے ساتھ چڑھائی کر لو ، اور اِنکے مال اور اولاد میں بھی اپنی شراکت بنا لو ، اور اُن سے وعدے کر لو ، اور شیطان اِنسانوں سے جتنے بھی وعدے کرتا ہے سب کے سب فریب ہوتے ہیںo میرے ( سچے اِیمان والے ) بندوں پر تیرا کوئی قابو اوربس نہیں ، اور تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے O ) سورت الإسراء ( بنی إسرائیل ) آیات ٦٣ تا ٦٥ ،
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی آواز کا ذِکر فرمایا ،اِمام القُرطبی نے اپنی تفسیر ''' الجامعُ لِاحکام القُرآن ''' میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام مُجاھد ( تابعی ) رحمہ اللہ کی بیان کردہ تفسیر لکھی کہ '' شیطان کی آواز ، گانا ، بانسُری اور آلاتِ موسیقی ہیں '' اور اِمام الضحاک رحمہ اللہ نے کہا ''' باجوں کی آواز ''' ، اور اِمام الآلوسی البُغدادی نے اپنی تفسیر ''' روحُ المَعانی ''' میں اِمام ابن المنذر اور اِمام ابن جریر کے حوالے سے اِمام مُجاھد کی یہی تفسیر نقل کی ۔
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے مُشرکین اور کافروں کی مذمت فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ( أَفَمِن ہَذَا الحَدِیثِ تَعجَبُونo وَتَضحَکُونَ وَلَا تَبْکُونَ O وَأَنتُم سَامِدُونَ O ) ( کیا تُم لوگ قُران سُن کر حیران ہو رہے ہو O اور اِس پر ہنستے ہو اور روتے نہیں O اور تُم لوگ ( قُران کے مُقابلے میں گانے ) گاتے ہو O ) سورت النجم / آیات ٥٩ تا ٦١ ،
سامدون کامصدر ''سمود '' ہے ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ''' السمود ''' کی تفسیر میں فرمایا ''' السمود یمنی لُغت میں گانے کو کہتے ہیں ''' السنن الکبری للبیھقی / حدیث ٢٠٧٩٤ ،اِمام الہیثمی نے '' مجع الزوائد '' میں کہا '' یہ روایت البزار نے صحیح راویوں کے ذریعے بیان کی ہے ۔
اِمام الآلوسی نے '' رُوحُ المعانی '' میں لکھا ''' مکہ کے کفار لوگوں کو قران سننے سے دور رکھنے کے لیئے گانے سنواتے تھے '''
اور میں کہتا ہوں کہ ،آج تک اُن کے روحانی پیرو کار یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ :::
ہو سکتے نہیں اِک دِل میں اکٹھے ::: کلام اللہ کی مُحبت اورمُحبتِ قِیان
کبھی سُن لیا اِدھر اور کبھی اُدھر،کہ ::: خوش رہے رحمان،اور نہ بگڑے شیطان
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِرشادات میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیے ،
::::: ابو مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا ( لَیَکُونَنَّ مِن اُمَّتِی اَقوامٌ یَستَحَلُّونَ الحِرَ و الحَرِیرَ و الخَمرَو المَعازِفَ ) ( ضرور میری اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زِنا، ریشم اور شراب اور باجوں کوحلال کرنے کی کوشش کریں گے ) صحیح البُخاری / حدیث٥٥٩٠/ کتاب الأشربہ /باب ٦ ،
::: اِس حدیث مُبارک سے دو باتیں بالکل صاف ظاہر ہو رہی ہیں :::
::::: ( ١ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلمنے تمام باجوں کا ذِکر فرمایا ہے ، اِس میں سے کِسی ایک کو بھی نکالنے کی گُنجائش نہیں ، اور ،
::::: (٢ ) یہ کہ تمام باجے ،شراب ، زنا اور ریشم کی طرح حرام ہیں ، کیونکہ اگر وہ حرام نہ ہوتے تو یہ نہ کہا جاتا کہ لوگ اُنہیں حلال کرنے کی کوشش کریں گے ، پس اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بڑی وضاحت کے تمام تر آلاتِ موسیقی کو حرام قرار فرمایا ہے ،
عام طور پر ''' معازف ''' اُن باجوں کو کہا جاتا ہے جِنکو چوٹ مار کر بجایا جاتا ہے ، جیسے دف ، ڈھول ، طبلہ طنبور وغیرہ ، ( لِسان العرب ) اور ،ملاہی کھلونوں اور موسیقی کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ( مُختار الصحاح ، غریب الحدیث لابن سلام، لِسان العرب )
