اسلام کونہیں ۔ مسلمانوں کو در پیش چیلنج

اجمل

محفلین
اااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااااا
 

باذوق

محفلین
جزاک اللہ خیر
میں نے آپ کے فیصلے پر ، اپنے بلاگ پر ایک تحریر لگانے جا رہا تھا کہ آپ کے اس مضمون پر نظر پڑی۔ خیر ، میں کچھ الفاظ وہاں‌ تبدیل کر لوں گا۔
آپ کے لیے تمام تر نیک تمنائیں‌ اور دلی دعائیں ۔
 

Dilkash

محفلین
بہت شکریہ محترم اجمل بزرگوارم۔۔
اللہ تعالی اپ جیسے بزرگوں کا سایہ ہمیشہ قائم اور دائم رکھے امین یا رب۔۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ اجمل صاحب ان شاء اللہ اپ کے واپسی کے اس فیصلے سے ہماری حوصلے اور بھی بلند ہوں گے

ابھی مجھے ایک کتاب ملی ہے "انکار حدیث کے نتائج " تالیف شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دام مجدھم کا ہے اس میں کہیں پر برق صاحب ہے اور کہیں اور دوسرے حضرات ان کے اعتراضات اور جوابات ہے لیکن فعل حال میں نے فضائل جہاد شروع کی ہے جس کا میں ایک ایک باب یہاں پر پوسٹ کرتا ہوں ان شاء اللہ وہ مکمل ہو جائے گی تو پھر اس کو ٹائپ کرونگا
دعاؤں میں یاد رکھنا

واجد
 

خاور بلال

محفلین
اجمل صاحب!
السلام علیکم

آپ کی موجودگی سے حوصلہ ملا۔ گذشتہ چند ہفتوں سے ایک صاحب مخصوص موضوع پر فعال ہیں۔ نورا کُشتی کے شوقین معلوم ہوتے ہیں، اسی لیے اردو محفل کے سادے اور سطحی دینی علم رکھنے والوں سے کھیل رہے ہیں اور مخاطب کو لاجواب کرنے کا مشغلہ شروع کررکھا ہے۔ قلعلے پر قلعہ فتح کرنے کی دھن میں بہت آگے جاچکے ہیں۔ ان کی تحاریر پڑھ کر میں نے "سنت کی آئینی حیثیت" پڑھنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تنقیحات میں مستشرقین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے جوابات بھی دیے ہیں جو انکارِ حدیث ہی کے حوالے سے ہیں۔ امید ہے یہ مطالعہ آپ کے لیے بھی معاون ثابت ہوگا۔

دعاؤں کی درخواست ہے
 
اُردو محفل میں بھی عِلم کے نام پر روایات ۔ کتب روایات ۔ مَولَوی اور مَولَویت کو موضوع بنا کر مختلف طریقوں سے درپردہ دین اسلام کی بنیاد [قرآن و حدیث] کو مشکوک بنانے کی سعیِ لاحاصل کی گئی اور کی جا رہی ہے ۔ انشاء اللہ میں کوشش کروں گا کہ اللہ کے فضل سے مجھے اپنی ستّر سالہ زندگی کے آخری ساٹھ سال میں جو مطالعہ میسّر آیا اور جو تجربات و مشاہدات ہوئے ان کی روشنی میں متعلقہ حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں ۔

میری مؤدبانہ اور انکسارانہ دُعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری راہنمائی اور مدد فرمائے ۔ نیک دل قارئین سے التماس ہے کہ وہ میری راہنمائی فرمائیں اور میرے نیک ارادے کی کامیابی کیلئے دعا کریں ۔
آپ کے یہاں ٹھہرنے کا ایک بار پھر مخلصانہ شکریہ۔ آپ اپنے علم و خزینہء اعلام کے باعث، بہت نمایاں‌نظر آتے ہیں۔ یقیناَ‌ہم سب آپ کے علم سے فائیدہ اٹھا سکتے ہیں۔

میری مؤدبانہ، مخلصانہ اور انکسارانہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کی راہنمائی اور مدد فرمائیں۔ ہم سب کو قرآن اور اقوال رسول کی مدد سے حقائق واضح طور پر سمجھنے میں مدد فرمائے۔
میری ذاتی کوشش رہے گی کہ درست خیالات پیش کرنے میں آپ جیسے نیک انسان کی جو مدد ہوسکے وہ کروں۔ اور اپنی ناقص رائے جس طرح ممکن ہو پیش کروں۔ کہ اس سے مثبت سمت میں پیشرفت ہواور کسی کی کردار کشی نہ ہو۔Relationtiop of Clergy and the King برصغیر تک ہی نہیں محدود۔ اس بارے میں غیر اسلامی معاشرے اور تاریخ میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ بہر حال اس موضوع کو ہم وہیں رکھیں گے۔ یہاں آپ کی نگارشات کا مخلصانہ انتظار رہے گا اور یقین ہے کہ اس سے بہت کچھ نیا سیکھنے کو ملے گا۔
دو التماس،
1۔ اگر میرے سوالات کے جوابات بھی عنایت ہوتے رہیں تو نوازش ہوگی۔ کہ مدبرانہ اور منطقانہ بحث کے لئے لازم و ملزوم ہے، اور دوست کردار کشی سے گریز فرمائیں۔ جس کو بھی علم ہے اظہار کردے۔
2۔ قرآن حکیم کی مکمل آیات میں ہی اللہ تعالی کی حکمت ہے، مکمل آیات درج ہوں اور اگر لنک بھی فراہم کیا گیا ہو تو بہت ہی تعلیمی رہے گا۔ اقوال رسولِ صلعم کے لیے بھی یہی طریقہ رہے، اگر ممکن ہو، تو عین نوازش ہوگی۔

