نبیل
تکنیکی معاون
آج روزنامہ جنگ میں علی معین نوازش کی بالا کے عنوان سے تحریر پڑھنے کو ملی۔ (ربط)
ذیل کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔۔
پورا کالم اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس پر تبصرہ پھر سہی۔۔
ذیل کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔۔
اعلیٰ تعلیم کی خواہش یاشوق برانہیں ہے لیکن اس سے کیافائدہ اورکیانقصان ہورہاہے اس کو ضرورجانچناچاہیے۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہمارے اسٹوڈنٹس اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ بن چکے ہیں ایک ایسی ایکسپورٹ جس سے ملک کوکوئی فائدہ نہیں ہورہابلکہ اس ایکسپورٹ سے ان اسٹوڈنٹس کے خاندانوں کوایک ایسا مالی بوجھ برداشت کرناپڑتاہے جس کے نتیجے میں بعض اوقات والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اوریہ شوق اورایکسپورٹ ہمارے زرمبادلہ پربھی بوجھ بن چکاہے۔
بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم میں بتایاگیاہے کہ بھارت کے زیادہ اسٹوڈنٹس اپنے ملک میں ہی رہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے سبسڈی،معیاراورملازمتوں کے مواقعوں نے اسے ممکن بنایاہے۔بیرون ملک تعلیم کے لیے جاناکوئی جرم نہیں لیکن ہمارے قابل ترین اسٹوڈنٹس کاملک واپس نہ آناغلط ہے اوردوسری بات یہ ہے کہ جن شعبوں میں پاکستان ہی میں معیاری تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہیں ان پرکثیررقم خرچ کرکے باہرجانابھی بے وقوفی ہے۔باہرکوئی طلسماتی دنیانہیں کہ وہاں ہرچیز پاکستان سے بہترہوگی غیرمعیاری یونیورسٹیوں میں جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پورا کالم اس ربط پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس پر تبصرہ پھر سہی۔۔