ام اویس
محفلین
اسلام کا نظام حیات
مولانا مودودی رحمتہ اللہ
کی ایک جامع تقریر جو غالبا 1948 کو کی گی۔
۔۔۔
اسلام کے معاشرتی نظام کا سنگ بنیاد یہ نظریہ ہے کہ دنیا کے سب انسان ایک نسل سے ہیں ۔ خدا نے سب سے پہلے ایک انسانی جوڑا پیدا کیا تھا، پھر اسی جوڑے سے وہ سارے لوگ پیدا ہوئے جو دنیا میں آباد ہیں ۔ ابتدا میں ایک مدت تک اس جوڑے کی اولاد ایک ہی امت بنی رہی ہے۔ ایک ہی اس کا دین تھا۔ ایک ہی اس کی زبان تھی۔ کوئی اختلاف اس کے درمیان نہ تھا مگر جُوں جُوں ان کی تعداد بڑھتی گئی، وہ زمین پر پھیلتے چلے گئے اور اس پھیلاؤ کی وجہ سے قدرتی طور پر مختلف نسلوں ، قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان کی زبانیں الگ ہو گئیں ، ان کے لباس الگ ہو گئے، رہن سہن کے طریقے الگ ہو گئے اور جگہ جگہ کی آب و ہوا نے ان کے رنگ روپ اور خدوخال تک بدل دیئے۔ یہ سب اختلافات فطری اختلافات ہیں ۔ واقعات کی دنیا میں موجود ہیں ۔ اس لیے اسلام ان کو بطور ایک واقعے کے تسلیم کرتا ہے۔ وہ ان کو مٹانا نہیں چاہتا، بلکہ ان کا یہ فائدہ مانتا ہے کہ انسان کا باہمی تعارف اور تعاون اسی صورت سے ممکن ہے۔ لیکن اختلافات کی بنا پر انسانوں میں نسل، رنگ، زبان، قومیت اور وطنیت کے جو تعصبات پیدا ہو گئے ہیں ، ان سب کو اسلام غلط قرار دیتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان اُونچ نیچ، شریف اور کمین، اپنے اور غیر کے جتنے فرق پیدائش کی بنیاد پر کر لیے گئے ہیں اسلام کے نزدیک یہ سب جاہلیت کی باتیں ہیں ۔ وہ تمام دنیا کے انسانوں سے کہتا ہے کہ تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو لہٰذا ایک دوسرے کے بھائی ہو اور انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہو۔
انسانیت کا یہ تصور اختیار کرنے کے بعد اسلام کہتا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان اصلی فرق اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ نسل، رنگ، وطن اور زبان کا نہیں بلکہ خیالات، اخلاق اور اصولوں کا ہو سکتا ہے۔ ایک ماں کے دو بچے اپنے نسب کے لحاظ سے چاہے ایک ہوں لیکن اگر ان کے خیالات اور اخلاق ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو زندگی میں دونوں کی راہیں الگ ہو جائیں گی۔ اس کے برعکس مشرق اور مغرب کے انتہائی فاصلے پر رہنے والے دو انسان اگرچہ ظاہر میں کتنے ہی ایک دوسرے سے دور ہوں ، لیکن اگران کے خیالات متفق ہیں اور اخلاق ملتے جلتے ہیں تو ان کی زندگی کا راستہ ایک ہو گا ۔اس نظرئیے کی بنیاد پر اسلام دنیا کے تمام نسلی، وطنی اور قومی معاشروں کے برعکس ایک فکری، اخلاقی اور اصولی معاشرہ تعمیر کرتا ہے، جس میں انسان اور انسان کے ملنے کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اور ہر وہ شخص جو ایک خدا کو اپنا مالک و معبود مانے اور پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنا قانونِ زندگی تسلیم کرے، اس معاشرے میں شامل ہو سکتا ہے خواہ وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا امریکہ کا، خواہ وہ سامی نسل کا ہو یا آریہ نسل کا، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ ہندی بولتا ہو یا عربی۔ جو انسان بھی اس معاشرے میں شامل ہوں گے، ان سب کے حقوق اور معاشرتی مرتبے یکساں ہوں گے۔ کسی قسم کے نسلی قومی یا طبقاتی امتیازات ان کے درمیان نہ ہوں گے۔ کوئی اونچا اور کوئی نیچا نہ ہو گا۔ کوئی چُھوت چھات ان میں نہ ہو گی۔ کسی کا ہاتھ لگنے سے کوئی ناپاک نہ ہو گا۔ شادی بیاہ اور کھانے پینے اور مجلسی میل جول میں ان کے درمیان کسی قسم کی رکاوٹیں نہ ہوں گی۔ کوئی اپنی پیدائش یا اپنے پیشے کے لحاظ سے ذلیل یا کمین نہ ہو گا۔ کسی کو اپنی ذات برادری یا حسب نسب کی بنا پر کوئی مخصوص حقوق حاصل نہ ہو سکیں گے۔ آدمی کی بزرگی اس کے خاندان یا اس کے مال کی وجہ سے نہ ہو گی بلکہ صرف اس وجہ سے ہو گی کہ اس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں اور وہ خدا ترسی میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو نسل و رنگ اور زبان کی حد بندیوں اور جغرافی سرحدوں کو توڑ کر روئے زمین کے تمام خطوں پرپھیل سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر انسانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم ہو سکتی ہے۔ نسلی اور وطنی معاشروں میں تو صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو کسی نسل یا وطن میں پیدا ہوئے ہوں ، اس سے باہر کے لوگوں پر ایسے معاشرے کا دروازہ بند ہوتا ہے مگر اس فکری اور اصولی معاشرے میں ہر وہ شخص برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے جو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کو تسلیم کرے۔ رہے وہ لوگ جو اس عقیدے اور ضابطے کو نہ مانیں تو یہ معاشرہ انہیں اپنے دائرے میں تو نہیں لیتا، مگر انسانی برادری کا تعلق ان کے ساتھ قائم کرنے اور انسانیت کے حقوق انہیں دینے کے لیے تیار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک ماں کے دو بچے اگر خیالات میں مختلف ہیں تو ان کے طریقِ زندگی بہرحال مختلف ہوں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں رہے۔ بالکل اسی طرح نسلِ انسانی کے دو گروہ یا ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کے دو گروہ بھی اگر عقیدے اور اصول میں اختلاف رکھتے ہیں تو ان کے معاشرے یقیناً الگ ہوں گے، مگر انسانیت بہرحال ان میں مشترک رہے گی۔ اس مشترک انسانیت کی بنا پر زیادہ سے زیادہ جن حقوق کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ سب اسلامی معاشرے نے غیر اسلامی معاشروں کے لیے تسلیم کیے ہیں ۔
اسلامی نظامِ معاشرت کی ان بنیادوں کو سمجھ لینے کے بعد آئیے اب ہم دیکھیں کہ وہ کیا اصول اور طریقے ہیں جو اسلام نے انسانی میل ملاپ کی مختلف صورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں ۔
انسانی معاشرت کا اولین اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ خاندان کی بنا ایک مرد اور ایک عورت کے ملنے سے پڑتی ہے۔ اس ملاپ سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔ پھر اس سے رشتے اور کنبے اور برادری کے دوسرے تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر یہی چیز پھیلتے پھیلتے ایک وسیع معاشرے تک جا پہنچتی ہے۔ پھر خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس میں ایک نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو انسانی تمدن کی وسیع خدمات سنبھالنے کے لیے نہایت محبت، ایثار، دلسوزی اور خیرخواہی کے ساتھ تیار کرتی ہے۔ یہ ادارہ تمدنِ انسانی کے بقا اور نشوونما کے لیے صرف رنگروٹ ہی بھرتی نہیں کرتا، بلکہ اس کے کارکن دل سے اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ لینے والے خود ان سے بہتر ہوں ۔ اس بناء پر یہ ایک حقیقت ہے کہ خاندان ہی انسانی تمدن کی جڑ ہے اور اس جڑ کی صحت و طاقت پر خود تمدن کی صحت و طاقت کا مدار ہے۔ اسی لیے اسلام معاشرتی مسائل میں سب سے پہلے اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو صحیح ترین بنیادوں پر قائم کیا جائے۔
اسلام کے نزدیک مرد اور عورت کے تعلق کی صحیح صورت صرف وہ ہے جس کے ساتھ معاشرتی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہوں اور جس کے نتیجے میں ایک خاندان کی بنا پڑے۔ آزادانہ اور غیر ذمہ دارانہ تعلق کو وہ محض ایک معصوم سی تفریح یا ایک معمولی سی بے راہ روی سمجھ کر ٹال نہیں دیتا۔ بلکہ اس کی نگاہ میں یہ انسانی تمدن کی جڑ کاٹ دینے والا فعل ہے۔ اس لیے ایسے تعلق کو وہ حرام اور قانوناً جرم قرار دیتا ہے۔ اس کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے تاکہ سوسائٹی میں ایسے تمدن کش تعلقات رائج نہ ہونے پائیں ، اور معاشرت کو ان اسباب سے پاک کر دینا چاہتا ہے جو اس غیر ذمہ دارانہ تعلق کے لیے محرک ہوتے ہوں یا اس کے مواقع پیدا کرتے ہوں ۔ پردے کے احکام، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت، موسیقی اور تصاویر پر پابندیاں اور فواحش کی اشاعت کے خلاف رکاوٹیں سب اسی کی روک تھام کے لیے ہیں اور ان کا مرکزی مقصد خاندان کے ادارے کو محفوظ اور مضبوط کرنا ہے۔ دوسری طرف ذمہ دارانہ تعلق یعنی نکاح کو اسلام محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے ایک نیکی، ایک کارِ ثواب، ایک عبادت قرار دیتا ہے۔ سنِ بلوغ کے بعد مرد اور عورت کے مجرد رہنے کو ناپسند کرتا ہے۔ ہر نوجوان کو اس بات پر اُکساتا ہے کہ تمدن کی جن ذمہ داریوں کا بار اس کے ماں باپ نے اُٹھایا تھا، اپنی باری آنے پروہ بھی انہیں اٹھائے۔ اسلام رہبانیت کو نیکی نہیں سمجھتا بلکہ اسے فطرت اللہ کے خلاف ایک بدعت ٹھہراتا ہے۔ وہ ان تمام رسموں اور رواجوں کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے جن کی وجہ سے نکاح ایک مشکل اور بھاری کام بن جاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان ترین اور زنا کو مشکل ترین فعل ہونا چاہیے، نہ کہ نکاح مشکل اور زنا آسان ہو۔ اسی لیے اس نے چند مخصوص رشتوں کو حرام ٹھہرانے کے بعد تمام دُور و نزدیک کے رشتہ داروں میں ازدواجی تعلق کو جائز کر دیا ہے۔ ذات اور برادری کی تفریقیں اڑا کر تمام مسلمانوں میں آپس کے شادی بیاہ کی کھلی اجازت دے دی ہے۔ مہر اور جہیز اس قدر ہلکے رکھنے کا حکم دیا ہے جنہیں فریقین آسانی سے برداشت کر سکیں ۔ اور رسم نکاح ادا کرنے کے لیے کسی خاص قاضی، پنڈت، پروہت یا دفتر و رجسٹر کی کوئی ضرورت نہیں رکھی۔ اسلامی معاشرے کا نکاح ایک ایسی سادہ سی رسم ہے جو ہر کہیں دو گواہوں کے سامنے بالغ زوجین کے ایجاب و قبول سے انجام پا سکتی ہے مگر لازم ہے کہ یہ ایجاب و قبول خفیہ نہ ہو بلکہ بستی میں اعلان کے ساتھ ہو۔
خاندان کے اندر اسلام نے مرد کو ناظم کی حیثیت دی ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں ضبط قائم رکھے۔ بیوی کو شوہر کی اور اولاد کو ماں اور باپ دونوں کی اطاعت و خدمت کا حکم دیا ہے۔ ایسے ڈھیلے ڈھالے نظام خاندانی کو اسلام پسند نہیں کرتا، جس میں کوئی انضباط نہ ہو، اور گھر والوں کے اخلاق و معاملات درست رکھنے کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ نظم بہرحال ایک ذمہ دار ناظم ہی سے قائم ہو سکتا ہے اور اسلام کے نزدیک اس ذمہ داری کے لیے خاندان کا باپ ہی فطرۃً موزوں ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مرد گھر کا ایک جابر و قاہر فرماں روا بنا دیا گیا ہے اور عورت ایک بے بس لونڈی کی حیثیت سے اس کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اسلام کے نزدیک ازدواجی زندگی کی اصل روح محبت و رحمت ہے۔ عورت کا فرض اگر شوہر کی اطاعت ہے تو مرد کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے اختیارات کو اصلاح کے لیے استعمال کرے نہ کہ زیادتی کے لیے۔ اسلام ایک ازدواجی تعلق کو اسی وقت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جب تک اس میں محبت کی شیرینی یا کم از کم رفاقت کا امکان باقی ہو۔ جہاں یہ امکان باقی نہ رہے وہاں وہ مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اسلامی عدالت کو یہ اختیار عطا کرتا ہے کہ وہ ایسے نکاح کو توڑ دے جو رحمت کے بجائے زحمت بن گیا ہو۔
خاندان کے محدود دائرے سے باہر قریب ترین سرحد رشتہ داری کی ہے جس کا دائرہ کافی وسیع ہوتا ہے جو لوگ ماں باپ کے تعلق سے یا بھائی اور بہنوں کے تعلق سے یا سُسرالی تعلق سے ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوں ، اسلام ان سب کو ایک دوسرے کا ہمدرد، مددگار اور غمگسار دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ذوی القربیٰ یعنی رشتہ داروں سے نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں صلۂ رحمی کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور اسے بڑی نیکی شمار کیا گیا ہے۔ وہ شخص اسلام کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے جو اپنے رشتہ داروں سے سرد مہری اور طوطا چشمی کا معاملہ کرے۔ مگر اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ رشتہ داروں کی بے جا طرفداری کوئی اسلامی کام ہے۔ اپنے کنبے قبیلے کی ایسی حمایت جو حق کے خلاف ہو، اسلام کے نزدیک جاہلیت ہے۔ اسی طرح اگر حکومت کا کوئی افسر پبلک کے خرچ پر اقرباپروری کرنے لگے یا اپنے فیصلوں میں اپنے عزیزوں کے ساتھ بے جا رعایت کرنے لگے تو یہ بھی کوئی اسلامی کام نہیں ہے بلکہ ایک شیطانی حرکت ہے۔ اسلام جس صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے وہ اپنی ذات سے ہونی چاہیے اور حق و انصاف کی حد کے اندر ہونی چاہیے۔
