دوستو بحث و مباحثہ میں کیوں پڑتے ہو۔ فلم خدا کیلئے دیکھ لو۔ موسیقی کی حقیقت جان جاؤ گے۔
اگر موسیقی اسلام میں حرام ہے تو پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کو ساز اور رگوں کا علم کیوں دیا گیا؟
کیا یہ فن و علم اس وقت خدا کی نظر میں جائز تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حرام ہو گیا؟
بھائی arifkarim
پہلی بات تو یہ کہ مطلق بحث نہ تو ممنوع ہے اور نہ ہی اسلامی شریعت میں ناجائز قرار دی گئی ہے ۔ جو بحث ممنوع ہے وہ شک و شبہ کی بنیاد پر کیا جانے والا جھگڑا اور لایعنی بحث ہے ۔
ورنہ احکامی و اختلافی مسائل پر دعوت و تحقیق کے لیے بحث و مباحثہ سے اسلام میں روکا نہیں گیا ہے ۔
قرآن میں فرمان باری تعالیٰ ہے :
[ARABIC]وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ[/ARABIC]
اور اچھے طریقے کے ساتھ ان لوگوں سے مجادلہ (بحث) کرو۔
( سورة النحل : 16 ، آیت : 125 )
اسی طرح ۔۔۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ایک کافر سے مناظرہ قرآن کریم کی آیت
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 258 ) میں مذکور ہے ۔
آپ نے لکھا :
حضرت سلیمان علیہ السلام کو ساز اور رگوں کا علم کیوں دیا گیا؟
استغفراللہ !!
بھائی محترم ! آپ سے ادباً گذارش کروں گا کہ : جہاں علم نہ ہو وہاں خاموشی بہتر ہوتی ہے۔
غالباً آپ یہاں داؤد علیہ السلام لکھنا چاہ رہے تھے کیونکہ "مزمار" کے الفاظ حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق ہیں۔
اور یہ تو انبیاء کی توہین ہوگی جو ہم یوں کہیں کہ انہیں ساز اور راگوں کا علم دیا گیا تھا۔
لاحول ولا قوة
دراصل دورِ حاضر کے علامہ جناب غامدی اور دیگر موسیقی پرستوں کو کچھ روایات کے ظاہری معنوں سے دھوکا لگا ہے۔ اگر وہ ذرا مزید تحقیق کر لیتے کہ متقدمین ائمہ و علماء نے ان روایات کی کیا تشریح کی ہے تو شائد وہ ایسے مغالطات پھیلانے سے بچ جاتے۔
عربی لفظ "غنا" سے مراد ، اکثر و بیشتر موسیقی نوازوں کے نزدیک ساز اور راگوں سے مزین گانے/نغمے لئے جاتے رہے ہیں۔
جبکہ دیکھا جانا چاہئے کہ اہل عرب کے یہاں "غنا" کا کیا مفہوم رہا ہے؟
علامہ ابن منظور رحمة اللہ علیہ ،
لسان العرب میں لکھتے ہیں :
[ARABIC]كلُّ مَنْ رَفَع صوتَه ووَالاهُ فصَوْتُه عند العرب غِناءٌ.[/ARABIC]
جو بلند آواز کرے اور اسے خوبصورت و مشتاق بنائے ، اہل عرب کے ہاں وہ غنا ہے۔
(بحوالہ : لسان العرب ، جلد:غ)
مزید ۔۔۔۔ علامہ ابن منظور نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث بیان کر کے لکھا ہے:
[ARABIC]أَي تُنْشِدانِ الأشعارَ التي قيلَتْ يومَ بُعاث، وهو حربٌ كانت بين الأنصار، ولم تُرِدِ الغِناء المعروفَ بين أَهلِ اللَّهْوِ واللَّعِبِ، وقد رَخَّصَ عمر، رضي الله عنه، في غناءِ الأعرابِ وهو صوتٌ كالحُداءِ.[/ARABIC]