امید یہ ہے کہ اس طریقے سے ہم سب کی درست رہنمائی ہوگی،

ہم سب کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اللہ بزرگ و برتر سے دعا گو۔ اور آپ کی نگارشات کا منتظر۔

والسلام
 
درج ذیل معلومات آپ سب سے استدعا ہے کہ آپ خود دیکھ کر بتائیے کہ درج حوالہ درست ہے یا نہیں؟

1۔ صحیح بخاری کی موجودہ کاپی، درجنوں متن پر مشتمل ہیں۔ جو کہ دنیا کی کئی بڑی لایبریریوں میں موجود ہے۔ بہت سے بیانات، میں مختلف متن میں فرق ہے۔ جبکہ ہندوستانی کاپی میں یہ فرق سائیڈ‌ نوٹ میں دیے ہیں۔
جہاں تک امام حافظ الیونونی کی تصنیف کا تعلق ہے، یہ نسخہ صرف چند سال پیشتر برآمد ہوا اور پہلی بار 2002 میں طبع ہوا۔
اس بات میں کوئی وزن نہیں کے آج کے صحیح بخاری کے نسخے ایک ہی نسخے سے بنے ہیں۔

صحیح بخاری کے درجنوں قسم کے نسخے آج استعمال ہوتے ہیں، جیسے عمدۃ القاری آئینی، ارشاد السری، ال توصیح الصیوتی، شرح ابن بتال، تذکرۃ السندی، جماید الدراری۔ امداد الباری۔ العمائد الدراری۔ تذکرۃ ابن رضب حنبلی وغیرہ۔

یہ صرف چند نسخے ہین صحیح بخاری کے۔

دمشق کی لائبریری کے نسخے::
1۔ محمد ابن احمد ابن عبدالرحیم کا دستی نسخہ، ذی الحجہ 739 حجری۔ (‌امام محمد اسماعیل بخاری نے 256ھ میں وفات پائی)
2۔ محمد ابن عثمہ ابن محمد ابن عثمان البعالی۔ 178 صفحات۔ شائع کردہ، ملا عثمان الکردی ٹرسٹ، متعدد علماء نے پڑھ کر اس کی تصحیح کی۔ اس میں صحیح، حسن، ضعیف اور منکراقسام کی احادیث شامل ہیں۔ جناب یوسف بدوی نے اس کا آخری معائنہ اشاعت کے بعد کیا۔ صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث ان کتب کے فٹ نوٹ میں درج ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب۔
 

ظفری

لائبریرین
محترم بزرگوار اجمل صاحب ۔۔ ! آپ کی یہاں موجودگی ہم سب کے لیئے نہ صرف باعثِ افتخار ہے بلکہ اس بات کی بھی تصدیق ہے کہ ہم سے اگر کوئی بھول چوک ہوگئی تو آپ ہماری رہنمائی کرسکتے ہیں ۔ آپ کا علم ، صبرو استقلال اور بزرگی ہم سب کے لیئے ایک سائے دار درخت کی حیثیت رکھتی ہے ۔ میں آپ کے سامنے بلکل ایک طفلِ مکتب کی مانند ہوں ۔ اور یہ کہ بھی میں آپ کے سامنے کوئی بڑی بات کا کہنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ مگر پھر بھی آپ کے اس کے اس ٹاپک پر کچھ کہنے کی جسارت کروں گا ۔

گذشتہ کچھ دنوں سے محفل پر کچھ پوسٹوں کی وجہ سے ایک تناؤ کی سی صور تحال پیدا ہوگئی ہے ۔ ہر کوئی اپنی رائے مستند ہونے کی ضمانت دے رہا ہے ۔ بنیادی طور سے ہم میں سے کوئی بھی اتنا عالم و فاضل نہیں کہ مستند دلیل اور استدلال پیش کرے ۔ ہماری معلومات کا مخرج جمع کردہ معلومات ہیں ۔ جو مختلف مکتب فکر کے توسط سے ہم سب تک پہنچتی ہیں اور ہم سب پھر اسی تناظر میں ایک دوسرے کے رائے اور خیالات کو پرکھتے ہیں ۔

اسلام کیا ہے ۔؟ سچ یہ ہے کہ یہ غزل یا جوابِ آں غزل کا معاملہ نہیں ۔ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اسلام کے بارے میں کسے اذنِ کلام ہونا چاہیئے ۔ یا کون یہ استحقاق رکھتا ہے کہ اسلام کے باب میں اس کا فرمایا ہوا مستند شمار ہو ۔ اگر کسی نے دشتِ ادب کی کبھی سیاحی نہیں کی ہو ، اسالیبِ کلام کے تنوع سے واقف نہ ہو تو ہم اس کا یہ حق تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ وہ شعر کے حسن و قبح کا فیصلہ کرے ۔ اگر کوئی طب سے واقف نہ ہو تو کوئی بھی ہوش مند علاج کی غرض سے اس کے پاس نہیں جاتا ۔ اسی اصول پر کیا دین کے معاملے میں کسی ایسے شخص کی بات پر اعتبار کیا جاسکتا ہے جو قرآن سے واقف ہے نہ سنت سے ۔ حدیث کو جانتا ہے نہ فقہ کو ۔ پھر یہ کہ کیا محض اس بنیاد پر ایک آدمی ہم سے مختلف رائے رکھتا ہے تو ہم اس کی بات ماننے سے انکار کر دیں ۔

ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ مذہبی سیاست دانوں کی اکثریت علم کے حوالے سے ایسی شہرت نہیں رکھتی کہ علمی معاملات میں اس کی بات پر کان لگائیں جائیں ۔ سیاست ایک ہمہ تن کام ہے ۔ اور یہ کسی سوکن کو پسند نہیں کرتی ۔ لہذا یہاں یہ سوچ پید اہوتی ہے کہ کیا ایسے ہی لوگ تنہا یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کے حوالے سے اپنی رائے دیں۔ ان کے علاوہ کیا یہ حق کسی اور کو نہیں دیا جاسکتا ۔ ؟ ۔
میرے خیال میں یہ بات اتنی ہی بے بنیاد ہے جتنی کہ پہلی بات ۔ اگر کوئی اپنے مسلک یا فرقے کے نظریات کی وجہ سے اپنی کوئی رائے رکھتا ہے اور یہ صلاحیت کسی اور میں موجود ہے تو ا سکو بھی یہ حق حاصل ہے وہ اپنی رائے دے ۔ دین کے معاملے میں کلام کرے ۔ اس کی بات کو توجہ سے سنا جائے اور پھر اپنی کوئی مستند رائے سامنے لائی جائے ۔ اسی پیمانے پر ڈاکٹر خالد معسود ، خورشید احمد ، جاوید احمد غامدی ، ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسے بے شمار صاحبانِ علم کا یہ حق ثابت ہے کہ وہ دینی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کریں ۔ بلاشبہ یہ سب لوگ یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ جب دین کے سلسلے میں وہ کلام کریں تو ان کو توجہ سے سنا جائے ۔ ظاہر ہے کہ روایتی علماء اور ان میں سے کوئی پیغمبر نہیں ہے ۔ ان میں سے ہر ایک آدمی کی بات میں صحت کا جتنا امکان ہے ، اُتنا ہی غلطی کا بھی امکان موجود ہے ۔ علم کی دنیا میں اہمیت دلیل اور استدلال کی ہے ۔ جس کے موقف میں جان ہوگی وہ بہرحال عقلِ انسانی کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوجائے گی ۔

دین کے معاملے میں دوسرا درجہ ان لوگوں کا ہے جو ایک طالب علمانہ مزاج کے ساتھ ان سب لوگوں سے استفادہ کرتے ہیں ( جن کا ذکر میں نےدوسرے پیراگراف میں کیا ہے ) ۔ اور کسی ایک صاحبِ علم کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لیئے چند مبادیات سے آگاہی ضروری ہے ۔ بصورتِ دیگر اہلیت ثابت نہیں ہوتی ۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلکی اور گروہی تعصب کا جلد شکار ہوجاتے ہیں اور اختلافِ رائے کو دین سے بے خبری اور قرآن و سنت سے بغاوت یا جہالت سے کم تر کوئی حیثیت دینے پر تیار نہیں ہوتے ۔ میں یہاں یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اس معاملے میں ہمارے اہلِ علم نے اپنے معتقدین کی صحیح تربیت نہیں کی ۔ ایک آدھ کے سوا ، کوئی ایسا صاحبِ علم نہیں جو اپنے حلقے میں بیٹھنے والے کو یہ تلقین کرتا ہو کہ وہ دوسرے مسلک یا مکتبِ فکر کے علماء کی مجلسوں میں بھی جائے ۔ اور ان سے سیکھے ۔ یا یہ کہ اس کی رائے میں غلطی کا امکان موجود ہے اور دوسرے کی رائے میں صحت کا امکان موجود ہے ۔ ( اور میں یہی رویہ یہاں محفل میں دیکھ رہا ہوں ) ۔

اسلام کیا ہے ۔ ؟ یہ بتانے کا ہر کسی کوحق نہیں ۔ اس معاملے میں اس بات کی توجہ مستحق ہے ۔ جس کے علم وفضل کی گواہی ہمارے پاس موجود ہے ۔ یہ گواہی ضروری نہیں کہ کسی دینی مدرسے سے کوئی سند حاصل کی ہو بلکہ کوئی کتاب اور کوئی دوسرا علمی کارنامہ بھی ہوسکتی ہے ۔ آئن اسٹائن کے علمی کمالات فزکس میں ا سکے مقام کا تعین کرتے ہیں ۔ علامہ اقبال کی شاعری اور خطبات ان کے علم وفضل کے گواہ ہیں ۔ ان شہادتوں کی موجودگی میں یہ بات بے معنی ہوگی کہ آئن اسٹائن میٹرک کے امتحان میں ناکام ہوگیا تھا یا علامہ اقبال ایم اے فلسفہ میں تھرڈ ڈویژن میں کامیاب ہوئے تھے ۔
 