رشتہ داری کے تعلق کے بعد دوسرا قریب ترین تعلق ہمسائیگی کا ہے۔ قرآن کی رُو سے ہمسایوں کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک رشتہ دار ہمسایہ، دوسرا اجنبی ہمسایہ، تیسرا وہ عارضی ہمسایہ جس کے پاس بیٹھنے یا ساتھ چلنے کا آدمی کو اتفاق ہو۔ یہ سب اسلامی احکام کی رُو سے رفاقت، ہمدردی اور نیک سلوک کے مستحق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ہمسائے کے حقوق کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ میں خیال کرنے لگا کہ شاید اب اسے وراثت میں حصہ دار بنایا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص ایمان نہیں رکھتا جو خود پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھُوکا رہ جائے۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐسے عرض کیا گیا کہ ایک عورت بہت نمازیں پڑھتی ہے، اکثر روزے رکھتی ہے، خوب خیرات کرتی ہے مگر اس کی بدزبانی سے اس کے پڑوسی عاجز ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا وہ دوزخی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ایک دوسری عورت ہے جس میں یہ خوبیاں تو نہیں ہیں مگر وہ پڑوسیوں کو تکلیف بھی نہیں دیتی۔ فرمایا وہ جنتی ہے۔ آنحضرتؐ نے لوگوں کو یہاں تک تاکید فرمائی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے اگر پھل لاؤ تو یا تو ہمسائے کے گھر میں بھیجو ورنہ چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ غریب ہمسائے کا دل نہ دُکھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا کہتے ہیں تو واقعی تو اچھا ہے اور اگر ہمسائے کی رائے تیرے بارے میں خراب ہے تو تو ایک برا آدمی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام ان سب لوگوں کو جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں آپس میں ہمدرد، مددگار اور شریک رنج و راحت دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے پر بھروسہ کریں اور ایک دوسرے کے پہلو میں اپنی جان، مال اور آبرو کو محفوظ سمجھیں ۔ رہی وہ معاشرت جس میں ایک دیوار بیچ رہنے والے دو آدمی برسوں ایک دوسرے سے نا آشنا رہیں اور جس میں ایک محلے کے رہنے والے باہم کوئی دلچسپی، کوئی ہمدردی اور کوئی اعتماد نہ رکھتے ہوں تو ایسی معاشرت ہر گز اسلامی معاشرت نہیں ہو سکتی۔
ان قریبی رابطوں کے بعد تعلقات کا وہ وسیع دائرہ سامنے آتا ہے جو پورے معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دائرے میں اسلام ہماری اجتماعی زندگی کو جن بڑے بڑے اصولوں پر قائم کرتا ہے وہ مختصراً یہ ہیں :
۱۔ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تعاون کرو اور بدی و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔(قرآن)
۲۔ تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کی خاطر ہونی چاہیے، جو کچھ دو اس لیے دو کہ خدا اس کا دینا پسند کرتا ہے، اور جو کچھ روکو اس لیے روکو کہ خدا کو اس کا دینا پسند نہیں ہے۔ (حدیث)
۳۔ تم تو وہ بہترین امت ہو جسے دنیا والوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا ہے تمہارا کام نیکی کا حکم دینا اور بدی کو روکنا ہے۔(قرآن)
۴۔ آپس میں بدگمانی نہ کرو، ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہ کرو، ایک کے خلاف دوسرے کو نہ اُکساؤ، آپس کے حسد اور بُغض سے بچو، ایک دوسرے کی کاٹ میں نہ پڑو، اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو۔(حدیث)
۵۔ کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ نہ دو۔(حدیث)
۶۔ غیرحق میں اپنی قوم کی حمایت کرنا ایسا ہے جیسے تمہارا اونٹ کنوئیں میں گرنے لگا تو تم بھی اُس کی دُم پکڑ کر اُس کے ساتھ ہی جا گرے۔(حدیث)
