باذوق
محفلین
میرا سوال یہ ہے کہ ابوبکر رض کو یہ پتا ہے کہ یہ شیطانی آواز ہے اور رسول اللہ ﷺ کو نہیں پتا نعوذ بااللہ؟میرا سوال یہ ہے کہ ابوبکر رض کو یہ پتا ہے کہ یہ شیطانی آواز ہے اور رسول اللہ ﷺ کو نہیں پتا نعوذ بااللہ؟
یا اس حدیث سے ہم یہ مطلب نکالیں کہ عید پر اگر یہ شیطانی آواز جائز ہے تو عید پر شراب پینا، زنا کرنا، اور دوسرے شیطانی کام بھی نعوذ بااللہ جائز ہیں؟
اگر یہ شیطانی آواز ہی ہے تو رسول اللہ ﷺ اس کو روکتے کیوں نہیں ہیں بلکہ الٹا ابوبکر رض کو منع کردیتے ہیں؟
دوسری حدیث جس کا ٹوٹا آپ نے اپنے مطلب کی بات نکالنے کے لیے پیش کیا وہ یہ ہے۔
نسائی سائب بن یزید سے اور طبرائی جعید سے روایت کرتے ہیںٴ
ان أمرۃ جاءت الی رسول اللہ ﷺ فقال یا عائشہ الؑفرفین حذہ فقالت لا یا نبی ﷺ حدثنا قال ھذہ قینۃ بنی فلان تحبین ان تغنیک فغنھتھا فقال النبی ﷺ قد نفخ الشیطان فی منخریھا
ایک عورت رسول ﷺ کے پاس آئی آپ ﷺ نے پوچھا عائشہ رض تم اسے پہچانتی ہو؟ کہا نہیں، حضور ﷺ نے فرمایا یہ فلاں قبیلے کی میراثن (گانے والی) ہے، کیا تم اس کا گانا سننا پسند کرو گی؟ اس کے بعد اس نے عائشہ رض کو گانا سنایا، حضور ﷺ نے سن کر فرمایا یہ تو بلا کی گانے والی ہے۔
یہاں بعض لوگ نفخ فی منخریھا کا لفظی ترجمہ یوں کریں گے کہ شیطان نے اس کے نتھنوں میں پھونک ماری ہے۔ اس غلط لفظی ترجمے سے یہ مفہوم پیدا ہوگا کہ گانا ایک شیطانی فعل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ عربی کا ایک محاورہ ہے اور منجد میں ہے:
نفخ الشیطان فی انفۃ ای لطاول الٰی ما لیس لہ۔
نفح الشطیان فی انفہ کے معنی ہیں کہ وہ اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے جو اس کے بس کی بات نہ تھی۔
یہ اسی قسم کا محاورہ ہے جیسے ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ اس نے غضب کردیا۔ وہ بلا کا فنکار ہے۔ پھرتیلے آدمی کو ہم کہتے ہیں کہ اس میں بجلی بھری ہے، عفریت ہے، وہ جن سے کم نہیں۔ یا حسن و جمال کو دیکھ کر ہم توبہ شکن، تقوی شکن، ایمان سوز وغیرہ کہہ دیتے ہیں۔ نفح الشیطان فی منحریھا بھی کچھ اسی قسم کا محاورہ ہے، محض لفظ شیطان سے اس کے مذموم ہونے پر استدلال درست نہیں۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک گانے والی آتی ہے، وہ عائشہ رض سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس کو جانتی ہو؟ جواب میں پتا چلتا ہے وہ نہیں جانتیں۔ حضور ﷺ خود جانتے ہیں کہ یہ فلاں قبیلے کی گانے والی ہے اور بتاتے بھی ہیں پھر پوچھتے ہیں عائشہ گانا سنو گی۔ پھر حضور ﷺ کی موجودگی میں عائشہ گانا سنتی ہیں اور یہی گانا سن کر حضور ﷺ فرماتے ہیں بلا کی گانے والی ہے۔
ہم اس کا ترجمہ یہ کرلیتے ہیں اس کے نتھنوں میں شیطان نے پھونک ماری ہے، یعنی یہ جو حدیث بالا میں کام ہوا ہے یہ شیطانی ہے۔
حیرت ہے، صد حیرت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کے سامنے ایک شیطانی کام ہورہا ہے اور وہ اس کو روک نہیں رہے۔ بلکہ الٹا خود پوچھ کر گانا سنوایا ہے اور پھر آخر میں اسے شیطانی بھی قرار دے دیا ہے۔ نعوذ بااللہ ،اللہ مجھے معاف کرے نبی ﷺ سے کیسی کیسی باتیں منسوب کی جارہی ہیں۔
معانی کی ہم آہنگی پیدا کرنے والے کہاں ہیں اس حدیث کے معنی میں بھی ہم آہنگی پیدا کریں۔ یا تو اللہ کا نبی ﷺ اور اس کی زوجہ جو سن رہے ہیں وہ شروع سے ہی شیطانی ہے یا پھر وہ شیطانی نہیں ہے۔ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
وسلام
دوست !
