“سامع“ کافی دن سے حیران و پریشان تھا کہ یہ چاروں درویش آخر کہاں غائب ہوگئے ہیں ۔ واقعات اور شواہدات کے مطابق تو یہ چاروں درویش کسی گوند لگی ہوئی جگہ پر اس طرح بیٹھے رہے تھے کہ جب ان کو محشر کے آنے کی آمد کا کہا گیا تو وہ چاروں کچھ اس طرح سے زمین سے بلند ہوئے تھے کہ لگتا تھا وہ کسی توپ کے دھانے سے فائر ہوئے ہیں اور ان کی ٹانگیں زمین پر آلتی پالتی مارنے کی وجہ سے حساب کے “ بریکیٹ“ کی طرح ہوگئیں تھیں ۔ اور بچے فٹبال کھیلنے کے دوران ان میں سے گیند گذارا کرتے تھے ۔ یعنی کہ گول پوسٹ بنایا ہوا تھا ۔ ایک فٹبال کا میچ اور چار چار گول پوسٹ ۔۔۔ بڑی عجیب سی بات تھی ۔
خیر ۔۔۔ سامع ۔۔ ان درویشوں کی مسلسل تلاش میں تھا کہ ایک دن اس کو خبر ملی کہ وہ چار درویش ڈیپورٹ ہوکر واپس اپنے وطن پہنچ چکے ہیں ۔ صیح نہیں معلوم ہوسکا کہ ڈیپورٹ ہونے کی کیا وجہ تھی ۔۔ مگر اتنا معلوم ہوا کہ ایک درویش کسی مفتی کے فتوے پر اتنا خوش ہوا کہ سب مجمع کے سامنے اپنی کوٹ کی جیب سے بیلک لیبل کی بوتل نکال کر مفتی کو پیش کردی ۔ اور پھر پچاس پچاس کوڑوں کے سزا کھا کر عمر بھی کے شناختی نشان کے ساتھ واپس ملک واپس ہوا ۔ اور ساتھ ساتھ وہ تینوں درویش بھی ڈیپورٹ ہوئے کہ انہوں نے اس درویش کے ہاتھ سے بلیک لیبل کی بوتل لے کر اس کو چند گھونٹ میں خالی کردیا تھا کہ یہ تو مفتی صاحب کو خالی بوتل پیش کررہا ہے ۔اب یہ نہیں پتا کہ وہ اس ممنوع چیز کی وجہ سے ڈیپورٹ ہوئے یا پھر مفتی کے اس غصے کی وجہ سے کہ بوتل ان کے ہاتھ کیوں نہیں لگی ۔
لیکن سامع وہاں پہنچ ہی گیا جہاں یہ چاردرویش پھر سے چوکڑی جما کر بیٹھے تھے ۔ وہ سبزی منڈی کے پیچھے والی ایک تنگ سی بستی تھی جہاں گلیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ مستورات اور مرد حضرات کے لیے گلی سے گذرنے کے اوقات الگ الگ مقرر تھے ۔
سامع نے دیکھا کہ چاروں درویش انتہائی غور وفکر کی حالت میں تھے اور یہ حالت ان کے چہرے سے اتنی نمایاں تھی کہ لگتا تھا وہ بھی واپڈا کی کسی لوڈشینڈنگ کا شکار ہیں ۔ بلآخر ایک درویش نے وہ المناک خاموشی توڑی اور ایک سرد آہ بھری ( جیسا کہ ہر درویش بھرتا ہے ) مگر یہ آہ اتنی سرد تھی کہ درجہ حرارت نقطہِ انجماد سے گر گیا اور صحن میں رکھے ہوئے سارے مٹکوں کا پانی جم گیا ۔
(جاری ہے )
خیر ۔۔۔ سامع ۔۔ ان درویشوں کی مسلسل تلاش میں تھا کہ ایک دن اس کو خبر ملی کہ وہ چار درویش ڈیپورٹ ہوکر واپس اپنے وطن پہنچ چکے ہیں ۔ صیح نہیں معلوم ہوسکا کہ ڈیپورٹ ہونے کی کیا وجہ تھی ۔۔ مگر اتنا معلوم ہوا کہ ایک درویش کسی مفتی کے فتوے پر اتنا خوش ہوا کہ سب مجمع کے سامنے اپنی کوٹ کی جیب سے بیلک لیبل کی بوتل نکال کر مفتی کو پیش کردی ۔ اور پھر پچاس پچاس کوڑوں کے سزا کھا کر عمر بھی کے شناختی نشان کے ساتھ واپس ملک واپس ہوا ۔ اور ساتھ ساتھ وہ تینوں درویش بھی ڈیپورٹ ہوئے کہ انہوں نے اس درویش کے ہاتھ سے بلیک لیبل کی بوتل لے کر اس کو چند گھونٹ میں خالی کردیا تھا کہ یہ تو مفتی صاحب کو خالی بوتل پیش کررہا ہے ۔اب یہ نہیں پتا کہ وہ اس ممنوع چیز کی وجہ سے ڈیپورٹ ہوئے یا پھر مفتی کے اس غصے کی وجہ سے کہ بوتل ان کے ہاتھ کیوں نہیں لگی ۔
لیکن سامع وہاں پہنچ ہی گیا جہاں یہ چاردرویش پھر سے چوکڑی جما کر بیٹھے تھے ۔ وہ سبزی منڈی کے پیچھے والی ایک تنگ سی بستی تھی جہاں گلیاں اتنی چھوٹی تھیں کہ مستورات اور مرد حضرات کے لیے گلی سے گذرنے کے اوقات الگ الگ مقرر تھے ۔
سامع نے دیکھا کہ چاروں درویش انتہائی غور وفکر کی حالت میں تھے اور یہ حالت ان کے چہرے سے اتنی نمایاں تھی کہ لگتا تھا وہ بھی واپڈا کی کسی لوڈشینڈنگ کا شکار ہیں ۔ بلآخر ایک درویش نے وہ المناک خاموشی توڑی اور ایک سرد آہ بھری ( جیسا کہ ہر درویش بھرتا ہے ) مگر یہ آہ اتنی سرد تھی کہ درجہ حرارت نقطہِ انجماد سے گر گیا اور صحن میں رکھے ہوئے سارے مٹکوں کا پانی جم گیا ۔
(جاری ہے )