۷۔ دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرو جو تم خود اپنے لیے پسند کرتے ہو۔(حدیث)
مولانا مودودی رحمتہ اللہ
کی ایک جامع تقریر جو غالبا 1948 کو کی گی۔
۔۔۔
اسلام کے معاشرتی نظام کا سنگ بنیاد یہ نظریہ ہے کہ دنیا کے سب انسان ایک نسل سے ہیں ۔ خدا نے سب سے پہلے ایک انسانی جوڑا پیدا کیا تھا، پھر اسی جوڑے سے وہ سارے لوگ پیدا ہوئے جو دنیا میں آباد ہیں ۔ ابتدا میں ایک مدت تک اس جوڑے کی اولاد ایک ہی امت بنی رہی ہے۔ ایک ہی اس کا دین تھا۔ ایک ہی اس کی زبان تھی۔ کوئی اختلاف اس کے درمیان نہ تھا مگر جُوں جُوں ان کی تعداد بڑھتی گئی، وہ زمین پر پھیلتے چلے گئے اور اس پھیلاؤ کی وجہ سے قدرتی طور پر مختلف نسلوں ، قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان کی زبانیں الگ ہو گئیں ، ان کے لباس الگ ہو گئے، رہن سہن کے طریقے الگ ہو گئے اور جگہ جگہ کی آب و ہوا نے ان کے رنگ روپ اور خدوخال تک بدل دیئے۔ یہ سب اختلافات فطری اختلافات ہیں ۔ واقعات کی دنیا میں موجود ہیں ۔ اس لیے اسلام ان کو بطور ایک واقعے کے تسلیم کرتا ہے۔ وہ ان کو مٹانا نہیں چاہتا، بلکہ ان کا یہ فائدہ مانتا ہے کہ انسان کا باہمی تعارف اور تعاون اسی صورت سے ممکن ہے۔ لیکن اختلافات کی بنا پر انسانوں میں نسل، رنگ، زبان، قومیت اور وطنیت کے جو تعصبات پیدا ہو گئے ہیں ، ان سب کو اسلام غلط قرار دیتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان اُونچ نیچ، شریف اور کمین، اپنے اور غیر کے جتنے فرق پیدائش کی بنیاد پر کر لیے گئے ہیں اسلام کے نزدیک یہ سب جاہلیت کی باتیں ہیں ۔ وہ تمام دنیا کے انسانوں سے کہتا ہے کہ تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو لہٰذا ایک دوسرے کے بھائی ہو اور انسان ہونے کی حیثیت سے برابر ہو۔
انسانیت کا یہ تصور اختیار کرنے کے بعد اسلام کہتا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان اصلی فرق اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ نسل، رنگ، وطن اور زبان کا نہیں بلکہ خیالات، اخلاق اور اصولوں کا ہو سکتا ہے۔ ایک ماں کے دو بچے اپنے نسب کے لحاظ سے چاہے ایک ہوں لیکن اگر ان کے خیالات اور اخلاق ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو زندگی میں دونوں کی راہیں الگ ہو جائیں گی۔ اس کے برعکس مشرق اور مغرب کے انتہائی فاصلے پر رہنے والے دو انسان اگرچہ ظاہر میں کتنے ہی ایک دوسرے سے دور ہوں ، لیکن اگران کے خیالات متفق ہیں اور اخلاق ملتے جلتے ہیں تو ان کی زندگی کا راستہ ایک ہو گا ۔اس نظرئیے کی بنیاد پر اسلام دنیا کے تمام نسلی، وطنی اور قومی معاشروں کے برعکس ایک فکری، اخلاقی اور اصولی معاشرہ تعمیر کرتا ہے، جس میں انسان اور انسان کے ملنے کی بنیاد اس کی پیدائش نہیں بلکہ ایک عقیدہ اور ایک اخلاقی ضابطہ ہے۔ اور ہر وہ شخص جو ایک خدا کو اپنا مالک و معبود مانے اور پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کو اپنا قانونِ زندگی تسلیم کرے، اس معاشرے میں شامل ہو سکتا ہے خواہ وہ افریقہ کا رہنے والا ہو یا امریکہ کا، خواہ وہ سامی نسل کا ہو یا آریہ نسل کا، خواہ وہ کالا ہو یا گورا، خواہ وہ ہندی بولتا ہو یا عربی۔ جو انسان بھی اس معاشرے میں شامل ہوں گے، ان سب کے حقوق اور معاشرتی مرتبے یکساں ہوں گے۔ کسی قسم کے نسلی قومی یا طبقاتی امتیازات ان کے درمیان نہ ہوں گے۔ کوئی اونچا اور کوئی نیچا نہ ہو گا۔ کوئی چُھوت چھات ان میں نہ ہو گی۔ کسی کا ہاتھ لگنے سے کوئی ناپاک نہ ہو گا۔ شادی بیاہ اور کھانے پینے اور مجلسی میل جول میں ان کے درمیان کسی قسم کی رکاوٹیں نہ ہوں گی۔ کوئی اپنی پیدائش یا اپنے پیشے کے لحاظ سے ذلیل یا کمین نہ ہو گا۔ کسی کو اپنی ذات برادری یا حسب نسب کی بنا پر کوئی مخصوص حقوق حاصل نہ ہو سکیں گے۔ آدمی کی بزرگی اس کے خاندان یا اس کے مال کی وجہ سے نہ ہو گی بلکہ صرف اس وجہ سے ہو گی کہ اس کے اخلاق زیادہ اچھے ہیں اور وہ خدا ترسی میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو نسل و رنگ اور زبان کی حد بندیوں اور جغرافی سرحدوں کو توڑ کر روئے زمین کے تمام خطوں پرپھیل سکتا ہے اور اس کی بنیاد پر انسانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم ہو سکتی ہے۔ نسلی اور وطنی معاشروں میں تو صرف وہ لوگ شامل ہو سکتے ہیں جو کسی نسل یا وطن میں پیدا ہوئے ہوں ، اس سے باہر کے لوگوں پر ایسے معاشرے کا دروازہ بند ہوتا ہے مگر اس فکری اور اصولی معاشرے میں ہر وہ شخص برابر کے حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتا ہے جو ایک عقیدے اور ایک اخلاقی ضابطے کو تسلیم کرے۔ رہے وہ لوگ جو اس عقیدے اور ضابطے کو نہ مانیں تو یہ معاشرہ انہیں اپنے دائرے میں تو نہیں لیتا، مگر انسانی برادری کا تعلق ان کے ساتھ قائم کرنے اور انسانیت کے حقوق انہیں دینے کے لیے تیار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک ماں کے دو بچے اگر خیالات میں مختلف ہیں تو ان کے طریقِ زندگی بہرحال مختلف ہوں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں رہے۔ بالکل اسی طرح نسلِ انسانی کے دو گروہ یا ایک ملک میں رہنے والے لوگوں کے دو گروہ بھی اگر عقیدے اور اصول میں اختلاف رکھتے ہیں تو ان کے معاشرے یقیناً الگ ہوں گے، مگر انسانیت بہرحال ان میں مشترک رہے گی۔ اس مشترک انسانیت کی بنا پر زیادہ سے زیادہ جن حقوق کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ سب اسلامی معاشرے نے غیر اسلامی معاشروں کے لیے تسلیم کیے ہیں ۔
اسلامی نظامِ معاشرت کی ان بنیادوں کو سمجھ لینے کے بعد آئیے اب ہم دیکھیں کہ وہ کیا اصول اور طریقے ہیں جو اسلام نے انسانی میل ملاپ کی مختلف صورتوں کے لیے مقرر کیے ہیں ۔
انسانی معاشرت کا اولین اور بنیادی ادارہ خاندان ہے۔ خاندان کی بنا ایک مرد اور ایک عورت کے ملنے سے پڑتی ہے۔ اس ملاپ سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔ پھر اس سے رشتے اور کنبے اور برادری کے دوسرے تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر یہی چیز پھیلتے پھیلتے ایک وسیع معاشرے تک جا پہنچتی ہے۔ پھر خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس میں ایک نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو انسانی تمدن کی وسیع خدمات سنبھالنے کے لیے نہایت محبت، ایثار، دلسوزی اور خیرخواہی کے ساتھ تیار کرتی ہے۔ یہ ادارہ تمدنِ انسانی کے بقا اور نشوونما کے لیے صرف رنگروٹ ہی بھرتی نہیں کرتا، بلکہ اس کے کارکن دل سے اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ان کی جگہ لینے والے خود ان سے بہتر ہوں ۔ اس بناء پر یہ ایک حقیقت ہے کہ خاندان ہی انسانی تمدن کی جڑ ہے اور اس جڑ کی صحت و طاقت پر خود تمدن کی صحت و طاقت کا مدار ہے۔ اسی لیے اسلام معاشرتی مسائل میں سب سے پہلے اس امر کی طرف توجہ کرتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو صحیح ترین بنیادوں پر قائم کیا جائے۔
اسلام کے نزدیک مرد اور عورت کے تعلق کی صحیح صورت صرف وہ ہے جس کے ساتھ معاشرتی ذمہ داریاں قبول کی گئی ہوں اور جس کے نتیجے میں ایک خاندان کی بنا پڑے۔ آزادانہ اور غیر ذمہ دارانہ تعلق کو وہ محض ایک معصوم سی تفریح یا ایک معمولی سی بے راہ روی سمجھ کر ٹال نہیں دیتا۔ بلکہ اس کی نگاہ میں یہ انسانی تمدن کی جڑ کاٹ دینے والا فعل ہے۔ اس لیے ایسے تعلق کو وہ حرام اور قانوناً جرم قرار دیتا ہے۔ اس کے لیے سخت سزا تجویز کرتا ہے تاکہ سوسائٹی میں ایسے تمدن کش تعلقات رائج نہ ہونے پائیں ، اور معاشرت کو ان اسباب سے پاک کر دینا چاہتا ہے جو اس غیر ذمہ دارانہ تعلق کے لیے محرک ہوتے ہوں یا اس کے مواقع پیدا کرتے ہوں ۔ پردے کے احکام، مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت، موسیقی اور تصاویر پر پابندیاں اور فواحش کی اشاعت کے خلاف رکاوٹیں سب اسی کی روک تھام کے لیے ہیں اور ان کا مرکزی مقصد خاندان کے ادارے کو محفوظ اور مضبوط کرنا ہے۔ دوسری طرف ذمہ دارانہ تعلق یعنی نکاح کو اسلام محض جائز ہی نہیں بلکہ اسے ایک نیکی، ایک کارِ ثواب، ایک عبادت قرار دیتا ہے۔ سنِ بلوغ کے بعد مرد اور عورت کے مجرد رہنے کو ناپسند کرتا ہے۔ ہر نوجوان کو اس بات پر اُکساتا ہے کہ تمدن کی جن ذمہ داریوں کا بار اس کے ماں باپ نے اُٹھایا تھا، اپنی باری آنے پروہ بھی انہیں اٹھائے۔ اسلام رہبانیت کو نیکی نہیں سمجھتا بلکہ اسے فطرت اللہ کے خلاف ایک بدعت ٹھہراتا ہے۔ وہ ان تمام رسموں اور رواجوں کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے جن کی وجہ سے نکاح ایک مشکل اور بھاری کام بن جاتا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں نکاح کو آسان ترین اور زنا کو مشکل ترین فعل ہونا چاہیے، نہ کہ نکاح مشکل اور زنا آسان ہو۔ اسی لیے اس نے چند مخصوص رشتوں کو حرام ٹھہرانے کے بعد تمام دُور و نزدیک کے رشتہ داروں میں ازدواجی تعلق کو جائز کر دیا ہے۔ ذات اور برادری کی تفریقیں اڑا کر تمام مسلمانوں میں آپس کے شادی بیاہ کی کھلی اجازت دے دی ہے۔ مہر اور جہیز اس قدر ہلکے رکھنے کا حکم دیا ہے جنہیں فریقین آسانی سے برداشت کر سکیں ۔ اور رسم نکاح ادا کرنے کے لیے کسی خاص قاضی، پنڈت، پروہت یا دفتر و رجسٹر کی کوئی ضرورت نہیں رکھی۔ اسلامی معاشرے کا نکاح ایک ایسی سادہ سی رسم ہے جو ہر کہیں دو گواہوں کے سامنے بالغ زوجین کے ایجاب و قبول سے انجام پا سکتی ہے مگر لازم ہے کہ یہ ایجاب و قبول خفیہ نہ ہو بلکہ بستی میں اعلان کے ساتھ ہو۔
خاندان کے اندر اسلام نے مرد کو ناظم کی حیثیت دی ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں ضبط قائم رکھے۔ بیوی کو شوہر کی اور اولاد کو ماں اور باپ دونوں کی اطاعت و خدمت کا حکم دیا ہے۔ ایسے ڈھیلے ڈھالے نظام خاندانی کو اسلام پسند نہیں کرتا، جس میں کوئی انضباط نہ ہو، اور گھر والوں کے اخلاق و معاملات درست رکھنے کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ نظم بہرحال ایک ذمہ دار ناظم ہی سے قائم ہو سکتا ہے اور اسلام کے نزدیک اس ذمہ داری کے لیے خاندان کا باپ ہی فطرۃً موزوں ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مرد گھر کا ایک جابر و قاہر فرماں روا بنا دیا گیا ہے اور عورت ایک بے بس لونڈی کی حیثیت سے اس کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اسلام کے نزدیک ازدواجی زندگی کی اصل روح محبت و رحمت ہے۔ عورت کا فرض اگر شوہر کی اطاعت ہے تو مرد کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے اختیارات کو اصلاح کے لیے استعمال کرے نہ کہ زیادتی کے لیے۔ اسلام ایک ازدواجی تعلق کو اسی وقت تک باقی رکھنا چاہتا ہے جب تک اس میں محبت کی شیرینی یا کم از کم رفاقت کا امکان باقی ہو۔ جہاں یہ امکان باقی نہ رہے وہاں وہ مرد کو طلاق اور عورت کو خلع کا حق دیتا ہے اور بعض صورتوں میں اسلامی عدالت کو یہ اختیار عطا کرتا ہے کہ وہ ایسے نکاح کو توڑ دے جو رحمت کے بجائے زحمت بن گیا ہو۔
خاندان کے محدود دائرے سے باہر قریب ترین سرحد رشتہ داری کی ہے جس کا دائرہ کافی وسیع ہوتا ہے جو لوگ ماں باپ کے تعلق سے یا بھائی اور بہنوں کے تعلق سے یا سُسرالی تعلق سے ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوں ، اسلام ان سب کو ایک دوسرے کا ہمدرد، مددگار اور غمگسار دیکھنا چاہتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ذوی القربیٰ یعنی رشتہ داروں سے نیک سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ حدیث میں صلۂ رحمی کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور اسے بڑی نیکی شمار کیا گیا ہے۔ وہ شخص اسلام کی نگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے جو اپنے رشتہ داروں سے سرد مہری اور طوطا چشمی کا معاملہ کرے۔ مگر اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ رشتہ داروں کی بے جا طرفداری کوئی اسلامی کام ہے۔ اپنے کنبے قبیلے کی ایسی حمایت جو حق کے خلاف ہو، اسلام کے نزدیک جاہلیت ہے۔ اسی طرح اگر حکومت کا کوئی افسر پبلک کے خرچ پر اقرباپروری کرنے لگے یا اپنے فیصلوں میں اپنے عزیزوں کے ساتھ بے جا رعایت کرنے لگے تو یہ بھی کوئی اسلامی کام نہیں ہے بلکہ ایک شیطانی حرکت ہے۔ اسلام جس صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے وہ اپنی ذات سے ہونی چاہیے اور حق و انصاف کی حد کے اندر ہونی چاہیے۔