اس کا جواب بہت آسان ہے۔ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان تو معلوم ہی ہوگا:
شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔
کیا صرف اس بنیاد پر آدمی شیطان بن جاتا ہے؟ ہمیشہ شیطانی حرکات میں مشغول ہو جاتا ہے؟
جب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خود فرما رہے ہیں : شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑتا ہے ، اور دوسری طرف یہ بھی فرمائیں : گانے والی کے نتھنوں میں شیطان نے پھونک ماری ۔۔۔۔
تو اس میں اعتراض کا کیا پہلو نکل آیا بھلا ؟؟
اگر یہ شیطانی آواز جائز ہے تو عید پر شراب پینا، زنا کرنا، اور دوسرے شیطانی کام بھی نعوذ بااللہ جائز ہیں؟
جب شیطان ، بدن میں خون کی طرح دوڑتا ہے تو کیا آدمی بذات خود شیطان بن جاتا ہے؟
اور محض شیطانی آواز کو کس بنیاد پر آپ شراب ، زنا کے برابر قرار دیتے ہیں؟ اس کی دلیل بھی ضرور دیجئے گا۔ ورنہ قیاس کرنا ہو تو بہت کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے!!
دراصل دوست !!
آپ کو سنگین مغالطے اس سبب پیدا ہو رہے ہیں کہ آپ غنا کے اس معاملے میں "اصولی حکم" اور "رخصت/استثنیٰ" میں اسی طرح فرق کرنا نہیں چاہتے جس طرح "نابالغ کی شادی" والے معاملے میں بعض احباب کسی بھی قسم کے فرق کو نہ ماننے پر مصر تھے۔
وہاں "اصولی حکم" کو ہمیشہ کا حکم باور کرایا جا رہا تھا اور "رخصت/استثنیٰ" کو نظرانداز کیا جا رہا تھا اور یہاں ۔۔۔
یہاں "رخصت/استثنیٰ" کو ہمیشہ کا حکم باور کرایا جا رہا ہے اور ""اصولی حکم" کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
رخصت بہرحال ایک استثنٰی ہے ، یہ اصولی حکم نہیں بن سکتا۔ مگر شریعت میں رخصت کی اہمیت یقیناً ہے۔ لہذا ہر معاملے میں پہلے ہمیں یہ تمیز کر لینا چاہئے کہ اصولی حکم کیا ہے اور رخصت کیا؟ اور ان دونوں کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔
متذکرہ حدیث "غنا کے اصولی حکم" کو بیان نہیں کرتی بلکہ "رخصت/استثنیٰ" کو بتا رہی ہے۔ کیا "رخصت/استثنیٰ" کا شریعت میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا؟
اگر اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام قرار دے کر ایک رخصت یہ بھی دی ہے کہ اگر جان کا خطرہ ہو تو حلال ہے ۔۔۔ تو کیا اس رخصت پر آپ اسی طرح طعنہ زنی کر سکتے ہیں جس طرح اس حدیث پر کر رہے ہیں؟؟
جب آپ اللہ پر طعنہ زنی نہیں کرتے تو اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر کیوں کر رہے ہیں جو اللہ ہی کے حکم سے رخصت کی حلت بتا رہا ہے؟؟حیرت ہے، صد حیرت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کے سامنے ایک شیطانی کام ہورہا ہے اور وہ اس کو روک نہیں رہے۔ بلکہ الٹا خود پوچھ کر گانا سنوایا ہے اور پھر آخر میں اسے شیطانی بھی قرار دے دیا ہے۔ نعوذ بااللہ ،اللہ مجھے معاف کرے نبی ﷺ سے کیسی کیسی باتیں منسوب کی جارہی ہیں۔
معانی کی ہم آہنگی پیدا کرنے والے کہاں ہیں اس حدیث کے معنی میں بھی ہم آہنگی پیدا کریں۔ یا تو اللہ کا نبی ﷺ اور اس کی زوجہ جو سن رہے ہیں وہ شروع سے ہی شیطانی ہے یا پھر وہ شیطانی نہیں ہے۔
دوست !!
