فرید احمد صاحب - شکریہ، مفید معلومات کا اور مفید خیالات کا۔ اس مضمون کا لہجہ نرم ہے اور آپ کے بیان سے جو سوالات جنم لیتے ہیں درج کئے ہیں۔
میرا بیان:
1۔میری ذاتی ریسرچ کے مطابق اصل کتاب بخاری کا سراغنہیں ملتا، لہذا اصل کتاب کی غیر موجودگی میں امام بخاری کسی بھی الزام سے مبراء ہے۔
2۔ صحیح بکاری کی طرح، بیشتر کتب روایات، کئی کتب سے مل کر وجود میں آئی ہیں۔ یہ علم واعلام پر ضرور مبنی ہیں لیکن کسی بھی تصنیف میں یہ روایات رسول اللہ کے اقوال کے مطابق قرآن کی روشنی میں پرکھے جانے ضروری ہیں۔
3۔ یہ کتب روایات مسلم ایمان کا حصہ نہیں، جیسا کہ کچھ حضرات مصر ہیں۔ اگر کوئی ایسا فرقہ ہے تو اس کا ایمان اس کے لئے۔
یہ صحیح بخاری کی شرحیں ہیں ، متن نہیں ۔۔۔۔۔
ان کی شناخت کے لیے ایک مستقل فن "اسمائ الرجال " کا ہے ، اس میں ہر ایک پیدائش ، وفات ، دینی حالت ، عقائد ، تعلیم و تعلم ، شیوخ و تلامذہ کی تفصیل ، مختصرا یا مفصلا ، درج ہے ۔
اس انفارمیشن پر شکریہ۔کیا آپ نے فراہم کیا ہوا لنک بھی دیکھا ؟ کیا اس لنک پر فراہم کی ہوئی معلومات درست ہیں؟ یہ لوگ کتب حدیث نیٹ پر بیچتے ہیں۔ اور سوالات کے جوابات بھی دیتے ہیں۔
میں خاص طور پر ان لوگوں کے اس بیان کی تصدیق کسی شخص سے چاہتا ہوں جو وثوق کے ساتھ یہ بتا سکیں کہ امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے مل کر بنائی گئی؟
مزید یہ کہ کیا ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟
صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث
جیسا کہ اس اسٹور کا دعوی ہے؟
اس طرح یہ انہی حضرات کی روایت ۔۔۔۔ اگر کسی نے بخاری میں غلط طریقہ سے لکھی ہے تو دوسری کتابوں میں اس راوی کی حدیث سے صحیح الفاظ متعین ہو جاتے ہیں ۔
بہت شکریہ اس انفارمیشن کا۔
یہ اعتراض بالکل بے معنی اور بے وزن ہے کہ کتب احادیث 250 سال بعد لکھی گئی ہیں ،
اس لیے کہ ان مرتب کرنے والوں نے جن احادیث لی ہیں ، انہوں نے ان کئے حافظہ کی بنیاد پر لی ہیں ، ان حضرات نے اپنی راوی در راوی حافظہ سے محفوظ کی ہوئی روایات جمع کی ہیں ،
بہت شکریہ۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی کے حافظہ سے بیان کی ہوئی باتوں پر اعتماد ہے یا نہیں ؟
لگتا ہے آپ کے نزدیک حافظہ کا کوئی اعتبار ہی نہیں ۔
آخر کار فن اسماء الرجال ، کتب حدیث کی شرحیں ، اس پر طول طویل بحثیں اسی لیے لیں کہ حدیث کے نام پر کوئی دوسری خلاف اسلام بات در نہ آئے ۔۔
مجھے حافظے سے بتائی باتوں کے بتانے والے پر اعتماد نہیں۔ اس کی وجہ؟
1۔ سنی سنائی بات کی گواہی کی اہمیت قران سے ثابت نہیں۔
2۔ یہ سلسلہ اگر امام بخاری کی کتاب کی تصنیف کے بعد منقطع ہوا تو وہ 'اصل بخاری' کہاں ہے؟
3۔کسی کتب روایات کے حفظ کرنے کے اور اس عمل کے جاری رہنے کی روایت نہیں ملتی اور آج بھی یہ سلسہ موجود نہیں ہے۔
4۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔
اس سے قبل ایک پوسٹ میں آپ نے ایک آیت کے ضمن میں کچھ حسابات درج کیے تھے ، کیوں پیش کیے ؟ کیا وہ قرآن کی طرح لازم ایمان ہیں ؟ اس کے بغیر قران فہمی ممکن نہیں ؟ اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس میں کوئی غلطی کا امکان ہے یا نہیں ؟
گو کہ یہ سوال کچھ مبہم ہے، وضاحت فرمائیے تو بہتر ہوگا۔ پوسٹ کا لنک فراہم کردیجئے۔
اگر آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ انسانوںسے غلطی کا احتمال ہے تو آپ نے بالکل درست بات کی طرف اشارہ کیا کہ انسانوں کی تصنیف شدہ کوئی بات، کوئی کتاب، مسمان ایمان کا باعث نہیں۔
اپ کی پوسٹ سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، یہ سوالات آپ کی آسانی کے لئے یکجا کردئے ہیں تاکہ آپ کو جواب دینے میںآسانی رہے۔ اور اس ہم، آپ کے علم سے مستفید ہو سکیں:
1۔ کیا امام بخاری کی اصل کتاب ایک کتاب نہیں تھی بلکہ صحیح بخاری، امام بخاری کی درجنوں کتابوں سے ملا کر بنائی گئی ہے؟
2۔ کیا اس اسٹور کا دعوی درست ہے کہ ان کتب روایات میں درج ذیل 4 قسم کی احادیث شامل ہیں؟ صحیح، حسن، ضعیف اور منکر اقسام کی احادیث ؟
3۔ کیا یہ کتب روایات، ہمارے ایمان کا حصہ ہیں یا انسانی علم و اعلام ہیں؟
4۔ اگر یہ کتب روایات ہمارے ایمان کا حصہ ہیں تو ان کو ہمارے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟ یہ حوالہ درکار ہے۔
5۔ تمام معلومات نسل در نسل حافظہ سے منتقل ہوتی رہیں۔ تمام روایات حافظہ میں رکھنے کا سلسلہ کب ختم ہوا؟
6۔ درج ذیل حدیث کیا قابل قبول ہے یا منسوخ شدہ ہے؟
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ اگر یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو قبول کرلیں اور اگر قرآن کے مخالف ہے تو اس کو ضایع دیں۔