وہ دونوں اشعار پڑھتی تھیں جو جنگ بعاث کے دن کہے گئے تھے اور جنگ بعاث انصار (اوس و خزرج) کے مابین ہوئی تھی۔ اس سے وہ غنا مراد نہیں ہے جو اہل لہو و لعب کے نزدیک معروف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے "غنا اعراب" کی رخصت دی ہے اور وہ ، وہ آواز ہے جو اونٹوں کے ہانکتے ہوئے نکالی جاتی ہے۔
(حوالہ : سابقہ)
علامہ ابن اثیر
"النہایہ" (ج:3 ، ص:392) میں لکھتے ہیں:
اس غنا (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث) سے مراد لہو و لعب میں مبتلا لوگوں کا غنا نہیں بلکہ سادہ طریقہ سے اشعار پڑھنا مراد ہے۔
یہی کچھ علامہ عینی نے
عمدة القاری (ج:6 ، ص:269-271) میں کہا ہے۔
مزید ۔۔۔۔۔
حافظ ابن حجر العسقلانی ،
"فتح الباری" (ج:2 ، ص:442) میں لکھتے ہیں:
[ARABIC]أن الغناء يطلق على رفع الصوت وعلى الترنم الذي تسميه العرب النصب بفتح النون وسكون المهملة وعلى الحداء ولا يسمى فاعله مغنيا وإنما يسمى بذلك من ينشد بتمطيط وتكسير وتهييج وتشويق بما فيه تعريض بالفواحش أو تصريح[/ARABIC]
غنا کا اطلاق بلند آواز پر ہوتا ہے اور اسے وہ (مغنی) گانے والا نہیں سمجھتے بلکہ مغنی اسے کہتے ہیں جو مختلف طریقہ پر آواز نکالتا ہے ، جس میں نشیب و فراز پایا جاتا ہے اور طبیعت اس سے برانگیختہ ہوتی ہے اور شوق پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں فواحش کا تصریحاً یا تعریضاً ذکر ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق حدیث سے من چاہا مفہوم نکال کر جناب غامدی نے یہ جو فرمایا تھا کہ گانے والیاں "پیشہ ور مغنیہ" تھیں تو اس بات پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ اسی حدیث کے بعد وہ حدیث بھی موجود ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صاف فرماتی ہیں کہ :
[ARABIC]قالت: وليستا بمغنيتين[/ARABIC]
(ترجمہ : انہوں نے فرمایا کہ وہ دونوں مغنیہ نہ تھیں)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اتنی صاف وضاحت کے بعد "غنا" سے متعلق اس حدیث پر بیجا بحث "ضد" کے زمرے میں ہی شمار ہوگی۔
یہ تو ہوئی "غنا" کی بحث۔
اب آئیے حضرت داؤد علیہ السلام سے متعلق لفظ "مزامر" پر کچھ وضاحتیں ہوں۔
انسانی فطرت ہے کہ حسن و خوبصورتی جہاں بھی ہو بھلی معلوم ہوتی ہے اور ہر سلیم الفطرت انسان اس کی تحسین کرتا ہے (بشرطیکہ اس میں حرمت کا پہلو نہ ہو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھنے کی تحسین کی ہے اور حکم بھی دیا ہے :
[ARABIC]زيِّنوا القرآن بأصواتكم[/ARABIC] ( اپنی آوازوں سے قرآن کی تزیین کرو)
[ARABIC]
ليس منَّا من لم يتغنَّ بالقرآن[/ARABIC] ( جو خوش آوازی سے قرآن نہیں پڑھتا وہ ہم مسلمانوں کے طریق پر نہیں)
اس حدیث میں جو لفظ "[ARABIC]يتغنَّ[/ARABIC]" استعمال ہوا ہے کیا وہ دورِ حاضر کے غنا یا ساز و آواز والے گانے کے معنوں میں ہے؟؟
نہیں ! بلکہ یہاں
"حسن صوت" مراد ہے۔
جیسا کہ یہی معنی "حسن صوت" امام احمد نے
"المغنی" (ج:10 ، ص:161) میں بیان کئے ہیں۔
امام شافعی ، ابن ابی ملیکہ اور عبداللہ بن مبارک وغیرہ کے حوالے سے
فتح الباری (ج:9 ، ص:70) میں بیان ہوا ہے : [ARABIC]انما هوا تحسين الصوت[/ARABIC] (اس سے مراد آواز کی خوبصورتی ہے)