اگر کِسی کے دِل میں اِس لفظی معنی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو کہ ''' حرام تو صرف معازِف کو کہا گیا ہے ، یعنی مار کر بجائے جانے والے آلاتِ موسیقی کو ، دوسری چیزوں کو تونہیں ، لہذا کچھ کی گُنجائش رہ ہی جاتی ہے ''' بلکہ کچھ کو تو یہ کہتے سُنا گیا ہے کہ ''' اُس وقت کے آلات تو اور تھے اُن سے منع کیا گیا تھا ، اب تو وہ آلات کہاں ، کِسی کا نام تو نہیں لیا گیا کہ فُلان آلہءِ موسیقی حرام ہے ''' تو ایسے مُسلمان بھائی بہنیں مندرجہ ذیل أحادیث ملاحظہ فرمائیں :::
::::: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (إ ِنَّ اللَّہ َ قَد حَرَّمَ عَلیٰ اُمتِی الخَمر و المَیسَر و المزر والکُوبَۃَ و القَنِینَ و زادنی صلاۃ الوِتر ) ( بے شک اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر شراب اور جُوا اور مکئی کی نبیذ اور طبل (ڈھول ) اور قنین حرام کر دئیے ہیں اور ( اِنکے بدلے ) مجھے نماز وتر عطا فرمائی ہے ) سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ/حدیث ١٧٠٨
''' الکُوبَۃ ''' طبل یعنی ڈھول کو کہا جاتا ہے ، اب اِس ڈھول کو کوئی بھی شکل دے دیجیئے وہ اصل میں رہے گا تو ڈھول ہی ، کوئی بھی نام دیجیئے اُسکی حقیقت تو نہیں بدلے گی ، اُسے ڈھول کہیئے یا ڈھولکی ، طبلہ کہیئے یا طبلی ، ڈرم کہیئے یا باس بیٹر ، ہے تو وہ ''' الکُوبَۃ '''،
اور ''' القَنِین''' ہر اُس آلہءِ موسیقی کو کہا جاتا ہے جِسکا اُوپر والا حصہ ایک ڈنڈے کی صورت میں ہوتا ہے ، لکڑی کا ہو یا کِسی دھات کا اور نیچے والا حصہ کھوکھلا اورگول یا بیضوی شکل میں ہوتا ہے اور اوپر والے حصے کے آغاز سے نیچے والے حصے کے درمیان تک ایک یا زیادہ تاریں بندھی ہوتی ہیں ،
اب اِس دورِ جدید میں کِسی کی جمالیاتی حِس ایسے کِسی آلے کو کوئی بھی نام دے ، اِک تارا ، کہے یا دو تارا ، سارنگی کہے یا سِتار ، گِٹار کہے یا وائلن ، حقیقت تو نہیں بدلے گی ، کیونکہ نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی اور حُکم کِسی چیز کی حقیقت پر ہوتا ہے نہ کہ اُس کے نام پر ، لہذا نام بدلنے سے کوئی حرام چیز یا کام حلال نہیں ہو جاتا ، اور نہ ہی کوئی حلال حرام ہو جاتا ہے ،
لیکن ، افسوس کہ ہماری اُمت میں ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ نام بدل کر چیزوں کو اِستعما ل کرتے ہیں اور نام کی تبدیلی کی وجہ اُن چیزوں کو حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اِس بات کی خبر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کر دی تھی کہ ہماری اُمت میں ایسا ہو گا ،، فرمایا (یَشرَبَنَّ نَاسٌ مِن اُمتِی الخَمرَ یَسُمُّونَھَا بِغَیرِ اِسمِھَا یُعزَفُ عَلیٰ رُؤُسَھَم بِالمَعازِفِ و المّغَنِّیاتِ یَخسِفُ اللَّہُ بِھِمُ الاَرضَ و یَجعَلُ مِنھُمُ القِردۃَ و الخَنَازِیرَ )( ضرور میری اُمت میں لوگ شراب کو (حلال کرنے کے لیے اُسے) کوئی اور نام دے کر پیئیں گے ،( وہ لوگ ایسے ہوں گے کہ ) اُن کے پاس باجے بجائیں جائیں گے اور گانے والیاں گایا کریں گی ، اللہ تعالیٰ اُنہیں زمین بوس کرے گا اور اُن میں سے بندر اور سور بنا دیئے جائیں گے ) یہ اِلفاظ اِمام النسائی نے اپنی سْنن میں نقل کیئے ہیں ، جبکہ اِس حدیث کو اِلفاظ کے کُچھ فرق سے مْختلِف صحابہ سے اِمام الطبرانی ، اِمام الدارمی ، اِمام الحاکم ، اِمام ابو داؤد ، اِمام ابنِ ماجہ نے اپنی اپنی کِتابوں میں نقل کیا ہے اور اِمام الالبانی سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث نمبر ٩١ کی تحقیق میں اِس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ،