فرید احمد

محفلین
صحیح بخاری کے درجنوں قسم کے نسخے آج استعمال ہوتے ہیں، جیسے عمدۃ القاری آئینی، ارشاد السری، ال توصیح الصیوتی، شرح ابن بتال، تذکرۃ السندی، جماید الدراری۔ امداد الباری۔ العمائد الدراری۔ تذکرۃ ابن رضب حنبلی وغیرہ۔

یہ صحیح بخاری کی شرحیں ہیں ، متن نہیں ۔
متوں بہت سے ہیں ، اور ان میں جو فرق ہے وہ کوئی اتنا اہم نہیں جتنا بائبل کے نسخوں میں ہے ۔
کچھ الفاظ کی غلط کتابت کے ہیں ، جو دیگر کتب حدیث سے صحیح کر لیے جاتے ہیں ۔
بخاری کوئی قرآن نہیں کہ اس کے الفاظ خدا کے علاوہ کہیں نہ ملے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال افعال وغیرہ کا مجموعہ ہے ، اور اس طرح کی دوسری کتابیں بھی ہیں ، محمد بن اسماعیل بخاری نے جس راوی سے حدیث لی ہے ، اس کا نام لکھا ہے ، اس نے جس سے سنی اس کا نام لکھا ، اور صراحۃ یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک یا کسی صحابی تک ہے ، اور اس طرح سند میں جن حضرات کے نام آتے ہیں ، ان کی شناخت کے لیے ایک مستقل فن "اسمائ الرجال " کا ہے ، اس میں ہر ایک پیدائش ، وفات ، دینی حالت ، عقائد ، تعلیم و تعلم ، شیوخ و تلامذہ کی تفصیل ، مختصرا یا مفصلا ، درج ہے ۔
اس طرح یہ انہی حضرات کی روایت کردہ احادیث دوسری کتب حدیث میں ، مثلا مسلم شریف، ترمذی شریف، طحاوی شریف، موطا امام مالک، موطا امام محمد، مسند احمد بن حنبل، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف، وغیرہ میں موجود ہیں ، پس راوی کے الفاظ کی کتابت اگر کسی نے بخاری میں غلط طریقہ سے لکھی ہے تو دوسری کتابوں میں اس راوی کی حدیث سے صحیح الفاظ متعین ہو جاتے ہیں ۔

یہ اعتراض بالکل بے معنی اور بے وزن ہے کہ کتب احادیث 250 سال بعد لکھی گئی ہیں ،
اس لیے کہ ان مرتب کرنے والوں نے جن احادیث لی ہیں ، انہوں نے ان کئے حافظہ کی بنیاد پر لی ہیں ، ان حضرات نے اپنی راوی در راوی حافظہ سے محفوظ کی ہوئی روایات جمع کی ہیں ،
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی کے حافظہ سے بیان کی ہوئی باتوں پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
لگتا ہے آپ کے نزدیک حافظہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
آخر کار فن اسماء الرجال ، کتب حدیث کی شرحیں ، اس پر طول طویل بحثیں اسی لیے لیں کہ حدیث کے نام پر کوئی دوسری خلاف اسلام بات در نہ آئے ۔۔

اس سے قبل ایک پوسٹ میں آپ نے ایک آیت کے ضمن میں کچھ حسابات درج کیے تھے ، کیوں پیش کیے ؟ کیا وہ قرآن کی طرح لازم ایمان ہیں ؟ اس کے بغیر قران فہمی ممکن نہیں ؟ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس میں کوئی غلطی کا امکان ہے یا نہیں ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
جزاک اللہ خیر
میں نے آپ کے فیصلے پر ، اپنے بلاگ پر ایک تحریر لگانے جا رہا تھا کہ آپ کے اس مضمون پر نظر پڑی۔ خیر ، میں کچھ الفاظ وہاں‌ تبدیل کر لوں گا۔
آپ کے لیے تمام تر نیک تمنائیں‌ اور دلی دعائیں ۔



باذوق، میں اب تک آپ کی عزت کرتا آیا ہوں لیکن شاید آپ خود کو اس عزت کے قابل نہیں گردانتے۔ آپ کو آخر کس بات کی تکلیف ہے؟ کیا آپ کو اس بات کا رنج ہے کہ میں نے کارتوس کو نکیل ڈال دی تھی؟ اور کیا آپ کو محفل فورم پر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے سے ڈر لگتا ہے کہ کبھی یہاں پوسٹ کیے موضوعات کے جواب اردو مجلس پر لکھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی اپنے بلاگ پر جا کر واویلا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو اپنی علمیت اور مناظرہ بازی کا اتنا ہی زعم ہے تو یہاں رہ کر ہی کیوں نہیں بات کرتے؟ صرف اس لیے کہ اس سے آپ کا کھوکھلا پن سامنے آجائے گا؟

اور محفل فورم کی ماڈریشن پالیسی پر آپ کیوں پیچ و تاب کھا رہے ہیں؟ کیا میں نے ابھی تک آپ کی کوئی پوسٹ‌ حذف کی ہے؟ الٹا میں نے ایک مرتبہ شاکرالقادری صاحب کو آپ کے کچے چٹھے کھولنے سے باز رکھا تھا جب وہ آپ کی لکھی ہوئی محرم کی داستانیں یہاں پیش کرنے لگے تھے۔ یہ بات آپ کیسے بھول گئے؟ فی الحال میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہوں گا کہ آپ اگر کوئی علمی و مذہبی مواد پیش کرنا چاہتے ہیں تو اس سے ہم سب کو فائدہ ہوگا۔ اور اگر آپ اردو مجلس یا مختلف بلاگز پر جاکر اردو محفل پر کیچڑ‌ اچھالنا چاہتے تو بصد شوق یہ کام کرکے دیکھ لیں۔ آپ سے پہلے ہی کئی بلاگز اور ویب سائٹس پر فل ٹائم یہی کام ہو رہا ہے۔
 
