محمود احمد غزنوی
محفلین
اسماء اور مُسمّیٰ
::::::::::::::::::::
اسم "اللہ" ذات کا اسم ہے اور مرتبہءِ الوھیت کا نام ہے۔ اور ذات کے علم میں ( جوکہ قرآن کا علم ہے) اسم اللہ کے سواء اور کسی طرح سے داخل نہیں ہوا جاسکتا۔ مطلب یہ کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ بندوں کا اپنے رب کے ساتھ معاملہ گویا ذات کے ساتھ معاملہ ہو، نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ یہ معاملہ (ٰInteraction ) اسماء کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کوئی بھی اس بات سے ہٹ کر کوئی اعتقاد رکھتا ہے، وہ شرک سے خالی نہیں ہے خواہ اس کو جانتا ہو یا اس سے لاعلم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی ابتدا یوں کی : {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1] (اللہ کے اسم کے ساتھ جورحمٰن ہے اور رحیم ہے)۔ اور پہلی وحی بھی یوں شروع ہوتی ہے : {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1](پڑھو اپنے رب کے اسم کے ساتھ کہ جس نے خلق کیا)۔ چنانچہ اگر اسم " اللہ " کا مسمّیٰ ذات ہے تو تمام اسماء کا مسمّیٰ یہ اسم " اللہ " ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے : {قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى} [الإسراء: 110] (اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، تم جس نام سے بھی پکارو، کیونکہ اسی کے لئے ہیں یہ خوبصورت نام)۔ جہاں تک اسم " الرحمٰن " کا تعلق ہے، تو یہ اللہ کا خلیفہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں پر نظر ڈالتا ہے۔ اسی لئے شروعات بھی رحمت سے ہوئی اور واپسی بھی رحمت ہی کی طرف ہوگی۔
جو شخص مخلوق کے ساتھ تعامل انہیں اس بات سے موصوف سمجھتے ہوئے کرتا ہے کہ وہ موجود ہیں جبکہ اللہ کو اپنے ایمان کی رُو سے ماورائے حجاب سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تواس شخص نے از روئے تحقیق، ابھی تک قرآن کی قرات شروع ہی نہیں کی۔ کیونکہ قرآن کی قرات اسمِ جامع کے ساتھ ہوتی ہے، تاکہ بعد ازاں اس اسمِ جامع سے شاخ در شاخ ان مختلف اسماء کا معاملہ ظہور پذیر ہو جو قرآن میں مذکور تمام تجلیاتِ صفاتیہ و افعالیہ پر حاکم ہیں۔ اور حوادثِ وجود میں سے ماضی ، حال اور مستقبل ( جس میں آخرت بھی شامل ہے) کا کوئی ایسا حادث نہیں ہے جو ان اسماء کی طرف نہ لوٹتا ہو اور ان سے منسوب نہ ہوتا ہو۔ پس جو شخص اسماء کے معانی سے اور ان کے مظاہر سے جاہل رہا، اسے وجود میں سے کسی شئے کا علم حاصل نہ ہوا اور وہ عوام النّاس میں سے ہی رہا جو عادات ( Routine life) پر قائم رہتے ہوئے یہ وہم رکھتے ہیں کہ انہیں وجود کا علم حاصل ہوا ہے۔۔۔ خواہ ایسا شخص دینی یا دنیاوی علوم میں دوسرے لوگوں سے زیادہ علم ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔۔۔ کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اور اگر تنزیہہ میں مبالغہ کرنے والے بھی اسم اور مسمّیٰ کا فرق ملحوظِ خاطر نہیں رکھ پائے تو ان ضعیف عقلوں کے بارے میں کیا بات کی جاسکتی ہے جنہوں نے صفات کی گفتگو میں حق تعالیٰ کو اپنے نفوس کی طرح گمان کیا اور جو بالآخرِ کار ابنِ تیمیہ کے پیروکار وہابیہ کی طرح تجسیم کی طرف جا نکلِے، یہ سمجھتے ہوئے کہ گویا وہ کسی محکم اور تائید شدہ حالت پر قائم ہیں؟ چنانچہ مثال کے طور پرجب انہوں نے اللہ کی یہ بات سنی کہ {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} [الأعراف: 54]،(بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے بعد اس نےعرش پر قیام کیا) اور یہ کہ {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [طه: 5]( رحمٰن عرش پرقائم ہے)۔ چنانچہ ان آیات سے ان کو یہ وہم ہوگیا کہ اللہ عرش پر اپنی ذات کے ساتھ مقیم ہے۔ اور اس بات کی طرف ان کا دھیان نہ گیا کہ عرش اللہ کا فعل ہے جس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ذات کا احاطہ کرسکے۔ اور احاطہ تو ذات کے لئے ہے کہ جو عرش اور اس کے ماسوا کو محیط ہے- اور اس کے بعد وہ لوگ اس بات کی تمیز سے بھی قاصر رہے کہ استواء(قائم ہونا، متکمن ہونا) اسم اللہ اور اسم رحمٰن کے لئے ہے، ان کے سوا دیگر فرعی اسماء کے لئے نہیں ہے۔ چنانچہ مسئلہءِ استواء اسماء کے لئے مخصوص ہے ذات کے لئے نہیں۔ اوریہ لوگ اس غلطی میں اس وجہ سے مبتلا ہوئے کہ ان کی عقول پر ان کے حواس کا غلبہ ہے، چنانچہ اسی غلبے کی وجہ سے انہیں استواء سے جسمانی استواء کے علاوہ اور کچھ سمجھ نہیں آتا یعنی جس طرح دنیا کا کوئی بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھ کر رونق افروز ہوتا ہے، وہ اللہ کے عرش پر متمکن ہونے کو بعینہ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اگر وہ عرش(جسم الکل) کو جانتے تو انہیں یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ اس جسمانی عرش اور عرشِ الٰہی میں سوائے اسم کے اور کوئی اشتراک نہیں ہے۔ وہ اس لئے کہ محسوس ہونے والی صورتوں کا عالم ، علمِ معانی کی نسبت بہت زیادہ شدّتِ تقیّید (Restriction & Limitation) رکھتا ہے، اوراہلِ معانی کو اس بات کا ملکہ حاصل ہوتا ہے کہ معانی سے محسوسات کا ادراک کرسکیں، بخلاف ان لوگوں کے جو حواس کی گرفت میں رہتے ہیں اور شاذ و نادر ہی معانی سے محسوس کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور صرف محسوسات کے ذریعے سے ہی معانی کا ادراک کرپاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ضعیف ترین عقول، تیمیّین اور وہابیہ کی ہیں، اوران کے ساتھ ساتھ اہلِ کلام کے فرقے ( جن میں اشاعرہ بھی شامل ہیں) بھی فکری لغزشوں میں پڑنے سے محفوظ نہیں رہ پائے۔
ہم جس تعامل اور تفاعل (Interaction ) کی بدولت وجود سے آگاہ ہوتے ہیں، ایسا تفاعل کہ جو تنازعے ( Conflict) کی حد تک پہنچا ہوا ہےاور اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اسماءِ الٰہیہ میں کچھ اسماء کسی خاص اسم کے معاون و مددگار ہیں جبکہ بعض دیگر اسماء اسی اسم کے حریف اور مخالف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور وجود میں دکھائی دینے والی آویزش اور کشمکش اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ مراتب کے اعتبار سے بعض اسماء کچھ اسماء پر حاکم ہیں اور کچھ کے لئے محکوم ہیں۔ اور عالمِ حس میں وقوع پذیر ہونے والی بعض صورتوں ( مثلاّ جنگوں اور دشمنیوں) کا ان کے پسِ پردہ کارفرما اسماء کے ساتھ تعلق اور ربط جاننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ۔ اور اگردین سے متعلقہ علوم اپنے اندر شرف اور بزرگی رکھتے ہیں تو یقیناّ یہ علم (اسماء اور حوادث کے ربط کا علم) ان تمام علوم سےبزرگ تر اور اشرف ہے، کیونکہ اسی کی بدولت بندہ اس قابل ہوتا ہے کہ قرآنِ منشور( Manifested) یعنی عالمِ خلق کی قرآنِ مسطور ( Written) کے مطابق قرأت (یعنی مطالعہ) کرسکے۔
اور اسماء کے اپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معاملے کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے علم باللہ کے حامل علماء نے اسماء کی تین طرح کی اقسام بیان کی ہیں:
1- اسمائے کمال ( اور یہ وہ اسماء ہیں جو ذات کی طرف عائد ہوتے ہیں یعنی ذاتی اسماء ہیں)۔
2- اسمائے جمال
3- اسمائے جلال
اور جمالی و جلالی اسماء کا ظہور زیادہ تر شرعی احکامات کے مظاہر میں اوران امور میں ہوا ہے جو اغراض و مقاصد میں ملائمت و مزاحمت سے مماثل ہیں۔ اور یہ موافقت و مخالفت، صرف اسمائے جمال اور اسمائے جلال کے مابین ہی پائی جاتی ہے۔ اسمائے کمال کے مابین نہیں۔
اسماء کے دائرہِ کار کی زد میں آنے سے بچنا ہو تو اللہ یا رحمٰن کا اسم پکارنے سے یہ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ صرف انہی دونوں اسماء کو باقی اسماء پر غلبہ اور حکومت حاصل ہے۔ اور علمِ دعا یعنی کسی خاص اسم کے ساتھ دعا کرنے کا تفصیلی علم (جو ایک جلیل القدر علم ہے) صرف علماء باللہ کو عطا کیا جاتا ہے۔ اور زمانے میں بہت کمیاب ہیں وہ لوگ جو اس علمِ دعا میں رسوخ رکھتے ہوں ۔
چنانچہ اگر دین اللہ کے ساتھ بندے کے معاملے کا نام ہے اور اللہ نے اسی مقصد کے لئے شرع کا اجراء کیا ہے، تو اسماءِ اور انکے مقتضیات کے ساتھ علمائے دین کی بے رغبتی اور عدم توجہی سے تدیّن یعنی دینداری اپنی اصل منہاج سے دور ہوجاتی ہے۔ یقیناّ پڑھنے والا اس علم کی عملی جہت کے وجود سے کسی قدر آگاہ ضرور ہوگا اور یہ عملی جہت ایسی ہے کہ حوادث میں سے کوئی شئے اس سے خارج نہیں ۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر آدمی قومی و بین الاقوامی سیاست کے حوادث اورعلم الاسماء کے ساتھ ان کے تعلق پر ہی غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ جسے یہ علم دیا گیا یقیناّ اسے خیرِ کثیر عطا کی گئی ۔
اور اب ہم آئندہ انے والے مقالات میں اس بات پر غور کریں گے کیا وجہ ہے کہ مسلمان باوجودیکہ وہ حق پر ہیں، پھر بھی دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ اور اگر وہ امامت کے لئے ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو اللہ کے نزدیک امامت کے اہل ہیں نا کہ ان فقہاء کی جانب دیکھیں جنہیں دنیا ئے دُوں نے قرآنی علوم کے نور سے اس حد تک بے بہرہ و نابینا کر رکھا ہے کہ اگر اللہ ان کی جگہ کافروں کو لے آئے تو شائد وہ ان سے زیادہ فائدہ مند اور استقامت والے ثابت ہوں۔
(عربی تحریر: الشیخ سیدی عبدالغنی العمری الحَسَنی حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