لہذا اب اگر شراب کو کوئی اور نام دے کر پیا جا ئے تو وہ شراب ہی رہتی ہے ، آبِ جو ، انگور کی بیٹی ، سیب کا رس وغیرہ کہنے سے اْس کی حقیقت نہیں بدلتی ، اور اِسی طرح موسیقی اور گانا ہے ، اُسے روح کی غذا ، ذہنی سکوں کا سبب ، دُکھے دِل کا چین یا کُچھ بھی کہا جائے ، ہے تو وہی جِسے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حرام قرار دِیا ہے ،
::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( الجرسُ مِزمار الشیطان ) ( گھنٹی شیطان کی بانسُری ہے ) مستدرک الحاکم / حدیث ١٦٢٩ ، صحیح ابن حبان /حدیث ٤٧٠٤
::::: أنس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( لَیَکُونَنَّ فی ھذہِ الاُمۃِ خَسفٌ ، و قذَفٌ ، و مَسحٌ ، و ذَلِکَ إِذا شَربُوا الخَمور َ ، و اتَّخَذُوا القَینَاتِ ، وضَربُوا المعازِفِ ) ( (میری ) اِس اُمت میں بھی یقینا زمین میں دھنسنے اور پتھر برسنے اور شکلیں بدلنے کے واقعات ہوں گے ، اور یہ اُسوقت ہو گا جب لوگ شرابیں پینے لگیں گے ، اورگانے والیوں کوزندگی کا جُز بنا لیں گے اور باجے بجانے(بجوانے ) لگیں گے ) سلسلہ الأحادیث الصحیحہ / حدیث ٢٢٠٣ ( قینات ، قین سے ہے اور القینۃُ یعنی گانے والے عورت ، کی جمع ہے ، لِسان العرب ) ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس ارشاد گرامی سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ گانا بجانا بھی شراب خوری کے جیسا حرام کام ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اِس کی دُنیا میں بھی کیا سزا مل سکتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو ہر گُناہ سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
دورِ جدید میں اب کیسٹس ، سی ڈیز ، ڈی وی ڈیز ، اور ایم پی تھری ،فور پلئیرز اور کئی دیگر آلات کے ذریعے گانے والیاں اور گانے والے ہر جگہ موجود ہیں ، ہم مسلمانوں کی شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جِسے ہم نے شیطان کی آواز سے بچائے رکھا ہو ، اللہ ہی ہے کہ اپنی خاص رحمت سے ہمیں اِن عذابوں سے بچائے رکھے ورنہ ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی کہ ہم پر یہ عذاب آن پڑیں،
تو پھر کیوں نہ کہوں کہ :::
سُن کر حُکمِ الہی اور قولِ رسولِ کریم ::: اگر رہے باقی گانے بجانے کا ارمان
پھرذرا ٹٹول کر دیکھ تو اُسے کتنا ہے ::: جو بچ رہا ہے اُس دِل میں اِیمان
گو کہ کِسی معاملے کا شرعی حُکم جاننے کے لیئے، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ تفسیر کے بعد کِسی اِیمان والے کو کِسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی ، لیکن دوسری پارٹی بھی تو اپنا کام کر رہی ہے ، اور ہر معاملے میں طرح طرح کے فلسفے بنا کر مُسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے ، پس اِس معاملے میں بھی ، جمالیاتی حس ، ذوقِ جمال ، اباحیتِ اجزاء وغیرہ جیسے فلسفوں کے ذریعے موسیقی اور گانے کو حلال بلکہ ضرورت ثابت کرنے کی کوشش ہوتی چلی آرہی ہے، لیکن اللہ کی مہربانی سے ہر دور میں اللہ کے ایسے بندے رہے ہیں جِنہوں نے اِن باتوں کا مکمل علمی جواب دِیا ہے ،
ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے حصوں میں اُن فلسفہ زدہ شیطانی بہانوں کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کا جواب دیا جائے گا ، تمام پڑہنے والوں سے گذارش ہے کہ مضمون مکمل ہونے تک کوئی سوال نہ کریں ہو سکتا اُن کے سوال کا جواب اُنہیں آنے والے حصوں میں مل جائے ،
و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ۔
