اسکول لائف کی کوئی نصابی نظم شئیر کریں

فرقان احمد

محفلین
ریل گاڑی


حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے
سینہ میں اس کے ہردم اک آگ سی بھری ہے

کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے
سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے

وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا
ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا

آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی
وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی

بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے
ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے

آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر
یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر

اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک
سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک

بجلی ہے یا بگولا ۔ بھونچال ہے کہ آندھی
ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی

ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی
رہتی نہیں معطل ۔ پھرتی ہے کام کرتی

پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں
ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں

ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی
پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی

برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں
ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں

ہم کہہ چکے مفصل ۔ جو کچھ ہے کام اس کا
جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا

جی ہاں سمجھ گیا میں ۔ پہلے ہی میں نے تاڑی
وہ دیکھو آگرہ سے آتی ہے ریل گاڑی


بشکریہ نایاب
 
ریل گاڑی

حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے

سینہ میں اس کے ہردم اک آگ سی بھری ہے
کھا کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے

سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے
وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا

ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا
آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی

وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی
بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے

ہاتھی بھی اس کے آگے اک مور ناتواں ہے
آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کو سب برابر

یکساں ہے نور و ظلمت اور روز و شب برابر
اتر سے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک

سب ایک کر دیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک
بجلی ہے یا بگولا ۔ بھونچال ہے کہ آندھی

ٹھیکہ پہ ہے پہونچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی
ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی

رہتی نہیں معطل ۔ پھرتی ہے کام کرتی
پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہونچا گئی وطن میں

ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں
ہر چیز سے ہے نرالی چال ڈھال اس کی

پاؤ گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی
برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں

ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں
ہم کہہ چکے مفصل ۔ جو کچھ ہے کام اس کا

جب جانیں تم بتا دو بن سوچے نام اس کا
جی ہاں سمجھ گیا میں ۔ پہلے ہی میں نے تاڑی

وہ دیکھو آگرہ سے آتی ہے ریل گاڑی

بشکریہ نایاب
زبردست شراکت
سلامت رہیں
 
بہت عمدہ لڑی۔ بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔

اور ساتھ ساتھ یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ شاید محفل میں سب سے بھلکڑ میں ہی ہوں، یا سب سے نالائق ہوں کہ بہت سوچنے پر بھی کوئی نظم ایک آدھ مصرع سے زیادہ یاد نہیں آئی۔
جب اس لڑی کو پڑھا تو یاد آتی گئیں۔
 

عباد اللہ

محفلین
ایک شعر یاد آیا ہے۔ شاید کچھ اس طرح تھا

آ بابا آ
لا آم لا
تابش بھیا کیا یاد دیا دیا آپ نے بہت خوب
ایک ساتوین جماعت کی نظم میں نے بھی ڈھونڈ نکالی

مرد ہونی چاہئے خاتون ہونا چاہئے
اب گرامر کا یہی قانون ہونا چاہئے
نسرسری کے داخلے کو سرسری مت جانئے
آپ کے بچے کو افلاطون ہونا چاہئے
رات کو بچے پڑھائی کی اذیت سے بچیں
ان کو ٹی وی کا بہت ممنون ہونا چاہئے
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہئے
صرف محنت کیا ہے انور کامیابی کے لئے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہئے
انور مسعود​
 

زوجہ اظہر

محفلین
آؤ بچو! سنو کہانی
ایک تھا راجا
ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
توتا بیٹھا چونچ ہلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
توتے کا بھی جی للچایا
راجا گانا گاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
توتا حلوہ کھاتا جائے
 

زوجہ اظہر

محفلین
اُٹھو بیٹا آنکھیں کھولو
بستر چھوڑو اور منہ دھو لو
اتنا سونا ٹھیک نہیں‌ ہے
وقت کا کھونا ٹھیک نہیں‌ ہے
سورج نکلا تارے بھاگے
دنیا والے سارے جاگے
پھول کھلے خوش رنگ رنگیلے
سُرخ سفید اور نیلے پیلے
تم بھی اُٹھ کر باہر جاؤ
ایسے وقت کا لُطف اُٹھاؤ
 

سیما علی

لائبریرین
سنو اک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو

ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت

جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اک شرارت کی پڑیا تھی وہ

جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ

نہ امی کے ساتھ اور نہ بھیا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریا کے ساتھ

ثریا نے اک دن یہ اس سے کہا
مری ننھی گڑیا یہاں بیٹھ جا

بلایا ہے امی نے آتی ہوں میں
کھٹولی میں تجھ کو سلاتی ہوں میں

وہ نادان گڑیا خفا ہو گئی
وہ روئی وہ چلائی اور سو گئی

اچانک وہاں اک پری آ گئی
کھلی آنکھ گڑیا کی گھبرا گئی

تو بولی پری مسکراتی ہوئی
سنہری پروں کو ہلاتی ہوئی

''ادھر آؤ تم مجھ سے باتیں کرو
میں نازک پری ہوں نہ مجھ سے ڈرو''