فرید احمد صاحب - شکریہ، مفید معلومات کا اور مفید خیالات کا۔ اس مضمون کا لہجہ نرم ہے اور آپ کے بیان سے جو سوالات جنم لیتے ہیں درج کئے ہیں۔

میرا بیان:
1۔میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغ‌نہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔

2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔

یہ صحیح بخاری کی شرحیں ہیں ، متن نہیں ۔۔۔۔۔
ان کی شناخت کے لیے ایک مستقل فن "اسمائ الرجال " کا ہے ، اس میں ہر ایک پیدائش ، وفات ، دینی حالت ، عقائد ، تعلیم و تعلم ، شیوخ و تلامذہ کی تفصیل ، مختصرا یا مفصلا ، درج ہے ۔
اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟
مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟

اس طرح یہ انہی حضرات کی روایت ۔۔۔۔ اگر کسی نے بخاری میں غلط طریقہ سے لکھی ہے تو دوسری کتابوں میں اس راوی کی حدیث سے صحیح الفاظ متعین ہو جاتے ہیں ۔
بہت شکریہ اس انفارمیشن کا۔
یہ اعتراض بالکل بے معنی اور بے وزن ہے کہ کتب احادیث 250 سال بعد لکھی گئی ہیں ،
اس لیے کہ ان مرتب کرنے والوں نے جن احادیث لی ہیں ، انہوں نے ان کئے حافظہ کی بنیاد پر لی ہیں ، ان حضرات نے اپنی راوی در راوی حافظہ سے محفوظ کی ہوئی روایات جمع کی ہیں ،
بہت شکریہ۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی کے حافظہ سے بیان کی ہوئی باتوں پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
لگتا ہے آپ کے نزدیک حافظہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
آخر کار فن اسماء الرجال ، کتب حدیث کی شرحیں ، اس پر طول طویل بحثیں اسی لیے لیں کہ حدیث کے نام پر کوئی دوسری خلاف اسلام بات در نہ آئے ۔۔
مجھے حافظے سے بتائی باتوں کے بتانے والے پر اعتماد نہیں۔ اس کی وجہ؟
1۔ سنی سنائی بات کی گواہی کی اہمیت قران سے ثابت نہیں۔
2۔ یہ سلسلہ اگر امام بخاری کی کتاب کی تصنیف کے بعد منقطع ہوا تو وہ 'اصل بخاری' کہاں ہے؟
3۔کسی کتب روایات کے حفظ کرنے کے اور اس عمل کے جاری رہنے کی روایت نہیں ملتی اور آج بھی یہ سلسہ موجود نہیں ہے۔
4۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔

اس سے قبل ایک پوسٹ میں آپ نے ایک آیت کے ضمن میں کچھ حسابات درج کیے تھے ، کیوں پیش کیے ؟ کیا وہ قرآن کی طرح لازم ایمان ہیں ؟ اس کے بغیر قران فہمی ممکن نہیں ؟ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس میں کوئی غلطی کا امکان ہے یا نہیں ؟
گو کہ یہ سوال کچھ مبہم ہے، وضاحت فرمائیے تو بہتر ہوگا۔ پوسٹ کا لنک فراہم کردیجئے۔

اگر آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ انسانوں‌سے غلطی کا احتمال ہے تو آپ نے بالکل درست بات کی طرف اشارہ کیا کہ انسانوں کی تصنیف شدہ کوئی بات، کوئی کتاب، مسمان ایمان کا باعث نہیں۔

اپ کی پوسٹ سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، یہ سوالات آپ کی آسانی کے لئے یکجا کردئے ہیں تاکہ آپ کو جواب دینے میں‌آسانی رہے۔ اور اس ہم، آپ کے علم سے مستفید ہو سکیں:

1۔ کیا امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ صحیح بخاری، امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے ملا کر بنائی گئی ہے؟
2۔ کیا اس اسٹور کا دعوی درست ہے کہ ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟ صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث ؟
3۔ کیا یہ کتب روایات، ہمارے ایمان کا حصہ ہیں یا انسانی علم و اعلام ہیں؟
4۔ اگر یہ کتب روایات ہمارے ایمان کا حصہ ہیں تو ان کو ہمارے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟ یہ حوالہ درکار ہے۔
5۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟

6۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے یا منسوخ شدہ ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
 

فرید احمد

محفلین
1۔ 1میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغ‌نہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔
یہ سراسر غلط ہے ، اصل نسخہ ہونا ضروری نہیں ، نہ دنیا میں موجود تمام کتابوں کے اصل مسودات موجود ہیں ۔
اور رہی بات ایمان کی ، تو جناب وہ نسخہ قران ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کروایا تھا ، کس کے پاس ہے ؟ حضرت عثمان کا نسخہ آپ کو ملے گا، وہ حضرت عثمان کے دور میں جمع ہوا تھا ۔
میرے خیال سے یا تو یہ اعتراض بہت سطحی ہے یا پھر حدیث سے اپنے جہالت اور بلکہ دلی کدورت اور بعد کی وجہ سے آپ کو اس میں وزن معلوم ہوتا ہے ۔
قران میں ہے
ولا یجمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا
یعنی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پاءے ۔