اللہ کے عطاء کردہ عِلم کی مدد سے ، پچھلے چند سالوں میں اِنسان نے جو کُچھ بنایا اُس میں سے ایک چیز موبائل فون بھی ہے ،اور اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ موبائل فون تقریباً ہر شخص کا ہمیشہ کا ساتھی بن چُکا ہے کہیں کِسی جگہ اُسکے بغیر نہیں رہا جاتا ، حتی کہ اللہ کے گھروں میں ، اللہ کی عِبادت کرتے ہوئے بھی یہ ننھا سا ساتھی جیب میں ہوتا ہے اور بسا اوقات جِس کی جیب میں ہوتا ہے اُسکی اوردوسروں کی عِبادت میں خلل ، بلکہ عِبادت میں کمی اور گُناہ میں اِضافے کا سبب بنتا ہے ،
ذرا سوچیئے کہ آپ کِسی بڑی یا محبوب شخصیت سے مُلاقات کے لیئے اُس کے پاس داخل ہونے والے ہوں تو اپنے اِس ننھے ساتھی کے ساتھ کیا سُلوک کریں گے ؟
بے شک ہر عقل مند فوراً یہ کہے گا کہ ''' میں اپنا موبائل خاموش کر کے مُلاقات کا آغاز کروں گا ، تا کہ مُلاقات میں خلل نہ ہو اور وہ بڑی یا محبوب شخصیت ناراض نہ ہو''' اور یہ بات ہے بھی بالکل ٹھیک ، بس اب ذرا یہ خیال فرمائیے کہ کیا اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے بڑھ کر عظیم اور بڑی کوئی اور شخصیت ہے ؟ کیا آپ کے لیئے اُس سے بڑھ کو کوئی اور محبوب ہے ؟ اگر آپ کا جواب نہیں ہے، تو پھر کیسے ! مسجد میں داخل ہونے سے پہلے آپ اپنا موبائل خاموش کرنا بُھول جاتے ہیں؟؟؟ کُچھ بھی کہا جائے ، بات یہ ہی بنتی ہے کہ اللہ کی عظمت کا وہ احساس جو اِیمان والوں کی صفات میں شامل ہوتا ہے ، نہیں رہا ورنہ کیسے بُھولا جاتا ؟ اور نہ ہی اللہ کی محبت اُس طرح دِلوں میں ہے جِس طرح کہ ہونی چاہیئے ورنہ محبوب سے ملاقات سے پہلے اُس کی پسند کی ہر چیز ساتھ کر لینے کا مکمل خیال ہوتا ہے نہ کہ اُس کی ناراضگی والی چیزیں ساتھ لے جائی جاتی ہیں،
ہو سکتا ہے ، بہت سے لوگوں کی طرح آپ بھی یہ خیال فرمائیں کہ ، اگرمسجد میں کبھی موبائل کی کوئی گھنٹی یا ٹون بج بھی جائے تو اِس میں کوئی گُناہ تو نہیں ہے ، اِس سوچ کا سبب اِسلام میں مسجد کی عِزت وحیثیت اور موسیقی کی شرعی حیثیت سے نا واقفیت ہے ، اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے ( فِی بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّہ ُ أَن تُرفَعَ وَیُذکَرَ فِیہَا اسمُہُ یُسَبِّحُ لَہُ فِیہَا بِالغُدُوِّ وَالآصَال O رِجَالٌ لَّا تُلہِیہِم تِجَارَۃٌ وَلَا بَیعٌ عَن ذِکرِ اللَّہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاءِ الز َّکَاۃِ یَخَافُونَ یَوماً تَتَقَلَّبُ فِیہِ القُلُوبُ وَالأبصَارُ ) ( اُن گھروں میں جِنکو بُلند کرنے اور اُنمیں اللہ کے نام کا ذِکر کرنے کا اللہ نے حُکم دِیا ہے وہاں صُبحُ و شام اللہ کی تسبیح کرتے ہیں O وہ جِنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذِکر سے ، نماز قائم کرنے سے ، زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی (کیونکہ ) وہ ڈرتے ہیں اُس دِن سے جِس میں دِل اور آنکھیں اُلٹ پُلٹ ہو جائیں گے) النُور /آیت ٣٦،٣٧
پس اللہ کے گھر ، اُس کا ذِکر کرنے کے لیئے ہیں موسیقی یعنی شیطان کی آوازیں سُنانے کے لیئے نہیں، پس کہتا ہوں :::
ہوتا تھا رحمان کے گھر میں ذِکرِ رحمان ::: اور مجلسیں جِن میں ہو بھلائیِ مُسلمان
جدت پسندی نے بجا دیا نقارہِ شیطان ::: سجنے لگیں مجالسِ دُنیا ،ہوا دِین کا نُقصان
کُچھ مُسلمان بھائی ، موسیقی سُننے سُنانے کے حرام فعل سے بچنے کے لیئے اپنے موبائلز میںٹونز کی بجائے تسبیح ، تکبیر ، اذان یا آیاتِ قرانی اِستعمال کرتے ہیں ، اُن کے لیے ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اِس نیک نیتی پر بہترین أجر عطاء فرمائے اور اُنہیں نصحیت کرتے ہیں کہ اللہ کا کلام اِس لیئے نہیں کہ اُسے بطور گھنٹی استعمال کِیا جائے ، بلکہ اِس لیئے کہ اُس پڑھا جائے اُس پر اِیمان رکھا جائے اور اُس پر عمل کِیا جائے ، اور یہی معاملہ اللہ کا ذِکر کاہے ،
