سید شہزاد ناصر
محفلین
بہت آداب محمد خلیل الرحمٰن بھائی جی
کچھ آپ بھی شریک کریں نا
کچھ آپ بھی شریک کریں نا
زبردست شراکتریل گاڑی
حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے
سینہ میں اس کے ہردم اک آگ سی بھری ہے
کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے
سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے
وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا
ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا
آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی
وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی
بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے
ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے
آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر
یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر
اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک
سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک
بجلی ہے یا بگولا ۔ بھونچال ہے کہ آندھی
ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی
ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی
رہتی نہیں معطل ۔ پھرتی ہے کام کرتی
پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں
ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں
ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی
پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی
برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں
ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں
ہم کہہ چکے مفصل ۔ جو کچھ ہے کام اس کا
جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا
جی ہاں سمجھ گیا میں ۔ پہلے ہی میں نے تاڑی
تابش بھیا کیا یاد دیا دیا آپ نے بہت خوبایک شعر یاد آیا ہے۔ شاید کچھ اس طرح تھا
آ بابا آ
لا آم لا
سب پر رحمت تو نے کی ہےیارب تو ہے سب کا آقا
سب کا مالک سب کا داتا
تو نے کیا انسان کو پیدا
تو نے کیا حیوان کو پیدا
پھول اور پودے چاند اور تارے
تو نے کیے ہیں پیدا سارے
ہم پر بھی اب رحمت کردے
علم سے یارب دامن بھر دے
جی اور یہ بھی تھا کہسب پر رحمت تو نے کی ہے
عزت دی ہے دولت دی ہے
یہ شاید سیکنڈ لاسٹ شعر ہے۔اس نظم کا ۔
زمانہ طالبعلمی میں پڑھی تھیآؤ بچو! سنو کہانی
ایک تھا راجا
ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
توتا بیٹھا چونچ ہلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
توتے کا بھی جی للچایا
راجا گانا گاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
توتا حلوہ کھاتا جائے
کیا یاد دلا دیااُٹھو بیٹا آنکھیں کھولو
بستر چھوڑو اور منہ دھو لو
اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے
وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے
سورج نکلا تارے بھاگے
دنیا والے سارے جاگے
پھول کھلے خوش رنگ رنگیلے
سُرخ سفید اور نیلے پیلے
تم بھی اُٹھ کر باہر جاؤ
ایسے وقت کا لُطف اُٹھاؤ
زبردست انتخابسنو اک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو
ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت
جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اک شرارت کی پڑیا تھی وہ
جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ
نہ امی کے ساتھ اور نہ بھیا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریا کے ساتھ
ثریا نے اک دن یہ اس سے کہا
مری ننھی گڑیا یہاں بیٹھ جا
بلایا ہے امی نے آتی ہوں میں
کھٹولی میں تجھ کو سلاتی ہوں میں
وہ نادان گڑیا خفا ہو گئی
وہ روئی وہ چلائی اور سو گئی
اچانک وہاں اک پری آ گئی
کھلی آنکھ گڑیا کی گھبرا گئی
تو بولی پری مسکراتی ہوئی
سنہری پروں کو ہلاتی ہوئی
''ادھر آؤ تم مجھ سے باتیں کرو
میں نازک پری ہوں نہ مجھ سے ڈرو''
وہ گڑیا مگر اور بھی ڈر گئی
لگی چیخنے ''ہائے میں مر گئی''
''مری پیاری آپا بچا لو مجھے
کسی کوٹھڑی میں چھپا لو مجھے''
ثریا نے آ کر اٹھایا اسے
اٹھا کر گلے سے لگایا اسے
گلے سے لگاتے ہی چپ ہو گئی
وہ چپ ہو گئی اور پھر سو گئی
ثریا کو دیکھا پری اڑ گئی
جدھر سے تھی آئی ادھر مڑ گئی
صوفی غلام مصطفی تبسم
جیتی رہئےکوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے
ذرا سی چیز ہے اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور! کیا کہنا!
خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا!
جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے
قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
علامہ اقبال