چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں کہ اجودھن کے قریب ایک ملارہتا تھا، جو بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے بلاوجہ عناد رکھتا تھااور ہر وقت ان کی مخالفت کرتا رہتا تھا۔ وہ اکثر بابا صاحبؒ کی مجلس میں بھی آیا کرتا تھااور حجت بازی کیا کرتا تھا
ایک دن مولوی صاحب آئے تو بابا صاحبؒ نے پوچھا"مولوی صاحب ! اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟"
مولوی صاحب نے بڑے تمسخرانہ انداز میں کہا"واہ جی! آپ کو یہ بھی پتہ نہیں!"
بابا صاحبؒ نے کہا " فرما دیجیئے"
مولوی صاحب کہنے لگے یہ تو ایک معمولی مسلمان بھی جانتا ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان ہیں
بابا صاحبؒ نے پوچھا کون کون سے؟
مولوی صاحب نے کہا یہی کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ،
بابا صاحبؒ نے فرمایامولوی صاحب آپ ایک اہم رکن تو چھوڑ ہی گئے۔
مولوی صاحب ہنسے اور کہنے لگے ، واہ! آپ نے کوئی نیا اسلام بنایا ہے۔
بابا صاحبؒ نے فرمایا:۔ میں نے کوئی نیا اسلام تو نہیں بنایا۔لیکن اسلام کا ایک اور نہایت ضروری اور اہم رکن بھی ہے۔ جسے آپ چھوڑ گئے ہیں
یہ سن کر مولوی صاحب بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے "کون سا رکن ہے؟"
بابا صاحبؒ نے جواب دیااسلام کا چھٹا رکن "روٹی" ہے ۔ یہ سن کر مولوی صاحب غضب ناک ہوگئےاور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ تم اسلام کے خلاف باتیں کرتے ہو،اور بابا صاحبؒ کی مجلس سے باہر نکل گئے
کچھ عرصے بعد مولوی صاحب حج کرنے کےلیے مکہ معظمہ گئے اوراور سات سال تک وہاں مقیم رہ کرعبادت و ریاضت کے علاوہ سات حج بھی کیے۔ سات سال کے بعد مولوی صاحب واپس وطن آرہے تھے ، کہ ان کا جہاز طوفان میں پھنس گیااور پاش پاش ہوگیا، اتفاق سے مولوی صاحب کو ایک تختہ مل گیا، جس پر بیٹھ کرانھوں نے اپنے آپ کو موجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، یہ تختہ بہتا ہوا آخر ایک کنارے پر جا لگا، مولوی صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا۔خیال تھا کہ یہاں کوئی آبادی ہوگی لیکن بڑی کوشش کے بعد بھی انہیں اس علاقے میں کوئی آبادی نظر نہ آئی۔ بھوک سے مولوی صاحب کا حال برا ہو رہا تھا۔ کئی دنوں کے فاقے نے ان کو بے حال کر دیا تھا اور وہ اس قدر نحیف و نزارہوچکے تھے کہ ان کیلئے تھوڑی دور چلنا بھی مشکل تھا۔ اس جگہ پر نہ کوئی گھاس تھی ، اور نہ کوئی پھلدار درخت۔ بڑے پریشان تھے، اور سوچنے لگے، اب یہاں بھوکوں مرنا ہوگا
ابھی مولوی صاحب انہی خیالوںمیں گم تھے کہ ان کے کان میں ایک آواز آئی:۔"ہم کھانا بیچتے ہیں"۔ دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھوں میں خوان اٹھائے ہوئے یہ آواز لگا رہا ہے۔ آپ نے بری منت سے کہا کہ او اللہ کے بندے ! میں کئی دن سے فاقے سے ہوں۔ خدا کیلئے مجھے کھانا دو۔ وہ شخص قریب آیااور کہا، کھانا صرف قیمت پر مل سکتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا، میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ، لللہ، مجھ پر مہربانی کرو۔ اس شخص نے کہا قیمت ہے تو کھانا لے لو ن، ورنہ میں چلا۔ مولوی صاحب نے اس شخص کو بہت سے اسلامی مسائل بتائے کہ کسی بے کس پر رحم کرنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے ۔ لیکن وہ شخص نہ مانا۔آخر اس شخص نے پوچھا تم کہاں سے آرہے ہو ؟ مولوی صاحب نے بتایا کہ میں سات حج کر کے آ رہا ہوں ۔ اس آدمی نے کہا کہ اگر ساتوں حج کا ثواب مجھے دے دو تو میں کھانا تمہیں دے دوں گا۔ پہلے تو مولوی صاحب ہچکچائے ، لیکن جب دیکھا کہ وہ شخص کھانا لیے جا رہا ہے تو سوچنے لگے جان بچانے کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ساتوں حجوں کا ثواب دے دیا جائے۔وطن والے تو یہی خیال کریں گے کہ میں نے سات حج کیے ہیں، یہ سوچ کر اس شخص کو آواز دی اور کہا کہ میں نے سات حج کا سواب تمہاری نذر کیامجھے کھانا دے دو، اس شخص نے ھانا مولوی صاحب کے آگے رکھ دیا۔
کچھ دن کے بعد جب وہ شخص پھر نہ آیا اور مولوی صاحب بھوک سےبے حال ہو نے لگے تو پھر وہی شخص کھانا لے کر آگیا، اب کے اس نے مولوی صاحب سے کہا کہ اگر تم ساری عمر کی نمازوں کا ثواب مجھے دے دوتو میں تم کو کھانا دے سکتا ہوں ۔ مولوی صاحب نے مجبور ہو کر یہ بات منظور کر لی اور ساری عمر کی نمازیں دے کر کھانا کھا لیا۔ چند دن تک مولوی صاحب کو پھر بھوکا رہنا پڑا تو پھر وہ شخص آیا اور کہا اگر تم اپنی زکوۃ کا ثواب مجھے دو تو میں تمہیں کھانا دے سکتا ہوں ۔ مولوی صاحب کیلئے اس کے سوا چارہ نہیں تھاانہوں نے ساری زندگی کی زکوۃ کا ثواب دے کر کھانا کھا لیا۔ چوتھی بار جب وہ شخص کھانا لے کر آیا تو مولوی صاحب نے کہا کہ اب میں کچھ بھی تو نہیں دے سکوں گا ، اب تم اللہ کیلئے مجھے کھانا دے دو۔ اس شخص نے کہا مفت تو کھانا نہیں مل سکتا، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں یہ کاغذ اور قلم دوات لایا ہوں ، آپ اس پر لکھ دیں میں نے سات حج، ساری عمر کی نمازیں، اور ساری عمر کی زکوۃ اس شخص کو روٹی کے بدلے دے دی۔ مجبور ہو کر مولوی صاحب نے یہ سب کچھ لکھ دیا اور کھانا کھا لیا
ایک دن مولوی صاحب کو دور سے ایک جہاز آتا ہوا دکھائی دیا ۔ انہوں اپنی پگڑی ہوا میں لہرائی ، جہاز والوں نے ان کو دیکھ لیا اور ان کی طرف ایک کشتی بھیجی۔ اس طرح مولوی صاحب وطن پہنچے اور وگوں میں اپنے سفر حج اور قیام مکہ کے واقعات سناتے رہے۔ کچھ مدت بعد مولوی صاحب حضرت بابا صاحبؒ کی مجلس میں گئے ۔ مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں ۔ بابا صاحب ؒنے پھر پوچھا:۔ مولوی صاحب اسلام کے کتنے رکن ہوتے ہیں؟
مولوی ساحب نے جواب دیا ، پانچ۔ بابا صاحب نے فرمایا اب کے آپ پھر چھٹے رکن روٹی کو بھول گئے ۔ مولوی صاحب کچھ ناراض سے ہوگئےاور کہا کہ اسلام کا کوئی چھٹا رکن نہیں ہے۔ بابا صاحب ؒ نے کہا اگاگر میں ثابت کر دوں تو؟ ۔ مولوی صاحب نے کہا ، میں مان لوں گا۔ حضرت بابا صاحبؒ اٹھے ، حجرے کے اندر گئےاور ایک بڑی سی کتاب اٹھالائے اور کچھ دیر تک اس کے ورق الٹ پلٹ کرتے رہے، آکر ایک جگہ ٹھہر گئے اور مولوی صاحب کو قریب بلا کر فرمایا اسے پڑھیے۔ مولوی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کتاب میں وہی تحریر درج تھی جومولوی صاحب نے اس شخص کو لکھ کر دی تھی" میں نے سات حج ، ساری عمر کی نمازیں ، اور ساری عمر کی زکوۃ اس شخص کو روٹی کے بدلے دے دی"
ایک دن مولوی صاحب آئے تو بابا صاحبؒ نے پوچھا"مولوی صاحب ! اسلام کے کتنے ارکان ہیں؟"
مولوی صاحب نے بڑے تمسخرانہ انداز میں کہا"واہ جی! آپ کو یہ بھی پتہ نہیں!"
