اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ اور قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کی حقیقت

جاسم محمد

محفلین
اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ اور قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کی حقیقت
state-copy.jpg

March 28, 2021
شاہد شاہنواز
رواں ہفتے وزارتِ خزانہ نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت اسٹیٹ بینک کو ایک خودمختار ادارہ بنانے کیلئے اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء کا مجوزہ مسودہ جاری کیا۔
ملک کے معاشی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ مرکزی بینک کو خودمختار بنانے کا نہیں بلکہ قومی خودمختاری آئی ایم ایف میں گروی رکھنے کا قانون ہے۔ یہ دعویٰ کس حد تک سچا یا جھوٹا ہے، آئیے اس حوالے سے مختلف حقائق پر نظر ڈالتے ہیں۔

ترمیمی ایکٹ 2021ء کے بنیادی نکات
مجوزہ ترمیمی ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک حکومت کو قرض جاری نہیں کرے گا، اس کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں اور معیشت میں استحکام پیدا کرنا اور معاشی پالیسیوں کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدتِ ملازمت اور ہٹائے جانے کے طریقۂ کار میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
قبل ازیں 90ء کی دہائی میں بھی آئینی ترامیم ہوئیں جن کے تحت اسٹیٹ یبنک کو خودمختار ادارہ قرار دیا گیا تاہم موجودہ ترامیم اسٹیٹ بینک کو بے حد خودمختار ادارہ بنادیں گی۔ ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی کسی بھی پالیسی کیلئے جوابدہ قرار نہیں دیا جاسکے گا۔
ماہرینِ معیشت کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو جو نیا کردار دیا گیا ہے اس کے تحت سب سے پہلے قیمتوں میں استحکام اور مہنگائی کنٹرول کرنا اہم ہے اور پھر حکومت کو معاشی ترقی کی کاوشوں میں مدد دینا، ملکی معاشی ترقی سب سے نیچے ہے جو خطرناک رجحان کہا جاسکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کا نیا کردار
دراصل ترمیمی ایکٹ 2021ء میں اسٹیٹ بینک کے کردار کا ازسرِ نو تعین عمل میں لایا گیا جس میں مہنگائی اور مالیاتی نظام کے استحکام کو ترجیح دی گئی اور معاشی ترقی کیلئے مدد فراہم کرنا سب سے آخری یا معمولی کام ہوگا۔
مذکورہ ترامیم کے تحت اسٹیٹ بینک حکومت کو کوئی رقم ادھار دینے کا پابند نہیں تاہم اگر اسٹیٹ بینک میں مالی ذخائر یا سرمایہ منفی سطح پر گر گیا تو الٹا حکومت اسے ضروری رقم فراہم کرنے کی پابند ہوگی اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں ساری بازی پلٹ جاتی ہے۔

احتساب سے آزادی
ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سمیت قومی و صوبائی تحقیقاتی و تفتیشی ادارے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی پر اسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنر، ڈائریکٹرز، حتیٰ کہ ملازمین تک کے خلاف کارروائی نہیں کرسکیں گے۔
انتظامی اختیارات اور گورنر کا عہدہ
پاکستان کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کیلئے کوآرڈی نیشن بورڈ کے کردار کوختم کردیا گیا ہے۔ گورنر اور وزیرِ خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام سرانجام دیں گے اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کو اسٹیٹ بینک بورڈ کی رکنیت سے الگ کردیا گیا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کو 3 کی بجائے 5 سال تک عہدے پر برقرار رکھا جائے گا۔ صدر کو اختیار ہے کہ وہ گورنر کو ہٹائے لیکن ایسا بہت ہی سنگین غلطی پر کیا جاسکے گا جس کی سنگینی کے متعلق فیصلہ عدالت کو کرنا ہوگا۔
یہاں ایک اچھی بات یہ ہے کہ مجوزہ ترامیم کے تحت دیہی علاقے، صنعتی شعبہ جات، ہاؤسنگ اور دیگر شعبوں کیلئے اسٹیٹ بینک پر قرض دینا لازمی قرار دے دیا گیا، لیکن حکومت ان شعبہ جات کیلئے قرض فراہم نہیں کرسکے گی۔