::::: موسیقی ، ، گانا سُننا ، سُنانا ، آلات موسیقی کا اِستعمال ، خرید و فروخت ، یہ سب کام اِسلام میں حرام قرار دئیے گئے ہیں ، ہمارے کئی مُسلمان بھائی بہن ایسے ہیں جو بے چارے اِدھر اُدھر کے فلسفے پڑھ سُن کر یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ موسیقی ایک حد تک جائز ہے ، یعنی اگر اُسمیں فحاشی نہ ہو ، اور وہ ہیجان انگیز نہ ہو تو ہلکی پھلکی موسیقی سُن لینے میں کوئی حرج نہیں ، ذرا جمالیاتی حس کو تسکین مل جاتی ہے ، کشادگی و فرحت کا احساس ہوتا ہے ، یا یہ کہ کِسی خوشی کے موقع پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیئے موسیقی کا استعمال کیا جا سکتا ہے ، بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کِیا جائے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہاں کوئی خوشی ہے کہ ماتم ،، وغیرہ وغیرہ ۔
اور یہاں کہتا ہوں :::
واہ تیری جمالیاتی حِس کا ہے یہ کمال::: حُسن کو کر دِیا قبیح اور قبیح کو حسان
جچتے نہیں عقلِ جدت پسند میں اب ::: پرانے ہوئے اللہ و رسول کے فرمان
فِکرِ جدید میں احساسِ تنگی رہے کیوں ::: کہتے ہو عادِل کو ، کرو تبدیلی کا امکان
لیکن ہم اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے احکام میں تبدیلی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، فِکر و حیات ، سمجھ و عقل ہر چیز کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے مُقرر شدہ حدود میں رکھتے ہیں ، اور وہاں ہم کِسی قِسم کی موسیقی سے دِل بہلانے کی کوئی گنجائش نہیں پاتے ، اور نہ کِسی خوشی یا غم کے اِظہار کے لیئے اِس حرام ذریعے کو اپنانے کی کوئی گُنجائش ملتی ہے ، رہا معاملہ نکاح اور عید کے موقع پر دف بجانے کا تو اُس کی تفصیل اِنشاء اللہ آگے آئے گی ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ فرماتا ہے (وَمِن النَّاسِ مَن یَشتَرِی لَہوَ الحَدِیثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیلِ اللَّہِ بِغَیرِ عِلمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُواً اُولَٰۤئک لَھُم عَذَابٌ مُّھِینٌ)(اورلوگوں میں ایسے بھی ہیں جوایسی چیزوں کو خریدتے ہیں جِن کے ذریعے بے عِلمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اِسے ( اللہ کی راہ کو ) مذاق بنائیں یہی ہیں وہ لوگ جِن کے لیے رسوا کر دینے والاعذاب ہے ) سورت لُقمان / آیت ٦ ، اِس آیت میں فرمائے گئے اِلفاظ '' لَہوَالحَدِیث'' کی تفسیر میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ نے تین بار فرمایا ''' ھُو الغناء والذی لا إِلہ إِلَّا ھُو، اللہ کی قسم جِس کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اِس کا مطلب گانا ہے ''' مُستدرک الحاکم /حدیث ٣٥٤٢ /کتاب التفسیر /باب٣٢ (حدیث صحیح/تحریم آلات الطرب۔اِمام ألبانی/ص۔١٤٣)
::: اورعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہُما کا فرمان ہے ''' ھُو الغِنَا و اشباھہ ،اِسکا مطلب گانا اور اُس جیسے دیگر کام ہیں ''' مُصنف ابن ابی شیبہ /کتاب التفسیر /باب ١٣٩ ، اِس باب میں اِن دو صحابیوں کے عِلاوہ تابعین کی طرف سے بھی یہی تفسیر بیان ہوئی ہے۔
::::: کیا آپ کو پتہ کہ جب شیطان نے آدم کی اولاد کو بھٹکانے کےلیئے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( قَالَ اذْہَب فَمَن تَبِعَکَ مِنہُم فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُم جَزَاء مَّوفُوراًo وَاستَفزِز مَنِ استَطَعتَ مِنہُم بِصَوتِکَ وَأَجلِب عَلَیہِم بِخَیلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکہُم فِی الأَموَالِ وَالأَولادِ وَعِدہُم وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیطَانُ إِلاَّ غُرُوراًo إِنَّ عِبَادِی لَیسَ لَکَ عَلَیہِم سُلطَانٌ وَکَفَی