بابا صاحبؒ نے کہا " فرما دیجیئے"
مولوی صاحب کہنے لگے یہ تو ایک معمولی مسلمان بھی جانتا ہے کہ اسلام کے پانچ ارکان ہیں
بابا صاحبؒ نے پوچھا کون کون سے؟
مولوی صاحب نے کہا یہی کلمہ، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ،
بابا صاحبؒ نے فرمایامولوی صاحب آپ ایک اہم رکن تو چھوڑ ہی گئے۔
مولوی صاحب ہنسے اور کہنے لگے ، واہ! آپ نے کوئی نیا اسلام بنایا ہے۔
بابا صاحبؒ نے فرمایا:۔ میں نے کوئی نیا اسلام تو نہیں بنایا۔لیکن اسلام کا ایک اور نہایت ضروری اور اہم رکن بھی ہے۔ جسے آپ چھوڑ گئے ہیں
یہ سن کر مولوی صاحب بہت برہم ہوئے اور کہنے لگے "کون سا رکن ہے؟"
بابا صاحبؒ نے جواب دیااسلام کا چھٹا رکن "روٹی" ہے ۔ یہ سن کر مولوی صاحب غضب ناک ہوگئےاور یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ تم اسلام کے خلاف باتیں کرتے ہو،اور بابا صاحبؒ کی مجلس سے باہر نکل گئے
کچھ عرصے بعد مولوی صاحب حج کرنے کےلیے مکہ معظمہ گئے اوراور سات سال تک وہاں مقیم رہ کرعبادت و ریاضت کے علاوہ سات حج بھی کیے۔ سات سال کے بعد مولوی صاحب واپس وطن آرہے تھے ، کہ ان کا جہاز طوفان میں پھنس گیااور پاش پاش ہوگیا، اتفاق سے مولوی صاحب کو ایک تختہ مل گیا، جس پر بیٹھ کرانھوں نے اپنے آپ کو موجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، یہ تختہ بہتا ہوا آخر ایک کنارے پر جا لگا، مولوی صاحب نے خدا کا شکر ادا کیا۔خیال تھا کہ یہاں کوئی آبادی ہوگی لیکن بڑی کوشش کے بعد بھی انہیں اس علاقے میں کوئی آبادی نظر نہ آئی۔ بھوک سے مولوی صاحب کا حال برا ہو رہا تھا۔ کئی دنوں کے فاقے نے ان کو بے حال کر دیا تھا اور وہ اس قدر نحیف و نزارہوچکے تھے کہ ان کیلئے تھوڑی دور چلنا بھی مشکل تھا۔ اس جگہ پر نہ کوئی گھاس تھی ، اور نہ کوئی پھلدار درخت۔ بڑے پریشان تھے، اور سوچنے لگے، اب یہاں بھوکوں مرنا ہوگا
ابھی مولوی صاحب انہی خیالوںمیں گم تھے کہ ان کے کان میں ایک آواز آئی:۔"ہم کھانا بیچتے ہیں"۔ دیکھا کہ ایک شخص اپنے ہاتھوں میں خوان اٹھائے ہوئے یہ آواز لگا رہا ہے۔ آپ نے بری منت سے کہا کہ او اللہ کے بندے ! میں کئی دن سے فاقے سے ہوں۔ خدا کیلئے مجھے کھانا دو۔ وہ شخص قریب آیااور کہا، کھانا صرف قیمت پر مل سکتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا، میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ، لللہ، مجھ پر مہربانی کرو۔ اس شخص نے کہا قیمت ہے تو کھانا لے لو ن، ورنہ میں چلا۔ مولوی صاحب نے اس شخص کو بہت سے اسلامی مسائل بتائے کہ کسی بے کس پر رحم کرنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے ۔ لیکن وہ شخص نہ مانا۔آخر اس شخص نے پوچھا تم کہاں سے آرہے ہو ؟ مولوی صاحب نے بتایا کہ میں سات حج کر کے آ رہا ہوں ۔ اس آدمی نے کہا کہ اگر ساتوں حج کا ثواب مجھے دے دو تو میں کھانا تمہیں دے دوں گا۔ پہلے تو مولوی صاحب ہچکچائے ، لیکن جب دیکھا کہ وہ شخص کھانا لیے جا رہا ہے تو سوچنے لگے جان بچانے کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ساتوں حجوں کا ثواب دے دیا جائے۔وطن والے تو یہی خیال کریں گے کہ میں نے سات حج کیے ہیں، یہ سوچ کر اس شخص کو آواز دی اور کہا کہ میں نے سات حج کا سواب تمہاری نذر کیامجھے کھانا دے دو، اس شخص نے ھانا مولوی صاحب کے آگے رکھ دیا۔
کچھ دن کے بعد جب وہ شخص پھر نہ آیا اور مولوی صاحب بھوک سےبے حال ہو نے لگے تو پھر وہی شخص کھانا لے کر آگیا، اب کے اس نے مولوی صاحب سے کہا کہ اگر تم ساری عمر کی نمازوں کا ثواب مجھے دے دوتو میں تم کو کھانا دے سکتا ہوں ۔ مولوی صاحب نے مجبور ہو کر یہ بات منظور کر لی اور ساری عمر کی نمازیں دے کر کھانا کھا لیا۔ چند دن تک مولوی صاحب کو پھر بھوکا رہنا پڑا تو پھر وہ شخص آیا اور کہا اگر تم اپنی زکوۃ کا ثواب مجھے دو تو میں تمہیں کھانا دے سکتا ہوں ۔ مولوی صاحب کیلئے اس کے سوا چارہ نہیں تھاانہوں نے ساری زندگی کی زکوۃ کا ثواب دے کر کھانا کھا لیا۔ چوتھی بار جب وہ شخص کھانا لے کر آیا تو مولوی صاحب نے کہا کہ اب میں کچھ بھی تو نہیں دے سکوں گا ، اب تم اللہ کیلئے مجھے کھانا دے دو۔ اس شخص نے کہا مفت تو کھانا نہیں مل سکتا، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ میں یہ کاغذ اور قلم دوات لایا ہوں ، آپ اس پر لکھ دیں میں نے سات حج، ساری عمر کی نمازیں، اور ساری عمر کی زکوۃ اس شخص کو روٹی کے بدلے دے دی۔ مجبور ہو کر مولوی صاحب نے یہ سب کچھ لکھ دیا اور کھانا کھا لیا
ایک دن مولوی صاحب کو دور سے ایک جہاز آتا ہوا دکھائی دیا ۔ انہوں اپنی پگڑی ہوا میں لہرائی ، جہاز والوں نے ان کو دیکھ لیا اور ان کی طرف ایک کشتی بھیجی۔ اس طرح مولوی صاحب وطن پہنچے اور وگوں میں اپنے سفر حج اور قیام مکہ کے واقعات سناتے رہے۔ کچھ مدت بعد مولوی صاحب حضرت بابا صاحبؒ کی مجلس میں گئے ۔ مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں ۔ بابا صاحب ؒنے پھر پوچھا:۔ مولوی صاحب اسلام کے کتنے رکن ہوتے ہیں؟
مولوی ساحب نے جواب دیا ، پانچ۔ بابا صاحب نے فرمایا اب کے آپ پھر چھٹے رکن روٹی کو بھول گئے ۔ مولوی صاحب کچھ ناراض سے ہوگئےاور کہا کہ اسلام کا کوئی چھٹا رکن نہیں ہے۔ بابا صاحب ؒ نے کہا اگاگر میں ثابت کر دوں تو؟ ۔ مولوی صاحب نے کہا ، میں مان لوں گا۔ حضرت بابا صاحبؒ اٹھے ، حجرے کے اندر گئےاور ایک بڑی سی کتاب اٹھالائے اور کچھ دیر تک اس کے ورق الٹ پلٹ کرتے رہے، آکر ایک جگہ ٹھہر گئے اور مولوی صاحب کو قریب بلا کر فرمایا اسے پڑھیے۔ مولوی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کتاب میں وہی تحریر درج تھی جومولوی صاحب نے اس شخص کو لکھ کر دی تھی" میں نے سات حج ، ساری عمر کی نمازیں ، اور ساری عمر کی زکوۃ اس شخص کو روٹی کے بدلے دے دی"