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔ دین کو اپنی عقل سے زیادہ صحابہ / تابعین / تبع تابعین / ائمہ دین / محدثینن / فقہاء کرام کے فہم کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان مبارک ہستیوں پر اسی طرح ایمان رکھا جائے جس طرح قرآن و سنت پر رکھا جاتا ہے۔ یہ صرف "اعتماد" کی بات ہے کہ دین کو ہماری ناقص عقلوں سے زیادہ انہوں نے بہتر سمجھا ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی "اعتماد" ہے جیسا کالج میں پڑھائی کے دوران آپ کسی مضمون کی باریکی جاننا چاہتے ہوں تو اس مضمون کے عام مصنفین کی کتب کے بجائے اعلیٰ ماہرین کی کتب کی چھان بین کرتے اور اسے اپنا ماخذ بناتے ہیں۔
مزید ۔۔۔۔۔
"نفخ فی منخریھا" کا مطلب "المنجد" کے حوالے سے بیان کیا گیا ۔۔۔ سوال یہ ہے کہ پھر "قینۃ" کا مطلب کس لغت کی رو سے "میراثن (گانے والی)" بنتا ہے؟؟
علامہ زمخشری تو بیان کرتے ہیں کہ :
القینۃ الامۃ غنت ام لا ( قینۃ لونڈی کو کہتے ہیں ، وہ گانا گائے یا نہ گائے)
بحوالہ : الفائق ، ج:2 ، ص:190
علامہ ابن منظور بھی لسان العرب میں یہی معنی بیان کرتے ہیں۔
بحوالہ : الفائق ، ج:17 ، ص:231
علامہ ابن منظور آگے چل کر "لیث" کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
غنا کا یہ عمل لونڈیاں کرتی تھیں ، آزاد عورتیں نہیں۔ اور "القینۃ" دراصل خدمت گزار لونڈی اور غلام کو "قین" کہتے تھے۔
اب دیکھئے کہ کس طرح ہمارے دور کے متجد دین عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں "پیشہ ور مغنیہ" نے گانا گایا لہذا موسیقی جائز ہوئی ، معاذاللہ !!
دوست !!
میں اس تھریڈ میں صرف آپ کے لئے آ رہا ہوں۔ دیر سویر ہو جائے تو معاف کرنا۔ لیکن یقین رکھئے کہ آپ کی جتنی بھی پوسٹ ہیں وہ میں نے سب ایک الگ جگہ محفوظ کر رکھی ہیں اور ان میں سے بہت سے مغالطات کا جواب دینا باقی ہے۔ امید کہ انتظار فرمائیں گے ، شکریہ۔
علامہ البانی کی تحقیق کی مطابق یہ روایت "ضعیف" ہے جس کا کچھ ذکر دوست نے بھی کر دیا ہے۔ لہذا اس پر بحث بیکار ہے۔[ARABIC]حدثنا مسلم بن إبراهيم قال حدثنا سلام بن مسكين عن شيخ
شهد أبا وائل في وليمة فجعلوا يلعبون يتلعبون يغنون فحل أبو وائل حبوته وقال سمعت عبد الله يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الغناء ينبت النفاق في القلب
باب كراهية الغناء والزمر، کتاب الأدب، سنن أبي داود[/ARABIC]