بِرَبِّکَ وَکِیلo) ( اللہ نے فرمایا ،جاؤ اِنسانوں میں سے جو تمہاری تابعداری کرے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو ( تم سب کے کیئے کا )پورا پورا بدلہ ہے O اِن میں سے جِسے بھی تُم اپنی آواز سے بہکا سکو بہکا لو ، اور اِن پر اپنے سوار و پیدل سب (ساتھیوں) کے ساتھ چڑھائی کر لو ، اور اِنکے مال اور اولاد میں بھی اپنی شراکت بنا لو ، اور اُن سے وعدے کر لو ، اور شیطان اِنسانوں سے جتنے بھی وعدے کرتا ہے سب کے سب فریب ہوتے ہیںo میرے ( سچے اِیمان والے ) بندوں پر تیرا کوئی قابو اوربس نہیں ، اور تیرا رب کار سازی کرنے والا کافی ہے O ) سورت الإسراء ( بنی إسرائیل ) آیات ٦٣ تا ٦٥ ،
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کی آواز کا ذِکر فرمایا ،اِمام القُرطبی نے اپنی تفسیر ''' الجامعُ لِاحکام القُرآن ''' میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام مُجاھد ( تابعی ) رحمہ اللہ کی بیان کردہ تفسیر لکھی کہ '' شیطان کی آواز ، گانا ، بانسُری اور آلاتِ موسیقی ہیں '' اور اِمام الضحاک رحمہ اللہ نے کہا ''' باجوں کی آواز ''' ، اور اِمام الآلوسی البُغدادی نے اپنی تفسیر ''' روحُ المَعانی ''' میں اِمام ابن المنذر اور اِمام ابن جریر کے حوالے سے اِمام مُجاھد کی یہی تفسیر نقل کی ۔
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے مُشرکین اور کافروں کی مذمت فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ( أَفَمِن ہَذَا الحَدِیثِ تَعجَبُونo وَتَضحَکُونَ وَلَا تَبْکُونَ O وَأَنتُم سَامِدُونَ O ) ( کیا تُم لوگ قُران سُن کر حیران ہو رہے ہو O اور اِس پر ہنستے ہو اور روتے نہیں O اور تُم لوگ ( قُران کے مُقابلے میں گانے ) گاتے ہو O ) سورت النجم / آیات ٥٩ تا ٦١ ،
سامدون کامصدر ''سمود '' ہے ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ''' السمود ''' کی تفسیر میں فرمایا ''' السمود یمنی لُغت میں گانے کو کہتے ہیں ''' السنن الکبری للبیھقی / حدیث ٢٠٧٩٤ ،اِمام الہیثمی نے '' مجع الزوائد '' میں کہا '' یہ روایت البزار نے صحیح راویوں کے ذریعے بیان کی ہے ۔
اِمام الآلوسی نے '' رُوحُ المعانی '' میں لکھا ''' مکہ کے کفار لوگوں کو قران سننے سے دور رکھنے کے لیئے گانے سنواتے تھے '''
اور میں کہتا ہوں کہ ،آج تک اُن کے روحانی پیرو کار یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ :::
ہو سکتے نہیں اِک دِل میں اکٹھے ::: کلام اللہ کی مُحبت اورمُحبتِ قِیان
کبھی سُن لیا اِدھر اور کبھی اُدھر،کہ ::: خوش رہے رحمان،اور نہ بگڑے شیطان
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِرشادات میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیے ،
::::: ابو مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا ( لَیَکُونَنَّ مِن اُمَّتِی اَقوامٌ یَستَحَلُّونَ الحِرَ و الحَرِیرَ و الخَمرَو المَعازِفَ ) ( ضرور میری اُمت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زِنا، ریشم اور شراب اور باجوں کوحلال کرنے کی کوشش کریں گے ) صحیح البُخاری / حدیث٥٥٩٠/ کتاب الأشربہ /باب ٦ ،
::: اِس حدیث مُبارک سے دو باتیں بالکل صاف ظاہر ہو رہی ہیں :::
::::: ( ١ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلمنے تمام باجوں کا ذِکر فرمایا ہے ، اِس میں سے کِسی ایک کو بھی نکالنے کی گُنجائش نہیں ، اور ،
::::: (٢ ) یہ کہ تمام باجے ،شراب ، زنا اور ریشم کی طرح حرام ہیں ، کیونکہ اگر وہ حرام نہ ہوتے تو یہ نہ کہا جاتا کہ لوگ اُنہیں حلال کرنے کی کوشش کریں گے ، پس اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بڑی وضاحت کے تمام تر آلاتِ موسیقی کو حرام قرار فرمایا ہے ،