پنجاب حکومت کا مؤقف
صوبائی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث مجوزہ ترامیم کو متنازعہ بنایا جارہا ہے، بصورتِ دیگر ایسی کوئی قباحت ہے نہیں جس پر واویلا کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک کا کام ہی استحکام، ایکسچینج ریٹ کی نگرانی اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے اور ترامیم سے یہ کردار مضبوط ہوگا۔
وزیرِ منصوبہ بندی پنجاب سلمان شاہ نے کہا کہ احتساب کے ادارے اگر اسٹیٹ بینک کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ احتساب نہیں کیا جاسکتا۔ بینک داخلی طور پر احتساب کا ایک نظام رکھے گا۔یہ اچھی بات ہے کہ مانیٹری پالیسی اور ایکسچینج ریٹ پر فیصلہ سازی کے دوران نیب یا کسی احتسابی ادارے کا خوف نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر قیصر بنگالی کی رائے
یہ تمام قانونی نکات مثبت ہیں یا منفی؟ اس پر ماہرِ معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ملکی معیشت کے ساتھ خودمختاری کے نام پر ایک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنا کر معیشت کو نقصان پہنچایا جائے گا۔
قیصر بنگالی نے کہا کہ مالیاتی اداروں کو قرض کی ادائیگی اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہوگی جبکہ مجوزہ ترامیم کے تحت حکومت کا کردار ختم کردیا گیا ہے۔ ذخائر میں کمی کی صورت میں ہر صورت پیسہ دینے کیلئے حکومت غیر ملکی قرضے حاصل کرے گی۔ اسٹیٹ بینکوں کی جگہ کمرشل بینکوں سے لیا گیا قرض مزید مہنگا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک میں کام کرنے والے افراد جوابدہی سے بالاتر قرار دئیے گئے ہیں یعنی اسٹیٹ بینک کے اقدامات قانون کے دائرۂ اختیار سے باہر ہوں گے۔ نئے بورڈ میں حکومتی نمائندگی موجود نہ ہونے کے باعث ملک کی زری و مالیاتی پالیسی کو مربوط کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

معاشی تجزیہ کار کی رائے
معروف معاشی تجزیہ کار اور صحافی ضیاء الدین نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے نتیجے کے طور پر ملک میں سماجی انتشار جنم لے سکتا ہے۔ حکومت نے شاید آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہو کہ بل ضرور نافذ ہوگا، شاید یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ہمیں 50 کروڑ ڈالرز کی قسط مل گئی۔
ضیاء الدین نے کہا کہ جب یہ بل نافذ ہوگا تو اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں جس سے ملک کا ایٹمی پروگرام تک متاثر ہوسکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں، پولیس اور سرکاری ملازمین کیلئے حکومت تنخواہیں بھی جاری کرتے ہوئے مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔

دوسرا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت
بعض معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء نافذکرنے کی بجائے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرے تو بہتر ہوگا کیونکہ تاحال یہ بات حکومت کے اختیار میں ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ اگر ملک غیر ترقیاتی اخراجات کم کردے تو معاشی پیشرفت ممکن ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں متعدد اشیاء جنہیں درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک سے پاکستان درآمد کی جارہی ہیں۔ دفاعی اخراجات میں کمی لائی جائے اور اسٹیٹ بینک اور دیگر سرکاری اداروں میں تعینات آئی ایم ایف کے نمائندگان کو برخاست کرنا ہوگا۔