رشتہ داری کے تعلق کے بعد دوسرا قریب ترین تعلق ہمسائیگی کا ہے۔ قرآن کی رُو سے ہمسایوں کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک رشتہ دار ہمسایہ، دوسرا اجنبی ہمسایہ، تیسرا وہ عارضی ہمسایہ جس کے پاس بیٹھنے یا ساتھ چلنے کا آدمی کو اتفاق ہو۔ یہ سب اسلامی احکام کی رُو سے رفاقت، ہمدردی اور نیک سلوک کے مستحق ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے ہمسائے کے حقوق کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ میں خیال کرنے لگا کہ شاید اب اسے وراثت میں حصہ دار بنایا جائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔ ایک اور حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ وہ شخص ایمان نہیں رکھتا جو خود پیٹ بھر کر کھا لے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھُوکا رہ جائے۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐسے عرض کیا گیا کہ ایک عورت بہت نمازیں پڑھتی ہے، اکثر روزے رکھتی ہے، خوب خیرات کرتی ہے مگر اس کی بدزبانی سے اس کے پڑوسی عاجز ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا وہ دوزخی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا ایک دوسری عورت ہے جس میں یہ خوبیاں تو نہیں ہیں مگر وہ پڑوسیوں کو تکلیف بھی نہیں دیتی۔ فرمایا وہ جنتی ہے۔ آنحضرتؐ نے لوگوں کو یہاں تک تاکید فرمائی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے اگر پھل لاؤ تو یا تو ہمسائے کے گھر میں بھیجو ورنہ چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ غریب ہمسائے کا دل نہ دُکھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا کہتے ہیں تو واقعی تو اچھا ہے اور اگر ہمسائے کی رائے تیرے بارے میں خراب ہے تو تو ایک برا آدمی ہے۔ مختصر یہ کہ اسلام ان سب لوگوں کو جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں آپس میں ہمدرد، مددگار اور شریک رنج و راحت دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے پر بھروسہ کریں اور ایک دوسرے کے پہلو میں اپنی جان، مال اور آبرو کو محفوظ سمجھیں ۔ رہی وہ معاشرت جس میں ایک دیوار بیچ رہنے والے دو آدمی برسوں ایک دوسرے سے نا آشنا رہیں اور جس میں ایک محلے کے رہنے والے باہم کوئی دلچسپی، کوئی ہمدردی اور کوئی اعتماد نہ رکھتے ہوں تو ایسی معاشرت ہر گز اسلامی معاشرت نہیں ہو سکتی۔
ان قریبی رابطوں کے بعد تعلقات کا وہ وسیع دائرہ سامنے آتا ہے جو پورے معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دائرے میں اسلام ہماری اجتماعی زندگی کو جن بڑے بڑے اصولوں پر قائم کرتا ہے وہ مختصراً یہ ہیں :
۱۔ نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تعاون کرو اور بدی و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔(قرآن)
۲۔ تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کی خاطر ہونی چاہیے، جو کچھ دو اس لیے دو کہ خدا اس کا دینا پسند کرتا ہے، اور جو کچھ روکو اس لیے روکو کہ خدا کو اس کا دینا پسند نہیں ہے۔ (حدیث)
۳۔ تم تو وہ بہترین امت ہو جسے دنیا والوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا ہے تمہارا کام نیکی کا حکم دینا اور بدی کو روکنا ہے۔(قرآن)
۴۔ آپس میں بدگمانی نہ کرو، ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہ کرو، ایک کے خلاف دوسرے کو نہ اُکساؤ، آپس کے حسد اور بُغض سے بچو، ایک دوسرے کی کاٹ میں نہ پڑو، اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو۔(حدیث)
۵۔ کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ نہ دو۔(حدیث)
۶۔ غیرحق میں اپنی قوم کی حمایت کرنا ایسا ہے جیسے تمہارا اونٹ کنوئیں میں گرنے لگا تو تم بھی اُس کی دُم پکڑ کر اُس کے ساتھ ہی جا گرے۔(حدیث)
۷۔ دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرو جو تم خود اپنے لیے پسند کرتے ہو۔(حدیث)