[arabic]
حدثنا مسلم بن إبراهيم قال حدثنا سلام بن مسكين عن شيخ
شهد أبا وائل في وليمة فجعلوا يلعبون يتلعبون يغنون فحل أبو وائل حبوته وقال سمعت عبد الله يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الغناء ينبت النفاق في القلب [/arabic]
باب كراهية الغناء والزمر، کتاب الأدب، سنن أبي داود
ترجمہ :عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا
"غناء دل میں نفاق اگاتا ہے"۔
آپ نے بھائی کی بیان کردہ حدیث پڑھی۔ اب اس کے بارے میں اہل فن و علم کی رائے بھی سن لیجیے ان کے نزدیک اس حدیث کا کیا مقام ہے۔
ملا جیون نے عبداللہ ابن مسعود کا یہ قول نقل کی اہے کہ الغنأء ینبلت النفاق فی القلت ۔۔۔ الخ یعنی گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔
اس قول کے بارے میں مختلف آراء کو سید مرتضٰی زبیدی نے شرح احیاء جلد 6 صفحہ 466 میں جمع کیا ہے۔ اس کا ترجمہ ترتیب کے ساتھ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
1۔ بعض لوگوں نے اس روایت کو حضور ﷺ کا قول بتایا ہے لیکن یہ غلط ہے۔ ابوداؤد نے جس سند کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے اس میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس کا نام ہی نہیں لیا گیا۔
2۔ بیہقی نے اسے مرفوعًا بھی روایت کیا ہے اور موقوفًا بھی۔ یعنی یہ حضور ﷺ کا قول بھی ہے اور صحابی کا بھی۔
3۔ سید مرتضی زبیدی محدث کا کہنا ہے کہ مختلف طریقوں سے اسے مرفوعًا روایت کیا گیا ہے لیکن یہ تمام طُرق ضعیف ہیں۔
4۔ بیہقی کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ابن مسعود کا قول ہے نہ کہ حضور کا۔ نیز اس کے طرق میںبعض مجہول الحال راوی ہیں۔
5۔ نووی کہتے ہیں اس راوی کے ضعف پر اتفاق ہے۔
6۔ زرکشی کو بھی اس کا اعتراف ہے۔
7۔ ابن طاہر کا کہنا ہے کہ اس کو ثقہ لوگوں نے عن شعبہ عن مغیرہ عن ابراہیم روایت کیا ہے اور ابراہیم سے آگے کسی کا نام نہیں لیتے۔ لہذہ یہ ابراہیم ہی کا قول ہے۔
8۔ ابن ابی الدنیا ملاہی کی مذمت کے سلسلے میں اسی روایت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ابراہیم کا قول نہیں، بلکہ بات یوں ہے کہ ابراہیم کہتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں (کہ گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے)۔
9۔ اس پر سید مرتضی زبیدی کہتے ہیں یہ قول نہ تو ابراہیم کا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کا جس سے ابن ابی الدنیا نے ذم الملاھی میں مرفوعًا روایت کیا ہو۔
10۔ ابن عدی اور دیلمی نے ابوہریرہ رض سے اور بیہقی نے جابر رض سے یہ مضمون یوں روایت کیا ہے کہ گانا قلب میں اسی طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی پیدا کرتا ہے۔
11۔ زبیدی اس مضمون والی روایت کو بھی ضعیف بتاتے ہیں کیونکہ اس میں ایک راوی علی بن حماد ہے جو دارقطنی کے نزدیک متروک ہے۔ اور اس کا دوسرا راوی ابن ابی رواد ہے۔ جس کے متعلق ابوحاتم کہتے ہیں کہ اس کی حدیثیں منکر ہوتی ہیں اور ابن جنید کا کہنا ہے کہ ابن ابی رواد ٹکے کے برابر بھی نہیں۔ اور ابراہیم بن طہمان مختلف فیہ ہیں۔
زبیدی کی اس طویل عبارت کے بعد چند رائیں اور بھی ملاحظہ ہوں۔
1۔ ابوطالب مکی (م 386 ھ) قوت القلوب صفحہ 62 میں لکھتے ہیں۔
ان حماد روی عن ابراہیم الغناء ینبت النفاق فی القلب الخ ۔۔۔