حقیقت کیا ہے؟
بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ مرکزی بینک کو خود مختار بناتا ہے جس کا بظاہر کوئی اور مقصد نہیں ہے لیکن اسٹیٹ بینک میں آئی ایم ایف کے نمائندے موجود ہیں جو ملک کی معاشی ترقی کی بجائے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو ترویج دینے پر کام کریں گے۔
حکومت کے پاس احتساب کے جو اختیارات تھے، وہ ایکٹ کے نفاذ سے ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے اگر حکومت نے آئی ایم ایف ترمیمی ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسٹیٹ بینک کے داخلی احتسابی نظام کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ملک کی معاشی ترقی مثبت سمت میں گامزن ہوسکے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بنیادی طور پر اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ مرکزی بینک کو خود مختار بناتا ہے جس کا بظاہر کوئی اور مقصد نہیں ہے لیکن اسٹیٹ بینک میں آئی ایم ایف کے نمائندے موجود ہیں جو ملک کی معاشی ترقی کی بجائے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کو ترویج دینے پر کام کریں گے۔
جس آئی ایم ایف نے 22 بار بروقت امداد دے کر ملک دیوالیہ ہونے سے بچایا، قوم اسی کے خلاف بغض و نفرت میں مرے جا رہی ہے۔ اور جو کرپٹ حکمران ہر بار ملک دیوالیہ کر کے اسے آئی ایم ایف کی دہلیز پر پھینک کر فرار ہو جاتے ہیں۔ ان کو قومی ہیرو بنا رکھا ہے۔ معلوم نہیں یہاں ہمہ وقت الٹی گنگا کیوں بہتی رہتی ہے؟
IMG-1504.png
 

جاسم محمد

محفلین
کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟
28/03/2021 ذیشان ہاشم

ایک ملک کی معیشت کا درست اندازہ لگانا ہوا تو سب سے پہلے گروتھ ریٹ دیکھتے ہیں، اور اگر یہ دیکھنا ہو گا کہ اس ملک کی معیشت کتنی مستحکم ہے تو دو اہم انڈیکیٹر دیکھے جاتے ہیں۔ اس ملک کی مونیٹری پالیسی اور فسکل پالیسی میں پوزیشن مستحکم ہے یا نہیں خاص طور پر یہ کہ یہ دونوں پالیسیز اکانومی پر کتنا اثرانداز ہوتے ہیں۔ فسکل پالیسی حکومت بناتی ہے اور مونیٹری پالیسی ایک ملک کا سنٹرل بنک جسے پاکستان میں اسٹیٹ بنک کہتے ہیں۔

ایک ملک کی معیشت میں جہاں حکومت کا کردار اہم ہے وہاں ریگولیٹرز حکومت سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ریگولیٹرز موجود رہتے ہیں۔ حکومتیں ووٹرز کو مطمئن کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں بغیر کسی بڑی کاسٹ کے، وہ بعض اوقات ایسے فیصلے کر جاتی ہیں جن کے فوائد وقتی مگر نقصان طویل مدت کے لئے ہوتے ہیں۔ ریگولیٹرز مارکیٹ میں شفافیت کو یقینی بناتے ہیں، انہیں ووٹرز کو مطمئن نہیں کرنا ہوتا بلکہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے یوں وہ مستحکم پالیسیز بناتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک ایک ریگولیٹر ادارہ ہے۔

پاکستان کا اکنامک ماڈل اپنی بنیاد میں ہی خراب ہے۔ پاکستانی حکومت کی آمدن کم ہے اور اخراجات بہت ہی زیادہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت ایسی اصلاحات کرے کہ جس سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں، معاشی ترقی ہو اور نتیجے میں حکومت کی آمدن بھی بڑھے۔ مگر اصلاحات کا یہ عمل قدرے مشکل ہے پاکستان کی پولیٹیکل اکانومی کے تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو۔ اب حکومت کیا کرتی ہے ؟ اس نے عارضی طریقے ڈھونڈھے ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

ایک : باہر سے قرض لے کر گزارہ کرنا خاص طور پر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لئے۔ اگر حکومت قرض نہ لے تو دیوالیہ ہو جائے۔

دوم : نوٹ چھاپ لینا جب ضرورت پڑے۔ اس سے ظلم یہ ہوتا ہے کہ ملک میں جب پیسے کی سپلائی (منی سپلائی) بڑھتی ہے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر آپ پاکستان میں مہنگائی کے اسباب کا جائزہ لیں تو آپ کو دو بڑے اسباب ملیں گے

1) حکومت کا زیادہ سے زیادہ نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کرنا .

