عبداللہ بھائی نعوذ باللہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شان میں کمی مقصود نہیں صرف یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مختلف معاملات میں صحابہ کرام کے درمیان بھی علمی اختلاف رائے موجود رہا ہے۔
صرف ایک مثال عرض کروں گا کہ سورہ نجم کی تفسیر میں اصحاب عبداللہ ابن مسعود اور عبداللہ ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان انتہائی اختلاف ہے۔ سو یہ کہیں پر بھی تاثر نہیں دیا جانا چاہئے کہ اصحاب کا مؤقف ہر بات میں ایک سا تھا۔ سرچشمہ رشد و ہدایت رسولی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر صحابی نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق فیض اٹھایا ہے اور ہر کسی کا مقام اس کی استعداد کے مطابق فرق ہے لیکن اصحاب کے خلوص نیت کے بارے میں شک کرنا کم از کم قریب از کفر ہے۔ اور اگر کسی صحابی نے یہ نہیں فرمایا کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا فرمایا تھا تو ان کے ذاتی اجتہاد کو سنت پر محمول کرنا ان صحابی پر بہتان تراشی ہے۔ ہاں اپنی ذاتی رائے ایک صحابی کی رائے سے مرتب کرنا مجھ احقر کے نزدیک انتہائی احسن ہے لیکن ضروری ہے کہ اسے متابعت صحابہ کی حیثیت سے ہی سمجھا جائے ناکہ حدیث یا سنت قرار دے دیا جائے۔
واللہ اعلم
برادر محترم۔ آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔ لیکن اگر آپ اصولِ تفسیر سے متعلق کتب کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ صحابہ کرام کی مختلف تفسیر کا مطلب "اختلاف" یا "تضاد" نہیں بلکہ "تنوع" ہے۔ یہ بات میں شائد اس سے پہلے بھی آپ سے کہہ چکا ہوں۔
میں اپنی بات کے حوالے میں امام ابن تیمیہ کا قول پیش کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں :
[ARABIC]الخلاف بين السلف فى التفسير قليل وخلافهم فى الأحكام أكثر من خلافهم فى التفسير وغالب ما يصح عنهم من الخلاف يرجع الى اختلاف تنوع لا اختلاف تضاد[/ARABIC]
سلف کے مابین تفسیر میں اختلاف کم ہوا ہے۔ احکام میں تفسیر سے زیادہ اختلاف صحیح طور پر ان (صحابہ) سے جو مروی ہے وہ تنوع کا ہے نہ کہ تضاد کا۔
[ARABIC]مقدمة في أصول التفسير ، شيخ الاسلام بن ت۔يم۔ي۔ة ، ص:2[/ARABIC]
"تضاد" اور "تنوع" میں فرق کرنے کی ایک آسان سی مثال دینا چاہوں گا۔
اگر آپ لاہور کا سفر کر آئیں اور آپ کا ایک دوست (الف) مجھ سے کہے کہ خرم صاحب لاہور کے سفر سے حال میں لوٹے ہیں۔ اور آپ کا کوئی دوسرا دوست (ب) بتائے کہ خرم صاحب پنجاب کے طویل سفر سے آج واپس لوٹ آئے ہیں۔
بتائیے کہ آپ کے دونوں دوستوں الف اور ب کی باتوں میں "تضاد" بیان کیا جا سکتا ہے؟؟
لاہور تو خود پنجاب میں شامل ہے۔ "ب" نے اگر عمومی طور پر صوبے کا حوالہ دیا تھا تو "الف" نے خصوصی طور پر شہر کا نام لیا۔
ہاں اگر "ب" کہہ دے کہ خرم صاحب پنجاب ضرور گئے تھے لیکن لاہور نہیں گئے تو ۔۔۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ "الف" اور "ب" کی باتوں میں تضاد ہے !!
یہی مثال " لھو الحدیث " کے معنی کی ہے۔ بیشتر صحابہ (بشمول عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم) نے اس کے معنی "غنا" کے لئے ہیں تو شائد ایک دو صحابہ نے "بےکار باتیں" بھی مراد لی ہیں۔ لیکن کسی ایک بھی صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا ائمہ اربعہ سے یہ منقول نہیں ہے کہ : "غنا" بےکار باتوں میں شامل نہیں ہے !
اگر " لھو الحدیث " کی تفسیر میں صحابہ کرام کے تضاد کو ثابت کرنا ہو تو لازم ہے کہ کسی صحابی کا کوئی ایسا قول پیش کیا جائے جس میں وہ واضح طور پر کہتے ہوں کہ : غنا ، " لھو الحدیث " میں شامل نہیں ہے !
بصورت دیگر اس کو تنوع ہی مانا جائے گا اور یہی یقین رکھا جائے گا کہ :
غنا کے "لھو الحدیث" ہونے پر صحابہ کا اجماع رہا ہے۔
نبی کے علاوہ کوئی فرد بےشک "معصوم" نہیں ہو سکتا لیکن "اجماع" ضرور خطا سے پاک ہے کیونکہ وہ مشہور حدیث تو غالباَ سب کے علم میں ہوگی کہ :
میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتی !
کسی صحابی سے خطا کا سرزد ہونا ممکن ہے لیکن سارے صحابہ سے مشترکہ طور پر "غلطی" کا صدور مشکل ہی نہیں ناممکن ہے !!
اگر ہم یہ اصول ذہن نشین کر لیں تو ان شاءاللہ صحابہ کرام کی ذات پر "ذاتی استدلال" جیسے فقرے چست کرنے سے بچ جائیں گے۔