حماد نے ابراہیم کی زبانی یہ بیان کیا ہے کہ گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔ (یعنی یہ قول ابراہیم کا ہے نہ کہ ابن مسعود رض یا حضور ﷺ کا)۔
ابن حجر عسقلانی التلخیص الحبیر صفحہ 408 میں فرماتے ہیں۔
قال ابن طاہر اصح السانید فی ذالک انہ من قول ابراہیم۔
ابن طاہر کا قول ہے کہ سب سے زیادہ صحیح سند سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ یہ ابراہیم کا قول ہے (نہ کہ ابن مسعود رض یا حضور ﷺ کا)۔
امام سخاوی مقاصد حسنہ صفحہ 139 میں فرماتے ہیں:
لا یصح کما قالہ النووی۔
یہ روایت بھی کوئی صحیح روایت نہیں بلکہ ضعیف ہے جیسا کہ نووی نے لکھا ہے۔
(نووی کا قول اوپر گزر چکا ہے)۔ غرض یہ کوئی حدیث نبوی ﷺ تو قطعًا نہیں زیادہ سے زیادہ یہ عبداللہ ابن مسعود کا قول ہوسکتا ہے یا ابراہیم کا یا عوام کا۔ اور اس سے صرف غنا کا استدلال جس حد تک درست ہوسکتا ہے وہ کسی اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔ علاوہ ازیں جب یہ کوئی نص نہیں تو صرف رائے ہوسکتی ہے یا تجربہ۔ لیکن دوسروں کی رائے یا تجربہ اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا بڑا مشکل ہے کہ بے شمار صحابہ، تابعین ، تبع تابعین، مجتہدین، محدثین اور اولیائے کرام نے گانا سن سن کر اور سنا سنا کر لوگوں نے دلوں میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش کی معاذ اللہ۔
حقیقت یہ ہے کہ غنا میں دونوں قسم کی صلاحیت موجود ہے۔ وہ نفاق بھی پیدا کرسکتا ہے اور اتفاق بھی۔ شقاوت بھی اور حلاوت بھی۔ یہ سب کچھ سننے والے اور سنانے والے کی استعداد پر، احوال و ظروف پر اور مضامین غنا پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رض نے اپنے عہد میں ان اشعارکو پڑھنے سے روک دیا تھا جو مخالفوں کی ہجو کے جواب میں مسلم شعرانے کہے تھے۔ یہ اشعار خود حضور ﷺ کے حکم سے جوابًا کہے گئے تھے۔ لیکن عصری تقاضوں کے بدلنے سے حضرت عمر رض نے یہ کہہ کر ان اشعار کو پڑھنے سے روک دیا کہ اس سے پرانی رنجشیں تازہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح آپ رض نے کسی عورت کا نام لے کر تشبیت دینے سے بھی روک دیا تھا۔ حالانکہ عہد نبوی میں اس کا عام رواج تھا۔
دنیا کی ہر شے میں خیر و شر کے پہلو موجود ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر شخص اور ہر زمان و مکان کےلیے ایک ہی فتوی نہیں دیا جاسکتا۔ نفاق روپے سے بھی پیدا ہوتا ہے، حکومت سے بھی، عورت اور زمین سے بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ دعوی کرنا بہت مشکل ہے کہ حکومت، زن، زر اور زمین سب کچھ مطلقً حرام ہے۔
یہ رائے تو ایک صاحب علم کی تھی۔ میرا سوال ہے کہ حضور ﷺ مدینہ آئے تو طلع البدر علینا گایا گیا۔ اوپر کئی پوسٹس میں حضور ﷺ کے گانا سننے کی احادیث پیش کرچکا ہوں۔ ایک اور بھائی بھی عید کے موقعے پر گانا سننے کی حدیث پیش کرچکے ہیں اگرچہ ان کا مقصد کچھ اور ثابت کرنا تھا۔
اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ معاذ اللہ گانا سن کر اپنے اور مصاحبین کے دلوں میں نفاق پیدا کرتے رہے؟
یا ان کے لیے جو حلال ہے وہ ہمارے لیے حرام ہے؟
یا عید پر ایسے نفاق والے کام حلال ہیں؟
کیا کہتے ہیں آپ بیچ اس مسئلے کے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وسلام