2) امپورٹ پر پابندیاں۔ آپ ان تمام چیزوں کی لسٹ بنا لیں جن کی امپورٹ پر پابندی نہیں اور ان اشیاء کی بھی لسٹ بنا لیں جن کی امپورٹ کے لئے آپ کو حکومت کی اجازت لینی پڑتی ہے۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ جن اشیاء کی امپورٹ پر پابندی نہیں ان کی اکثریت کی قیمتوں میں استحکام ہے اور جن اشیاء کی امپورٹ پر حکومتی اجازت نامہ مطلوب ہے ان میں سے اکثریت کی قیمتوں میں عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ حکومت امپورٹ پر ٹیرف بھی اس لئے لگاتی ہے کہ امپورٹ ٹیکس کی مد میں پیسے کمائے جائیں۔

سوم : پاکستان میں کچھ سیکٹرز ایسے ہیں جن کی لابنگ بہت اچھی ہے اور وہ حکومت سے مراعات لیتے رہتے ہیں جن میں ایک سستا قرض بھی ہے۔ حکومتیں اپنی اچھی شہرت حاصل کرنے کے لئے بھی کچھ سیکٹرز کے لئے سستے قرضوں کا اعلان کرتی ہے۔ یہ سستے قرض اسٹیٹ بنک دیتا ہے اگر وہ پوری طرح حکومت کے زیر انتظام ہو۔ اس سے ملک میں معاشی طور پر عدم مساوات کی پولیٹیکل اکانومی کو فروغ ملتا ہے اور ہر سیکٹر اپنی لابنگ سے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یہی پاکستان میں ہو رہا ہے۔

اوپر دیئے گئے دوم اور سوم امور پاکستانی حکومت سنٹرل بنک کے ذریعے سے کرتی ہے جس کے لئے سنٹرل بنک بنا ہی نہیں۔ سنٹرل بنک کے بنیادی طور پر دو اہم کام ہیں۔

ایک : مہنگائی کو کنٹرول کرنا

دوم : اکنامک گروتھ ریٹ کو بہتر شرح سود سے اس طرح boost (بڑھاوا) دینا کہ روزگار میں اضافہ ہو …

پاکستان میں سنٹرل بنک دونوں کام نہیں کر رہا۔ مہنگائی بذات خود جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کا بڑا سبب حکومت کا بہت زیادہ بغیر کسی جواب دہی کے نوٹ چھاپنا اور امپورٹ ٹیکسز کے لئے امپورٹ پر پابندیاں ہیں، جب مہنگائی بہت زیادہ ہوتی ہے تو شرح سود کو کم رکھنا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اس سے ایک طرف مونیٹری ڈسپلن ختم ہو جاتا ہے تو دوسری طرف بینک کھاتے داروں کو مہنگائی کی شرح سے کم سود دے کر اس کے پیسے کی ویلیو (Time value of money ) پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور یہ وعدہ فریب ثابت ہوتا ہے “حامل هذا کو مطالبہ پر ادا کیا جائے گا “۔ اگر شرح سود بہت زیادہ ہو گا تو اس سے معاشی سرگرمیوں میں کمی ہو گی۔

اسٹیٹ بنک کا اپنے اصل کام چھوڑ کر ان کاموں میں پڑ جانا جن کا حکومتیں اس سے تقاضا کرتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اسٹیٹ بنک کی صلاحیت انتہائی محدود رہ گئی ہے کہ وہ واقعی میں مہنگائی کو اپنی قابل اعتماد (credible ) پالیسی سے کنٹرول کر سکے اور اسی طرح وہ شرح سود میں کمی یا اضافہ سے گروتھ ریٹ اور روزگار کے عمل میں اضافہ لانے کا بھی زیادہ اہل نہیں رہا۔ جسے ہم ٹیکنیکل الفاظ میں ایسے کہیں گے کہ capacity نہیں build کر سکا۔