وہ گڑیا مگر اور بھی ڈر گئی
لگی چیخنے ''ہائے میں مر گئی''

''مری پیاری آپا بچا لو مجھے
کسی کوٹھڑی میں چھپا لو مجھے''

ثریا نے آ کر اٹھایا اسے
اٹھا کر گلے سے لگایا اسے

گلے سے لگاتے ہی چپ ہو گئی
وہ چپ ہو گئی اور پھر سو گئی

ثریا کو دیکھا پری اڑ گئی
جدھر سے تھی آئی ادھر مڑ گئی

صوفی غلام مصطفی تبسم
 

سیما علی

لائبریرین
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں

آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں

یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں

تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں

حسن قدیم کی اک پوشیدہ یہ جھلک تھی
لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں

چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں

علامہ اقبال
 

سیما علی

لائبریرین
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور! کیا کہنا!

خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!

کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا!

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

علامہ اقبال
 

زوجہ اظہر

محفلین
یارب تو ہے سب کا آقا
سب کا مالک سب کا داتا
تو نے کیا انسان کو پیدا
تو نے کیا حیوان کو پیدا
پھول اور پودے چاند اور تارے
تو نے کیے ہیں پیدا سارے
ہم پر بھی اب رحمت کردے
علم سے یارب دامن بھر دے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یارب تو ہے سب کا آقا
سب کا مالک سب کا داتا
تو نے کیا انسان کو پیدا
تو نے کیا حیوان کو پیدا
پھول اور پودے چاند اور تارے
تو نے کیے ہیں پیدا سارے
ہم پر بھی اب رحمت کردے
علم سے یارب دامن بھر دے
سب پر رحمت تو نے کی ہے
عزت دی ہے دولت دی ہے

یہ شاید سیکنڈ لاسٹ شعر ہے۔اس نظم کا ۔
 
آؤ بچو! سنو کہانی
ایک تھا راجا
ایک تھی رانی
راجا بیٹھا بین بجائے
رانی بیٹھی گانا گائے
توتا بیٹھا چونچ ہلائے
نوکر لے کر حلوہ آیا
توتے کا بھی جی للچایا
راجا گانا گاتا جائے
نوکر شور مچاتا جائے
توتا حلوہ کھاتا جائے
زمانہ طالبعلمی میں پڑھی تھی
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
 
اُٹھو بیٹا آنکھیں کھولو
بستر چھوڑو اور منہ دھو لو
اتنا سونا ٹھیک نہیں‌ ہے
وقت کا کھونا ٹھیک نہیں‌ ہے
سورج نکلا تارے بھاگے
دنیا والے سارے جاگے
پھول کھلے خوش رنگ رنگیلے
سُرخ سفید اور نیلے پیلے
تم بھی اُٹھ کر باہر جاؤ
ایسے وقت کا لُطف اُٹھاؤ
کیا یاد دلا دیا
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
 
سنو اک مزے کی کہانی سنو
کہانی ہماری زبانی سنو

ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت
نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت

جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ
مگر اک شرارت کی پڑیا تھی وہ

جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ
جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ

نہ امی کے ساتھ اور نہ بھیا کے ساتھ
وہ ہر وقت رہتی ثریا کے ساتھ

ثریا نے اک دن یہ اس سے کہا
مری ننھی گڑیا یہاں بیٹھ جا

بلایا ہے امی نے آتی ہوں میں
کھٹولی میں تجھ کو سلاتی ہوں میں

وہ نادان گڑیا خفا ہو گئی
وہ روئی وہ چلائی اور سو گئی

اچانک وہاں اک پری آ گئی
کھلی آنکھ گڑیا کی گھبرا گئی

تو بولی پری مسکراتی ہوئی
سنہری پروں کو ہلاتی ہوئی

''ادھر آؤ تم مجھ سے باتیں کرو
میں نازک پری ہوں نہ مجھ سے ڈرو''

وہ گڑیا مگر اور بھی ڈر گئی
لگی چیخنے ''ہائے میں مر گئی''

''مری پیاری آپا بچا لو مجھے
کسی کوٹھڑی میں چھپا لو مجھے''

ثریا نے آ کر اٹھایا اسے
اٹھا کر گلے سے لگایا اسے

گلے سے لگاتے ہی چپ ہو گئی
وہ چپ ہو گئی اور پھر سو گئی

ثریا کو دیکھا پری اڑ گئی
جدھر سے تھی آئی ادھر مڑ گئی

صوفی غلام مصطفی تبسم
زبردست انتخاب
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
 
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور! کیا کہنا!
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور! کیا کہنا!

خدا کی شان ہے نا چیز چیز بن بیٹھیں!
جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں!

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں!

کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا!

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا!
نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں
نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

علامہ اقبال
جیتی رہئے
پرانی یادیں تازہ کر دیں
شراکت کا شکریہ
سلامت رہیں
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے میں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشیاں تک
ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے​
 
Top