::::::::::::::::::::
اسم "اللہ" ذات کا اسم ہے اور مرتبہءِ الوھیت کا نام ہے۔ اور ذات کے علم میں ( جوکہ قرآن کا علم ہے) اسم اللہ کے سواء اور کسی طرح سے داخل نہیں ہوا جاسکتا۔ مطلب یہ کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ بندوں کا اپنے رب کے ساتھ معاملہ گویا ذات کے ساتھ معاملہ ہو، نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ یہ معاملہ (ٰInteraction ) اسماء کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کوئی بھی اس بات سے ہٹ کر کوئی اعتقاد رکھتا ہے، وہ شرک سے خالی نہیں ہے خواہ اس کو جانتا ہو یا اس سے لاعلم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی ابتدا یوں کی : {بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ} [الفاتحة: 1] (اللہ کے اسم کے ساتھ جورحمٰن ہے اور رحیم ہے)۔ اور پہلی وحی بھی یوں شروع ہوتی ہے : {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ} [العلق: 1](پڑھو اپنے رب کے اسم کے ساتھ کہ جس نے خلق کیا)۔ چنانچہ اگر اسم " اللہ " کا مسمّیٰ ذات ہے تو تمام اسماء کا مسمّیٰ یہ اسم " اللہ " ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے : {قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى} [الإسراء: 110] (اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، تم جس نام سے بھی پکارو، کیونکہ اسی کے لئے ہیں یہ خوبصورت نام)۔ جہاں تک اسم " الرحمٰن " کا تعلق ہے، تو یہ اللہ کا خلیفہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے بندوں پر نظر ڈالتا ہے۔ اسی لئے شروعات بھی رحمت سے ہوئی اور واپسی بھی رحمت ہی کی طرف ہوگی۔
جو شخص مخلوق کے ساتھ تعامل انہیں اس بات سے موصوف سمجھتے ہوئے کرتا ہے کہ وہ موجود ہیں جبکہ اللہ کو اپنے ایمان کی رُو سے ماورائے حجاب سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاملہ کرتا ہے تواس شخص نے از روئے تحقیق، ابھی تک قرآن کی قرات شروع ہی نہیں کی۔ کیونکہ قرآن کی قرات اسمِ جامع کے ساتھ ہوتی ہے، تاکہ بعد ازاں اس اسمِ جامع سے شاخ در شاخ ان مختلف اسماء کا معاملہ ظہور پذیر ہو جو قرآن میں مذکور تمام تجلیاتِ صفاتیہ و افعالیہ پر حاکم ہیں۔ اور حوادثِ وجود میں سے ماضی ، حال اور مستقبل ( جس میں آخرت بھی شامل ہے) کا کوئی ایسا حادث نہیں ہے جو ان اسماء کی طرف نہ لوٹتا ہو اور ان سے منسوب نہ ہوتا ہو۔ پس جو شخص اسماء کے معانی سے اور ان کے مظاہر سے جاہل رہا، اسے وجود میں سے کسی شئے کا علم حاصل نہ ہوا اور وہ عوام النّاس میں سے ہی رہا جو عادات ( Routine life) پر قائم رہتے ہوئے یہ وہم رکھتے ہیں کہ انہیں وجود کا علم حاصل ہوا ہے۔۔۔ خواہ ایسا شخص دینی یا دنیاوی علوم میں دوسرے لوگوں سے زیادہ علم ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔۔۔ کیونکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اور اگر تنزیہہ میں مبالغہ کرنے والے بھی اسم اور مسمّیٰ کا فرق ملحوظِ خاطر نہیں رکھ پائے تو ان ضعیف عقلوں کے بارے میں کیا بات کی جاسکتی ہے جنہوں نے صفات کی گفتگو میں حق تعالیٰ کو اپنے نفوس کی طرح گمان کیا اور جو بالآخرِ کار ابنِ تیمیہ کے پیروکار وہابیہ کی طرح تجسیم کی طرف جا نکلِے، یہ سمجھتے ہوئے کہ گویا وہ کسی محکم اور تائید شدہ حالت پر قائم ہیں؟ چنانچہ مثال کے طور پرجب انہوں نے اللہ کی یہ بات سنی کہ {إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} [الأعراف: 54]،(بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے بعد اس نےعرش پر قیام کیا) اور یہ کہ {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} [طه: 5]( رحمٰن عرش پرقائم ہے)۔ چنانچہ ان آیات سے ان کو یہ وہم ہوگیا کہ اللہ عرش پر اپنی ذات کے ساتھ مقیم ہے۔ اور اس بات کی طرف ان کا دھیان نہ گیا کہ عرش اللہ کا فعل ہے جس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ذات کا احاطہ کرسکے۔ اور احاطہ تو ذات کے لئے ہے کہ جو عرش اور اس کے ماسوا کو محیط ہے- اور اس کے بعد وہ لوگ اس بات کی تمیز سے بھی قاصر رہے کہ استواء(قائم ہونا، متکمن ہونا) اسم اللہ اور اسم رحمٰن کے لئے ہے، ان کے سوا دیگر فرعی اسماء کے لئے نہیں ہے۔ چنانچہ مسئلہءِ استواء اسماء کے لئے مخصوص ہے ذات کے لئے نہیں۔ اوریہ لوگ اس غلطی میں اس وجہ سے مبتلا ہوئے کہ ان کی عقول پر ان کے حواس کا غلبہ ہے، چنانچہ اسی غلبے کی وجہ سے انہیں استواء سے جسمانی استواء کے علاوہ اور کچھ سمجھ نہیں آتا یعنی جس طرح دنیا کا کوئی بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھ کر رونق افروز ہوتا ہے، وہ اللہ کے عرش پر متمکن ہونے کو بعینہ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اگر وہ عرش(جسم الکل) کو جانتے تو انہیں یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ اس جسمانی عرش اور عرشِ الٰہی میں سوائے اسم کے اور کوئی اشتراک نہیں ہے۔ وہ اس لئے کہ محسوس ہونے والی صورتوں کا عالم ، علمِ معانی کی نسبت بہت زیادہ شدّتِ تقیّید (Restriction & Limitation) رکھتا ہے، اوراہلِ معانی کو اس بات کا ملکہ حاصل ہوتا ہے کہ معانی سے محسوسات کا ادراک کرسکیں، بخلاف ان لوگوں کے جو حواس کی گرفت میں رہتے ہیں اور شاذ و نادر ہی معانی سے محسوس کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور صرف محسوسات کے ذریعے سے ہی معانی کا ادراک کرپاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ضعیف ترین عقول، تیمیّین اور وہابیہ کی ہیں، اوران کے ساتھ ساتھ اہلِ کلام کے فرقے ( جن میں اشاعرہ بھی شامل ہیں) بھی فکری لغزشوں میں پڑنے سے محفوظ نہیں رہ پائے۔
ہم جس تعامل اور تفاعل (Interaction ) کی بدولت وجود سے آگاہ ہوتے ہیں، ایسا تفاعل کہ جو تنازعے ( Conflict) کی حد تک پہنچا ہوا ہےاور اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اسماءِ الٰہیہ میں کچھ اسماء کسی خاص اسم کے معاون و مددگار ہیں جبکہ بعض دیگر اسماء اسی اسم کے حریف اور مخالف کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور وجود میں دکھائی دینے والی آویزش اور کشمکش اس بات کا بھی پتہ دیتی ہے کہ مراتب کے اعتبار سے بعض اسماء کچھ اسماء پر حاکم ہیں اور کچھ کے لئے محکوم ہیں۔ اور عالمِ حس میں وقوع پذیر ہونے والی بعض صورتوں ( مثلاّ جنگوں اور دشمنیوں) کا ان کے پسِ پردہ کارفرما اسماء کے ساتھ تعلق اور ربط جاننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ۔ اور اگردین سے متعلقہ علوم اپنے اندر شرف اور بزرگی رکھتے ہیں تو یقیناّ یہ علم (اسماء اور حوادث کے ربط کا علم) ان تمام علوم سےبزرگ تر اور اشرف ہے، کیونکہ اسی کی بدولت بندہ اس قابل ہوتا ہے کہ قرآنِ منشور( Manifested) یعنی عالمِ خلق کی قرآنِ مسطور ( Written) کے مطابق قرأت (یعنی مطالعہ) کرسکے۔
اور اسماء کے اپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معاملے کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے علم باللہ کے حامل علماء نے اسماء کی تین طرح کی اقسام بیان کی ہیں:
1- اسمائے کمال ( اور یہ وہ اسماء ہیں جو ذات کی طرف عائد ہوتے ہیں یعنی ذاتی اسماء ہیں)۔
2- اسمائے جمال
3- اسمائے جلال
اور جمالی و جلالی اسماء کا ظہور زیادہ تر شرعی احکامات کے مظاہر میں اوران امور میں ہوا ہے جو اغراض و مقاصد میں ملائمت و مزاحمت سے مماثل ہیں۔ اور یہ موافقت و مخالفت، صرف اسمائے جمال اور اسمائے جلال کے مابین ہی پائی جاتی ہے۔ اسمائے کمال کے مابین نہیں۔
اسماء کے دائرہِ کار کی زد میں آنے سے بچنا ہو تو اللہ یا رحمٰن کا اسم پکارنے سے یہ تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ صرف انہی دونوں اسماء کو باقی اسماء پر غلبہ اور حکومت حاصل ہے۔ اور علمِ دعا یعنی کسی خاص اسم کے ساتھ دعا کرنے کا تفصیلی علم (جو ایک جلیل القدر علم ہے) صرف علماء باللہ کو عطا کیا جاتا ہے۔ اور زمانے میں بہت کمیاب ہیں وہ لوگ جو اس علمِ دعا میں رسوخ رکھتے ہوں ۔
چنانچہ اگر دین اللہ کے ساتھ بندے کے معاملے کا نام ہے اور اللہ نے اسی مقصد کے لئے شرع کا اجراء کیا ہے، تو اسماءِ اور انکے مقتضیات کے ساتھ علمائے دین کی بے رغبتی اور عدم توجہی سے تدیّن یعنی دینداری اپنی اصل منہاج سے دور ہوجاتی ہے۔ یقیناّ پڑھنے والا اس علم کی عملی جہت کے وجود سے کسی قدر آگاہ ضرور ہوگا اور یہ عملی جہت ایسی ہے کہ حوادث میں سے کوئی شئے اس سے خارج نہیں ۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر آدمی قومی و بین الاقوامی سیاست کے حوادث اورعلم الاسماء کے ساتھ ان کے تعلق پر ہی غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ جسے یہ علم دیا گیا یقیناّ اسے خیرِ کثیر عطا کی گئی ۔
اور اب ہم آئندہ انے والے مقالات میں اس بات پر غور کریں گے کیا وجہ ہے کہ مسلمان باوجودیکہ وہ حق پر ہیں، پھر بھی دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ اور اگر وہ امامت کے لئے ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو اللہ کے نزدیک امامت کے اہل ہیں نا کہ ان فقہاء کی جانب دیکھیں جنہیں دنیا ئے دُوں نے قرآنی علوم کے نور سے اس حد تک بے بہرہ و نابینا کر رکھا ہے کہ اگر اللہ ان کی جگہ کافروں کو لے آئے تو شائد وہ ان سے زیادہ فائدہ مند اور استقامت والے ثابت ہوں۔
(عربی تحریر: الشیخ سیدی عبدالغنی العمری الحَسَنی حفظہ اللہ)
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)