اس ساری صورتحال میں اسٹیٹ بنک کو حکومتی مداخلت سے آزاد کرنا مالیاتی نظام میں ایسا ہی ہے جیسا آپ نظام انصاف میں عدالتوں کی آزادی کے حامی ہیں۔ مگر یہاں یہ سوال ہنوز موجود ہے کہ کیا واقعی اسٹیٹ بنک کو آزاد رکھا جا سکے گا؟ اور یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرتا جاؤں کہ بہتر طریقہ کار یہی تھا کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی سے متعلق پارلیمان میں مباحثہ ہوتا اور تب ہی یہ قانون متعارف کروایا جاتا نہ کہ اس سلسلے میں آرڈیننس سے کام چلایا جائے۔ حکومت کو پولیٹیکل ڈائیلاگ کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا وگرنہ معاشی پالیسیز بھی دیرپا نہیں رہتیں۔

باقی وہ تمام ممالک جہاں سنٹرل بنکس آزاد ہیں ان میں اکثریت ترقی یافتہ ممالک ہیں، وہاں سنٹرل بنکس ان حکومتوں کو نوٹ چھاپ کر قرض بھی دیتی ہے اور ان سے پیسے واپس بھی لیتی ہے مگر اس شرط پر کہ پیسوں کی چھپائی سے مہنگائی پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ شرط پاکستان میں بھی موجود رہے گی۔ اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اب کے بعد اسٹیٹ بنک نوٹ نہیں چھاپے گا۔

باقی کچھ لوگ سنٹرل بنک کی آزادی کی اس لئے بھی حمایت نہیں کر رہے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا کام ہے اس لئے اسے اس کا کریڈٹ کیوں دیا جائے۔ اور کچھ لوگ اس لئے بھی اس کی حمایت نہیں کر رہے کیونکہ انہیں اس کی سمجھ ہی نہیں کہ اصل میں ریگولیٹرز اور حکومت میں فرق کیا ہوتا ہے اور کیوں مارکیٹ میں ریگولیٹری ادارے حکومتی مداخلت سے آزاد ہونا چاہئیں۔ میری رائے یہی ہے کہ اسٹیٹ بنک کی آزادی معاشی اصلاحات کی طرف ایک مثبت قدم ہے اور حکومت کے لئے یہ ترغیب پیدا کرے گا کہ وہ معاشی عمل کو بہتر بنا کر اپنی آمدن میں اضافہ کرے نہ کہ “جگاڑ” لگا کر۔
 

آورکزئی

محفلین
اسٹیٹ بنک تو گیا۔۔۔۔۔۔۔ اور رہا ایٹم بم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلیں نیازی اپنے انکل کا غیرت دہرائیں اور سودہ کریں۔۔۔۔۔۔ شاباش
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیٹ بنک تو گیا۔۔۔۔۔۔۔ اور رہا ایٹم بم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلیں نیازی اپنے انکل کا غیرت دہرائیں اور سودہ کریں۔۔۔۔۔۔ شاباش
اسٹیٹ بنک آئی ایم ایف کو بیچ دیا گیا۔۔۔
جاہلوں کو آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش!

اسٹیٹ بنک کوئی دکان یا زمین کا پلاٹ ہے جسے آئی ایم ایف کو بیچ دیا گیا؟
اسٹیٹ بنک کا کام نوٹوں کی چھپائی، مانیٹری پالیسی اور انٹرسٹ ریٹ کو مینیج کرنا ہوتا ہے، یہ ایک ریاستی ادارہ ہے جسے نہ تو بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی خرید سکتا ہے۔

سٹیٹ بنک کو خودمختار بنایا جارہا ہے تاکہ کوئی بھی سیاسی حکومت اپنے سیاسی مفاد کی خاطر معیشت کا بیڑہ غرق نہ کرسکے۔

چھوٹی سی مثال سابقہ دور کی ہے جب نواز حکومت نے ملکی صنعت کا پہیہ روک کر ہر چیز امپورٹ کرنا شروع کردی۔ اس مقصد کیلئے روپے کی قیمت کنٹرول کرنا ضروری تھا تاکہ امپورٹڈ اشیا کی قیمتیں ایک خاص حد سے نہ بڑھ سکیں۔

چنانچہ اسحاق ڈار نے سٹیٹ بنک کی مخالفت کے باوجود روپے کی قیمت کنٹرول کرنے کیلئے سالانہ پانچ ارب ڈالرز قرضہ لے کر مارکیٹ میں پھینکنا شروع کردیا۔