علامہ ابن منظور نے امام ابن الاعرابی سے نقل کیا ہے کہ عرب سفر کے دوران عادتاً سفری گانے گاتے ، اپنی محفلوں اور مجلسوں میں بھی گنگناتے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بجائے قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم فرمایا۔
(بحوالہ : لسان العرب ، جلد:غ ، ص:373)
امام ابن الاعرابی کا یہی قول علامہ زبیدی نے
تاج العروس (ج:10 ، ص:272) میں نقل کیا ہے۔
اور اسی قول کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے
فتح الباری (ج:9 ، ص:70) میں "قولِ حسن" قرار دیا ہے۔
حافظ ابن قیم تو فرماتے ہیں:
اس حدیث میں "غنا" کی ترغیب نہیں بلکہ اس طریقہ پر قرآن پڑھنے کا حکم ہے کہ یہ شوق پورا کرنا ہے تو قرآن پاک پڑھ کر پورا کر لو ، کوئی اور طریقہ اختیار نہ کرو۔
(بحوالہ : کشف الغطاء ، ص:203-204)
مگر کیا کیا جائے کہ دورِ حاضر کے فلموں اور گانوں کے دیوانے ، اس روایت سے بھی گانے کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ اللہ کی پناہ۔
[ARABIC]
يا أبا موسى لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود[/ARABIC]
(اے ابو موسیٰ ، تجھے آل داؤد کے مزامیر میں سے ایک مزمار دیا گیا ہے)
کتاب التوحید میں امام بخاری نے جس باب کے تحت یہ حدیث لائی ہے ، اس کا عنوان ہی انہوں نے یوں رکھا ہے:
[ARABIC]باب حسن الصوت بالقراءة[/ARABIC] (خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرنا)
اس میں شک نہیں کہ "مزمار" کے معنی "ساز" کے ہیں۔
لیکن ۔۔۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا مزمار کے ایسے لغوی معنی کو قبول کر کے ہم کو کہہ دینا چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "آلاتِ موسیقی" کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا کو جائز و حلال قرار دیا ہے؟؟
اگر "ہاں" تو پھر ۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اور اگر نہیں ۔۔۔۔
تو آئیے ذرا دیکھ لیں کہ شارحین حدیث نے اس کے کیا معنی بیان کئے ہیں۔
[ARABIC]والمراد بالمزمار الصوت الحسن وأصله الالة أطلق اسمه على الصوت للمشابهة[/ARABIC]
مزمار سے مراد "حسن صوت" ہے۔ مزمار آلہ ہے ، اس (آلہ) کا آواز پر اطلاق اس کی خوبصورتی کی مشابہت کی بنا پر ہے۔
(حوالہ : فتح الباری ، ج:9 ، ص:93)
یہی معنی علامہ عینی رحمة اللہ نے
"عمدة القاری" (ج:20 ، ص:56) میں بیان کئے ہیں۔ اور دیگر شارحین نے بھی انہی معنوں کا استعمال کیا ہے۔
ایسے معنی کسی شارح نے بیان نہیں کئے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری "مزمار" بجاتے اور قرآن پڑھتے تھے یا حضرت داؤد علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے گیت آلاتِ موسیقی پر گاتے تھے۔
حافظ ابن کثیر رحمة اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی اسی صفت کے بارے میں لکھا ہے :
[ARABIC]وذلك لطيب صوته بتلاوة كتابه الزبور, وكان إذا ترنم به تقف الطير في الهواء[/ARABIC]