عام طور پر ''' معازف ''' اُن باجوں کو کہا جاتا ہے جِنکو چوٹ مار کر بجایا جاتا ہے ، جیسے دف ، ڈھول ، طبلہ طنبور وغیرہ ، ( لِسان العرب ) اور ،ملاہی کھلونوں اور موسیقی کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ( مُختار الصحاح ، غریب الحدیث لابن سلام، لِسان العرب )
اگر کِسی کے دِل میں اِس لفظی معنی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو کہ ''' حرام تو صرف معازِف کو کہا گیا ہے ، یعنی مار کر بجائے جانے والے آلاتِ موسیقی کو ، دوسری چیزوں کو تونہیں ، لہذا کچھ کی گُنجائش رہ ہی جاتی ہے ''' بلکہ کچھ کو تو یہ کہتے سُنا گیا ہے کہ ''' اُس وقت کے آلات تو اور تھے اُن سے منع کیا گیا تھا ، اب تو وہ آلات کہاں ، کِسی کا نام تو نہیں لیا گیا کہ فُلان آلہءِ موسیقی حرام ہے ''' تو ایسے مُسلمان بھائی بہنیں مندرجہ ذیل أحادیث ملاحظہ فرمائیں :::
::::: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (إ ِنَّ اللَّہ َ قَد حَرَّمَ عَلیٰ اُمتِی الخَمر و المَیسَر و المزر والکُوبَۃَ و القَنِینَ و زادنی صلاۃ الوِتر ) ( بے شک اللہ تعالیٰ نے میری اُمت پر شراب اور جُوا اور مکئی کی نبیذ اور طبل (ڈھول ) اور قنین حرام کر دئیے ہیں اور ( اِنکے بدلے ) مجھے نماز وتر عطا فرمائی ہے ) سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ/حدیث ١٧٠٨
''' الکُوبَۃ ''' طبل یعنی ڈھول کو کہا جاتا ہے ، اب اِس ڈھول کو کوئی بھی شکل دے دیجیئے وہ اصل میں رہے گا تو ڈھول ہی ، کوئی بھی نام دیجیئے اُسکی حقیقت تو نہیں بدلے گی ، اُسے ڈھول کہیئے یا ڈھولکی ، طبلہ کہیئے یا طبلی ، ڈرم کہیئے یا باس بیٹر ، ہے تو وہ ''' الکُوبَۃ '''،
اور ''' القَنِین''' ہر اُس آلہءِ موسیقی کو کہا جاتا ہے جِسکا اُوپر والا حصہ ایک ڈنڈے کی صورت میں ہوتا ہے ، لکڑی کا ہو یا کِسی دھات کا اور نیچے والا حصہ کھوکھلا اورگول یا بیضوی شکل میں ہوتا ہے اور اوپر والے حصے کے آغاز سے نیچے والے حصے کے درمیان تک ایک یا زیادہ تاریں بندھی ہوتی ہیں ،
اب اِس دورِ جدید میں کِسی کی جمالیاتی حِس ایسے کِسی آلے کو کوئی بھی نام دے ، اِک تارا ، کہے یا دو تارا ، سارنگی کہے یا سِتار ، گِٹار کہے یا وائلن ، حقیقت تو نہیں بدلے گی ، کیونکہ نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدلتی اور حُکم کِسی چیز کی حقیقت پر ہوتا ہے نہ کہ اُس کے نام پر ، لہذا نام بدلنے سے کوئی حرام چیز یا کام حلال نہیں ہو جاتا ، اور نہ ہی کوئی حلال حرام ہو جاتا ہے ،
لیکن ، افسوس کہ ہماری اُمت میں ایسا ہو رہا ہے کہ لوگ نام بدل کر چیزوں کو اِستعما ل کرتے ہیں اور نام کی تبدیلی کی وجہ اُن چیزوں کو حلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اِس بات کی خبر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کر دی تھی کہ ہماری اُمت میں ایسا ہو گا ،، فرمایا (یَشرَبَنَّ نَاسٌ مِن اُمتِی الخَمرَ یَسُمُّونَھَا بِغَیرِ اِسمِھَا یُعزَفُ عَلیٰ رُؤُسَھَم بِالمَعازِفِ و المّغَنِّیاتِ یَخسِفُ اللَّہُ بِھِمُ الاَرضَ و یَجعَلُ مِنھُمُ القِردۃَ و الخَنَازِیرَ )( ضرور میری اُمت میں لوگ شراب کو (حلال کرنے کے لیے اُسے) کوئی اور نام دے کر پیئیں گے ،( وہ لوگ ایسے ہوں گے کہ ) اُن کے پاس باجے بجائیں جائیں گے اور گانے والیاں گایا کریں گی ، اللہ تعالیٰ اُنہیں زمین بوس کرے گا اور اُن میں سے بندر اور سور بنا دیئے جائیں گے ) یہ اِلفاظ اِمام النسائی نے اپنی سْنن میں نقل کیئے ہیں ، جبکہ اِس حدیث کو اِلفاظ کے کُچھ فرق سے مْختلِف صحابہ سے اِمام الطبرانی ، اِمام الدارمی ، اِمام الحاکم ، اِمام ابو داؤد ، اِمام ابنِ ماجہ نے اپنی اپنی کِتابوں میں نقل کیا ہے اور اِمام الالبانی سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث نمبر ٩١ کی تحقیق میں اِس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ،