اس سے یہ نقصان ہوا کہ وقتی طور پر امپورٹ اشیا کی قیمتیں زیادہ نہ بڑھیں لیکن ملکی قرضہ 54 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 94 ارب ڈالرز ہوگیا۔

چنانچہ جب ن لیگ کا دور ختم ہونے والا تھا، اس وقت روپے کی قیمت گرنا شروع ہوگئی تھی۔

موجودہ حکومت آئی تو سالانہ قرضے کی قسط اور سود ملا کر دس ارب ڈالرز کی ادائیگیاں تھی، اس کے علاوہ تیل امپورٹ کرنے کیلئے بھی اربوں ڈالرز درکار تھے، تجارتی خسارہ پہلے ہی بیس ارب ڈالرز پر ن لیگ چھوڑ کر گئی تھی۔

ان سب خرابیوں کی بنیاد سٹیٹ بنک کا غیر فعال ہونا تھا چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ سٹیٹ بنک کو وزارت خزانہ کے انڈر رکھنے کی بجائے خودمختار کردیا جائے تاکہ آئیندہ کوئی اسحاق ڈار ملکی معیشت کا بیڑہ غرق نہ کرسکے۔

سٹیٹ بنک اب پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوگا ۔

(منقول)
 

جاسم محمد

محفلین
اسٹیٹ بنک تو گیا۔۔۔۔۔۔۔ اور رہا ایٹم بم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلیں نیازی اپنے انکل کا غیرت دہرائیں اور سودہ کریں۔۔۔۔۔۔ شاباش
یہ کوئی قاری صاب نہیں بلکہ یہ منی لانڈرنگ کا وہ شاہکار ہے جس نے نوے کی دہائی میں اسحاق ڈار کے ساتھ مل کر نوازشریف کی لوٹی ہوئی اربوں کی دولت کو پاکستان سے برطانیہ ہنڈی کے ذریعے بھجوایا

اور پھر انعام کے طور پر اس شخص کو نوازشریف کے دور میں ڈپٹی گورنر آف سٹیٹ بنک لگایا گیا۔ اسحاق ڈار اور سعید احمد نے ڈالر کی قیمت کو برقرار رکھنے کے لیے اس قوم کے بائیس ارب ڈالر جھونک دیے۔ یہ تھی آج سے پہلے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی نام نہاد خودمختاری

کیا شریفوں کی غلامی کا نام "خود مختاری" ہے ؟
335-D21-CE-9-BC2-43-C4-B7-FC-C8-BED49-C2501.jpg
 

آورکزئی

محفلین
پرسوں تک اِن کے پاس سب سے بہترین معاشی ٹیم تھی۔۔۔ کل حفیظ شیخ ڈس مس ۔۔۔۔ ہاہاہاہا
 
مدیر کی آخری تدوین:
پرسوں تک اِن کے پاس سب سے بہترین معاشی ٹیم تھی۔۔۔ کل حفیظ شیخ ڈس مس ۔۔۔۔ ہاہاہاہا
جب کپتان ہی نالائق ہے تو پھر بار بار ٹیم بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
جب ٹاپ پہ الو بیٹھا ہو انجامِ گلستاں کیا ہوگا​
 

آورکزئی

محفلین

جاسم محمد

محفلین
پرسوں تک اِن کے پاس سب سے بہترین معاشی ٹیم تھی۔۔۔ کل حفیظ شیخ ڈس مس ۔۔۔۔ ہاہاہاہا
جب کپتان ہی نالائق ہے تو پھر بار بار ٹیم بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
جب ٹاپ پہ الو بیٹھا ہو انجامِ گلستاں کیا ہوگا​
اب یہ بات ان لائق ترین یا قابل ترین یوتھیز کو سمجھ نہیں آرہی تو اس میں ہماری کیا غلطی
جب آپ بغض عمرانیوں کے پاس نہایت ہی تجربہ کار اور اہل ٹیم تھی اس وقت قومی خزانہ کا یہ حال تھا:



 
Top