(تفسیر ابن کثیر ، ج:3 ، ص:79)
حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دینا ان کی اچھی آواز کے ساتھ زبور کی تلاوت کرنے کی بنا پر تھا۔ جب وہ ترنم سے پڑھتے تو پرندے ہوا میں رک جاتے۔
مزید ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔
مولانا مودودی رحمة اللہ رقم طراز ہیں :
حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھہر جاتے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا :
[ARABIC]لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود[/ARABIC]
یعنی اس شخص کو داؤد کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے۔
(بحوالہ تفہیم القرآن ، الانبیاء :79)
اگر اس حدیث میں "مزمار" کے معنی "ساز" لئے جائیں اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ حضرت داؤد علیہ السلام کی تسبیح و تحمید کو مانا جائے تو اس کے یہ معنی بھی ہوئے کہ معاذاللہ قرآن مجید کی تلاوت اور تسبیح و تحمید کے وقت آلاتِ موسیقی کا اہمتمام ہونا چاہئے۔
محترمین ! ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے گا ۔۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے؟
ملا علی قاری تو
"شرح فقہ الاکبر" (ص:167) میں لکھتے ہیں:
الخلاصہ میں ہے کہ جو دَف اور لکڑی بجا کر قرآن پڑھتا ہے وہ کافر ہے۔ میں (ملا علی قاری) کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت پڑھتے ہوئے دَف اور لکڑی بجانا بھی اس کے قریب ہے۔ اسی طرح "ذکر اللہ" پر تالی بجانے کا بھی یہی حکم ہے۔
اختتامیہ :
"مزمار" کے لفظ کا دھوکا ۔۔۔۔ اس وقت پوری طرح زائل ہو جاتا ہے جب یہی حدیث ذیل کے الفاظ سے بھی ہمیں مل جاتی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
[ARABIC]لقد أوتي أبو موسى من أصوات آل داود[/ARABIC]
ابوموسیٰ کو آل داؤد کی خوش آوازی کا کچھ حصہ ملا ہے۔
صحيح الجامع الصغير ، ص:916 ، ح:5123
یاد رکھا جانا چاہئے کہ خوش الحانی کی تحسین بھی قرآن پڑھنے کے حوالے سے ہے ، جس کا کوئی بھی مسلمان انکار نہیں کرتا۔
مگر ہماری بحث تو دورِ حاضر کے گانوں/گیتوں/نغموں اور پیشہ ور گلوکاروں/گلوکاراؤں کے خوش الحانی سے گانے میں ہے۔ پھر اس فن کا مظاہرہ کرنے والے مرد و زن عموماً اپنے "فن" کا مظاہرہ مخلوط جلسوں میں کرتے ہیں۔
ایک بار پھر روشن خیال مسلمان ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ۔۔۔۔
قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور عشق و معاشقہ کی داستانیں مخلوط جلسوں/مجمع میں خوش الحانی سے پڑھنا برابر ہے ؟؟!!
مگر افسوس کہ ۔۔۔۔ ہم نے قرآن و حدیث کا درس فنون اسلامیہ کے ماہرین سے نہ لے کر اپنے ذہن سے گھڑا ہے اور قرآن پاک کی خوش الحانی سے دورِ حاضر کے فنکاروں کے فن کو ( "خدا کے لئے" جیسی فلموں کے حوالے سے) سندِ جواز پیش کر رہے ہیں۔
آخر میں معذرت ۔۔۔ اگر احباب کو کچھ جملے تلخ محسوس ہوں۔
مضمون کا مآخذ بشکریہ : اسلام اور موسیقی : شبہات و مغالطات کا ازالہ (ارشاد الحق اثری)