2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
یہ کتابیں مختلف کتابوں سے نہیں بلکہ محدثین کی بیان کردہ احادیث کو جمع کرنے سے وجود میں آئی ہیں ، اور محدثین حدیثوں سند کے ساتھ کو اسی طرح بلفظہ یاد کرتے تھے ، جس طرح قران یاد کرتھے اور کرتے ہیں ، اج کتابوں میں سب کچھ ضبظ ہو جانے کے باوجود بھی بھی کسی اچھے مدرسے میں استاد حدیث کو جا کر سن لیں ، یا حرمین میں بعض معتبر اساتذہ حدیث کا درس دیتے ہیں ، ان کے درس حدیث میں شریک ہو لیں ، صفحات کے صفحات احادیث کے پڑھ سناتے ہیں ، اور وہ بھی اس وضاحت کے ساتھ اس حدیث کو فلاں نے فلاں نے ، اس نے فلاں سے تا آخر اور پھر ان میں ہر ایک راوی کے احوال اور سند کے اعتبار سے اس کی حالت کو بھی ۔ ہند و پاک میں بھی بحمد اللہ ایسے افراد موجود ہیں ۔
 

فرید احمد

محفلین
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔

میں نے پہلے آپ سے پوچھا تھا کہ نماز کا حکم قرآن میں ہے ، مگر اس کی رکعات کی تفصیل ، اوقات کی تفصیل ابتدا اور انتہائی وضاحت کے ساتھ ، طریقہ نماز وغیرہ باتیں قرآن میں نہیں ، اگر قرآن کے حکم صلوۃ پر ایمان ہے تو اس پر عمل کیسے ہوگا ؟ ان احادیث پر ایمان ضروری ہے جن میں حکم صلوۃ پر عمل کر نے کا طریقہ ہے ، یہی بات زکوۃ ، حج ، وغیرہ کے بارے میں ہے ، چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے ، قران میں " ید " کا لفظ ہے ، معنی ہے ہے " ہاتھ " کیا پورا ہاتھ بغل سے کاٹ دیا جائے ؟
قرآن میں زنا سے منع کیا ہے ، اس کی سزا ہے ، مگر جرم زنا کے ثبوت اور اور سزا کے اجرائ کا طریقہ کیا ہوگا ؟

قران میں ہے احل اللہ البیع و حرم الربو ، بیع اور ربا کو فرق کہاں سے معلوم ہوگا ؟ قرآن میں ہی کفار کا یہ قول ہے کہ " انما البیع مثل الربو " یعنی بیع کی ربا کی طرح حلال چیز ہے، ( کفار بیع کو ربا کی طرح درست کہتے تھے، نہ کہ ربا کو بیع کی طرح )
ایسے سینکروں مسائل ہے ، جو قران سے فرائض ہیں اور بدون احادیث ان پر عمل کرنا ممکن نہیں، اور قرآن پر ایمان کا مطلب یہ تو ہرگز آپ کے نزدیک نہ ہوگا کہ بس مان کہ نماز کا حکم ہے ۔ قرآن پر ایمان ہو گیا ۔ پڑھنے سے کوئی سروکار نہیں ۔
 

فرید احمد

محفلین
اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟
میں نے لنک دیکھا ، میری انگریزی کمزور ہے ، سائٹ والوں سے ، اور مضمون نگار مفتی ابراہیم دیسائی سے واقف ہوں ، اس پر بکاری شریف کے بارے میں بالکل ابتدائی معلومات فراہم ہے ، میں تو کتب روایات پر تابڑتوڑ آپ کے حملوں کی وجہ سے سمجھتا تھا کہ آپ کو اس سے کہیں زیادہ بخاری کے بارے میں معلوم ہوگا ، خیر بتا دوں کہ " الجامع الصحیح للامام بخاری " ان کی مستقل تصنیف ہے ، متعدد کتابوں سے مرتب نہیں دی گئی ، امام بخاری کی اور بھی تصانیف ہے ، مثلا الادب المفرد، جز رفع یدین ، وغیرہ ۔ ہو سکتا ہے کہیں یہ لکھا ہو کہ یہ کتاب انہوں نے اتنے اجزاء پر مرتب کی تھی ،
پہلے زمانہ میں اور اج بھی یہ ہوتا تھا کہ مصنفین اپنے مسودہ کو مختلف اجزاء میں تقسیم کر لیتے ہیں ، تا کہ پورا مسودہ ہر جگہ لے کر پھرنا نہ پڑے ، ( بخاری نارمل سائز کے جدید کمیوٹر ٹائب کے بھی دو تین ہزار صفحات کی کتاب ہو سکتی ہے ، ) پس ان اجزاء کو کسی نے مختلف کتابیں قرار دے دی ۔

مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟

اس کتاب میں درج قسم کی احادیث ہونے کی بات اس لنک پر نہیں کی گئی، بلکہ اس کے فٹ نوٹ میں ہونے کو کہا گیا ہے ، فٹ نوٹ سے یہ تو متعین ہے کہ اصل کتاب مراد نہیں ، یہ انگریزی لفظ ہے ، خیر اس کے دو مطلب ہے ، اس لنک پر یہ معلومات ہندستانی نسخے کی بیان کی گئی ہے ۔ بخاری کے ہندستانی نسخے بڑی سائز کے یعنی ڈیڑھ فٹ لمبے، ایک فٹ چوڑے ہوتے ہیں ، اس میں تین طرف حاشیہ ہوتا ہے ، ممکن ہے حاشیہ میں کسی نے ایسی احادیث نقل کی ہو ، ورنہ امام بخاری کی کتاب کا نام ہی " الجامع الصحیح " ہے ۔ امام بخاری کا طرز یہ ہے باب قائم کرکے اس کے ضمن میں احادیث پیش کرتے ہیں ، جیسے
باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وقول الله جل ذكره { إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده }

[ 1 ] حدثنا الحميدي عبد الله بن الزبير قال حدثنا سفيان قال حدثنا يحيى بن سعيد الأنصاري قال أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي يقول سمعت عمر بن الخطاب رضى الله تعالى عنه على المنبر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى فمن كانت هجرته إلى دنيا يصيبها أو إلى امرأة ينكحها فهجرته إلى ما هاجر إليه


اول اس میں عنوان ہے اور پھر حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔

کبھی امام بخاری عنوان کے ساتھ کوئی قول رسول ذکر کرتے ہیں مگر اس کی سند بیان نہیں کرتے ۔ جیسے اس باب کو دیکھیں

باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية وقول الله تعالى { إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء }
[ 30 ] حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا شعبة عن واصل الأحدب عن المعرور قال لقيت أبا ذر بالربذة وعليه حلة وعلى غلامه حلة فسألته عن ذلك فقال إني ساببت رجلا فعيرته بأمه فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم

اس میں اولا باب کا عنوان ہے اور اس کے ساتھ حدیث النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرؤ فيك جاهلية نقل کی ہے مگر سند نہیں ، البتہ اس کے بعد 30 نمبر کی حدیث پوری سند کے ساتھ ہے ۔

محققین ایسی احادیث کو جو باب کے تحت بلا سند ہے ، ان کو تعلیقات کہتے ہیں ، ایسی تعلیقات بعض ضعیف اور منکر ہیں ۔ مگر اس کی نشاندہی مکمل طور پر کر دی گئی ہے ۔

اور میں گذارش کروں گا کہ پہلے حسن ضعیف ، اور منکر کی تعریف بھی دیکھ لیں ۔

صحیح لذاتہ
جس کے تمام راوی "عادل " "تام الضبط " ہوں ، اس کی سند " متصل " ہو ، اور وہ " معلل " و" شاذ " نہ ہو ۔
( عادل ، تام الضبطم متصل ، معلل اور شاذ پانچوں اصطلاحیں ہیں )

حسن لذاتہ
وہ حدیث جس کا کوءی راوی خفیف الضبط ہو ، البتہ صحیح لذاتہ باقی چار شرطیں اس میں موجود ہوں۔


ضعیف
یہ ایک عام اصطلاح ہیں ،
یعنی اس کے ضمن الگ الگ قسمیں شراءط کے اعتبار سے شامل ہوں گی پھر بھی اس کی وضاحت یہ ہے کہ
وہ حدیث ہے جس میں صحیح اور حسن کی شرطوں میں سے کوءی ایک یا سبھی شرطیں نہ پاءی جاءیں ۔


منکر
ضعیف راوی کی وہ روایت جو ثقہ کی روایت کے خلاف ہو
 

باذوق

محفلین
جی

باذوق، میں اب تک آپ کی عزت کرتا آیا ہوں لیکن شاید آپ خود کو اس عزت کے قابل نہیں گردانتے۔
آپ کا شکریہ۔
ویسے میں یہاں لکھ چکا ہوں کہ مصروفیات کے سبب ہر فورم پر میری لمبی غیر حاضری رہی ہے۔ اور اب محفل پر طویل عرصے بعد یہ میری دوسری پوسٹ ہے۔
برادر نبیل ، نیٹ پر تو عزت کا معاملہ ذاتی شناخت کے بجائے پیش کی جانے والی تحریروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر میری کوئی تحریر کتاب و سنت کے مخالف ہے تو وہ واقعی میں عزت کے قابل نہیں۔ بس اتنی سی بات ہے۔

آپ کو آخر کس بات کی تکلیف ہے؟ کیا آپ کو اس بات کا رنج ہے کہ میں نے کارتوس کو نکیل ڈال دی تھی؟ اور کیا آپ کو محفل فورم پر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے سے ڈر لگتا ہے کہ کبھی یہاں پوسٹ کیے موضوعات کے جواب اردو مجلس پر لکھ رہے ہوتے ہیں اور کبھی اپنے بلاگ پر جا کر واویلا کر رہے ہوتے ہیں۔
کیسی عجیب بات کرتے ہیں جناب ؟ کیا کسی فورم یا سائٹ کا ایڈمن کسی کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ اس کے فورم کے موضوعات کے جواب وہیں لکھیں اور دوسری جگہ نہ لکھیں؟ یہ کوئی زبردستی ہے؟ میں خود تین فورمز کا ایڈمن ہوں لیکن بعض اوقات اپنے فورمز پر اٹھائے جانے والے بہت سے موضوعات کے جوابات میں تفصیل سے دوسرے فورمز پر لگاتا ہوں۔ یہ تکنیکی اور تبلیغ کے معاملات ہیں جو میری طرح آپ کو بھی سمجھنا چاہئے۔
اور جہاں تک بلاگ پر محفل کی شکایت کا معاملہ ہے ، وہ میرا اپنا ذاتی خیال ہے جس سے کوئی بھی اختلاف کر سکتا ہے۔ اور ایسا میں نے پہلی بار لکھا ہے جس کی میں اسی جگہ وضاحت کر چکا ہوں۔ اور پھر یہ تو معروف بات ہے کہ بلاگ ہوتا ہی اسلیے ہے کہ اپنے ذاتی خیالات سے دوسروں کو واقف کرایا جائے۔