لہذا اب اگر شراب کو کوئی اور نام دے کر پیا جا ئے تو وہ شراب ہی رہتی ہے ، آبِ جو ، انگور کی بیٹی ، سیب کا رس وغیرہ کہنے سے اْس کی حقیقت نہیں بدلتی ، اور اِسی طرح موسیقی اور گانا ہے ، اُسے روح کی غذا ، ذہنی سکوں کا سبب ، دُکھے دِل کا چین یا کُچھ بھی کہا جائے ، ہے تو وہی جِسے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حرام قرار دِیا ہے ،
::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( الجرسُ مِزمار الشیطان ) ( گھنٹی شیطان کی بانسُری ہے ) مستدرک الحاکم / حدیث ١٦٢٩ ، صحیح ابن حبان /حدیث ٤٧٠٤
::::: أنس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( لَیَکُونَنَّ فی ھذہِ الاُمۃِ خَسفٌ ، و قذَفٌ ، و مَسحٌ ، و ذَلِکَ إِذا شَربُوا الخَمور َ ، و اتَّخَذُوا القَینَاتِ ، وضَربُوا المعازِفِ ) ( (میری ) اِس اُمت میں بھی یقینا زمین میں دھنسنے اور پتھر برسنے اور شکلیں بدلنے کے واقعات ہوں گے ، اور یہ اُسوقت ہو گا جب لوگ شرابیں پینے لگیں گے ، اورگانے والیوں کوزندگی کا جُز بنا لیں گے اور باجے بجانے(بجوانے ) لگیں گے ) سلسلہ الأحادیث الصحیحہ / حدیث ٢٢٠٣ ( قینات ، قین سے ہے اور القینۃُ یعنی گانے والے عورت ، کی جمع ہے ، لِسان العرب ) ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس ارشاد گرامی سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ گانا بجانا بھی شراب خوری کے جیسا حرام کام ہے وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اِس کی دُنیا میں بھی کیا سزا مل سکتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو ہر گُناہ سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
دورِ جدید میں اب کیسٹس ، سی ڈیز ، ڈی وی ڈیز ، اور ایم پی تھری ،فور پلئیرز اور کئی دیگر آلات کے ذریعے گانے والیاں اور گانے والے ہر جگہ موجود ہیں ، ہم مسلمانوں کی شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جِسے ہم نے شیطان کی آواز سے بچائے رکھا ہو ، اللہ ہی ہے کہ اپنی خاص رحمت سے ہمیں اِن عذابوں سے بچائے رکھے ورنہ ہم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی کہ ہم پر یہ عذاب آن پڑیں،
تو پھر کیوں نہ کہوں کہ :::
سُن کر حُکمِ الہی اور قولِ رسولِ کریم ::: اگر رہے باقی گانے بجانے کا ارمان
پھرذرا ٹٹول کر دیکھ تو اُسے کتنا ہے ::: جو بچ رہا ہے اُس دِل میں اِیمان
گو کہ کِسی معاملے کا شرعی حُکم جاننے کے لیئے، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیان کردہ تفسیر کے بعد کِسی اِیمان والے کو کِسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی ، لیکن دوسری پارٹی بھی تو اپنا کام کر رہی ہے ، اور ہر معاملے میں طرح طرح کے فلسفے بنا کر مُسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں ہے ، پس اِس معاملے میں بھی ، جمالیاتی حس ، ذوقِ جمال ، اباحیتِ اجزاء وغیرہ جیسے فلسفوں کے ذریعے موسیقی اور گانے کو حلال بلکہ ضرورت ثابت کرنے کی کوشش ہوتی چلی آرہی ہے، لیکن اللہ کی مہربانی سے ہر دور میں اللہ کے ایسے بندے رہے ہیں جِنہوں نے اِن باتوں کا مکمل علمی جواب دِیا ہے ،
ان شاء اللہ تعالیٰ اگلے حصوں میں اُن فلسفہ زدہ شیطانی بہانوں کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کا جواب دیا جائے گا ، تمام پڑہنے والوں سے گذارش ہے کہ مضمون مکمل ہونے تک کوئی سوال نہ کریں ہو سکتا اُن کے سوال کا جواب اُنہیں آنے والے حصوں میں مل جائے ،
و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ۔