اگر آپ کو اپنی علمیت اور مناظرہ بازی کا اتنا ہی زعم ہے تو یہاں رہ کر ہی کیوں نہیں بات کرتے؟ صرف اس لیے کہ اس سے آپ کا کھوکھلا پن سامنے آجائے گا؟
بھائی ، نیٹ پر کسی کی شخصیت کی بھلا کیا اہمیت ہو سکتی ہے؟ اگر ہوتی بھی تو لکھنے والا اپنا پورا پورا بائیو ڈاٹا ضرور بتاتا۔ جبکہ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے تصوف کے مسئلہ پر شاکر القادری صاحب کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج آپ کو نیٹ پر ایک باذوق نظر آ رہا ہے تو کل دس باذوق نظر آئیں گے۔ جب میرے نزدیک نیٹ کی آئی۔ڈی یا شخصیت کی قطعاَ اہمیت نہیں ہے تو "اپنی علمیت اور مناظرہ بازی" کا زعم کیوں کر ہو سکتا ہے؟
یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی نبیل کے نزدیک باذوق کے مباحث "کھوکھلا پن" کا درجہ رکھتے ہوں تو کوئی ان مباحث کو پڑھ کر کہے کہ آپ واقعی "باذوق" ہیں۔ ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے برادر !

اور محفل فورم کی ماڈریشن پالیسی پر آپ کیوں پیچ و تاب کھا رہے ہیں؟
نہیں ! پیچ و تاب کھانے کی بات نہیں بلکہ جو مجھے کہنا تھا وہ میں نے اپنے ذاتی بلاگ پر کہہ دیا ہے۔

کیا میں نے ابھی تک آپ کی کوئی پوسٹ‌ حذف کی ہے؟ الٹا میں نے ایک مرتبہ شاکرالقادری صاحب کو آپ کے کچے چٹھے کھولنے سے باز رکھا تھا جب وہ آپ کی لکھی ہوئی محرم کی داستانیں یہاں پیش کرنے لگے تھے۔ یہ بات آپ کیسے بھول گئے؟
میں نے کب کہا کہ آپ نے میری تحریروں پر ظلم کیا ہے؟
اور شاکر القادری صاحب بھلا کس کس کے کچے چٹھے کھولیں گے؟ ایک باذوق کے یا مستقبل میں پیدا ہونے والے دس بیس مزید باذوق کے ؟؟ معاشرے میں پھیلی ہوئی لایعنی داستانوں کی حقیقت ۔۔۔ آج نہیں تو کل سامنے آئے گی ہی ۔۔۔ ڈر کس بات کا؟؟

فی الحال میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہوں گا کہ آپ اگر کوئی علمی و مذہبی مواد پیش کرنا چاہتے ہیں تو اس سے ہم سب کو فائدہ ہوگا۔
اس کی آپ فکر مت کیجئے۔ یہ میرا معاملہ ہے۔ جو چیز جہاں لگانا ہے وہ میں وہاں ضرور لگاؤں گا۔ ویسے اطلاعاََ عرض ہے کہ کوئی مجلس یا محفل یا اردوپیجز یا ہلہ گلہ پر اس لیے نہیں آتا کہ باذوق کی تحریریں پڑھی جائیں بلکہ ۔۔۔ معلومات کے حصول کے لیے آتا ہے چاہے وہ اجمل صاحب پیش کریں یا قسیم حیدر یا فرید احمد یا باذوق !

اور اگر آپ اردو مجلس یا مختلف بلاگز پر جاکر اردو محفل پر کیچڑ‌ اچھالنا چاہتے تو بصد شوق یہ کام کرکے دیکھ لیں۔ آپ سے پہلے ہی کئی بلاگز اور ویب سائٹس پر فل ٹائم یہی کام ہو رہا ہے۔
نیٹ کی اردو کمیونیٹی کے سرِمنظر کوئی ایسی پوسٹ دکھا دیں جہاں "کیچڑ‌ اچھالنا" جیسا بدذوق عمل اس فرد نے کر دکھایا ہو جس نے اپنی آئی۔ڈی ہی "باذوق" رکھی ہو۔ ورنہ زبانی کلامی الزام لگانا تو بےحد آسان کام ہے۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
بلی کو خواب میں چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔۔۔ مثال اچھی ہے کیا خیال ہے۔۔۔ نبیل؟۔۔۔
آپ کو آخر کس بات کی تکلیف ہے؟ کیا آپ کو اس بات کا رنج ہے کہ میں نے کارتوس کو نکیل ڈال دی تھی؟

وسلام۔۔۔
 
Top