اسکول میں نماز

فہیم

لائبریرین
السلام علیکم،

553445c04092b02cf64cb16c7d6a.jpeg



یہ کینیڈا میں ایک گورنمنٹ پبلک مڈل اسکول ہے۔ جس کے اسی فیصد طالب علم مسلمان بچے ہیں۔ ایک ہندو تنظیم نے چند یہودیوں اور گنتی کے چند عیسائیوں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک عرصے سے جاری مسلمانوں کی عبادت، یعنی بچوں کی نماز ادا کرنے کو اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور اسکول میں بچوں کے نماز پڑھنے کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مذکورہ خبر کے ساتھ لنک پہ "Yes" پہ ووٹ دیں۔
 

ابو کاشان

محفلین
معلومات کا شکریہ۔

Yes (46%)
No (54%)
اب تک کے نتائج افسوسناک ہیں۔
فورم کے اراکین سے گزارش ہے کہ اس میں اپنا ووٹ ڈالیں اور ممکنہ حد تک اس کی تشہیر بھی کریں۔ شکریہ۔
 
معلومات کا شکریہ۔

Yes (46%)
No (54%)
اب تک کے نتائج افسوسناک ہیں۔
فورم کے اراکین سے گزارش ہے کہ اس میں اپنا ووٹ ڈالیں اور ممکنہ حد تک اس کی تشہیر بھی کریں۔ شکریہ۔

آپ کا پیغام پوری طرح نظر نہیں آرہا تھا، لہذا اسے اقتباس کی شکل دوبارہ پیش کردیا.
 

ساجد

محفلین
ہاں میں ووٹ دے دیا ہے لیکن نتائج 46 فی صد ہاں اور 54 فی صد نہیں میں ہیں۔ مزید دوست آگے آئیں اور ہاں میں ووٹ دیں۔
 

اشتیاق علی

لائبریرین
ووٹ تو ڈال دیا لیکن نتائج دیکھ کر دل دہل اٹھا ۔ میری اردو محفل کے اراکین سے گذارش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ووٹنگ کریں۔
حالیہ نتائج کی تصویر
pollresult.jpg
 
مجھے تو یہ رائے شماری ڈھکوسلا لگ رہی ہے کیوں کہ میرے اپنے ذاتی دوستوں کے حلقے اور ان کے مزید دوستوں کے تصدیق شدہ ووٹ ملاکر 76 ووٹ ہاں میں کاسٹ کیے گئے ہیں، تقریبا 11 ووٹ محفل کے ساتھیوں کے ہوگئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات یعنی:

(Yes (46%
(No (54%
یہ اب تک آگے کیوں نہیں بڑھ رہا جبکہ میری (صرف ایک شخص) کے ذاتی معلومات کے مطابق پچاسی سے زائد ووٹ ہاں میں کاسٹ ہوچکے ہیں جبکہ دیگر اسلامی ممالک یا مسلمانوں کے ووٹ جو ہاں میں ڈالے جارہے ہیں، اس کے علاوہ ہیں.
 

شمشاد

لائبریرین
اگر Yes پر فیصد بڑھ بھی جائے، تب بھی میرا نہیں خیال کہ اسکول کی انتظامیہ اسی پر حتمی فیصلہ کرے گی۔
 

ساجد

محفلین
ابھی تک نتائج جوں کے توں ہیں۔ ویسے ایک لطیفہ یہ ہے کہ سائٹ پر موجود ویڈیو میں ایک گوری بی بی ایک پلے کارڈ اٹھائے کھڑی ہے جس کے ایک طرف انگریزی میں "اسلام نو" لکھا ہے اور اس کی پشت پہ "مسلم یس" لکھا ہے۔ اب ان پڑھے لکھے بیوقوفوں کو کون سمجھائے کہ یہی کام کرتے کرتے تو امریکہ دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔
 

عثمان

محفلین
قارئین گرامی !
مذکورہ ووٹنگ محض ایک رائے ہے جو نشریاتی ادارے نے اپنے قارئین سے مانگی ہے۔ بلکل ایسے ہی جیسے اردو محفل ، بی بی سی اردو اور دوسری لاکھوں سائٹس پہ اپنے قارئین کا ردعمل جاننے کے لئے بذریعہ ووٹنگ رائے لی جاتی ہے۔ اس رائے کا سکول کی انتظامیہ کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رائے بھلے کچھ ہو ، فیصلہ وہی ہوگا جو سکول کی انتظامیہ ، والدین اور طلبہ پر مشتمل متعلقہ کمیٹی اور ٹورانٹو ڈسٹرک سکول بورڈ کے ارباب اختیار چاہیں گے۔ متعلقہ افراد کے علاوہ پوری دنیا چیخ چیخ کر آسمان بھی سر پر اٹھا لے تو بھی فرق نہیں پڑنے لگا۔ شہر ٹورانٹو کے لوگوں کا ووٹنگ میں حصہ لینا اور رائے زنی کرنا تو سمجھ میں آتا ہے۔ پاکستان سے مشرق وسطیٰ تک کے مسلمانوں کا اس پر اضطراب اور جوش و خروش چہ معنی دارد ؟
مسئلہ مذکورہ سکول کا ہے یا باقی جہاں کا ؟
مسئلہ ٹورانٹو کا ہے یا باقی دنیا کا؟
مسئلہ ٹورانٹو کے مسلمانوں کا ہے یا پاکستان سے مشرق وسطٰی تک پھیلے مسلمانوں کا ؟


عرض یہ ہے کہ ڈیڑھ سال ٹورانٹو کے سکولوں میں زیر تعلیم رہا ہوں۔ جمعہ کی وقت ایک کمرے میں باجماعت نماز کا اہتمام کرتے تھے ، جو اپنے آغاز سے لے کر انجام تک ہڑنگ بو اور افراتفرفی پر مبنی تھا۔ نہ وضو کرنے مناسب انتظام نہ طہارت کا مناسب بندوبست ، نہ وہ خاموشی و یکسوئی جو نماز کے لئے لازم ہے۔ چند ہفتوں بعد میں نے اور میرے قریبی مسلمان دوستوں نے فیصلہ کیا کہ نماز جمعہ کے نام پر سکول کے ایک کمرے میں یہ تماشہ کھڑا کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی راہ لی جائے اور قریبی مسجد جو سکول سے محض دس منٹ کی پیدل مسافت پر ہے وہاں جا کر مکمل اہتمام کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی جائے۔ کھانے کے وقفہ کے دوران جمعہ کو مسجد کا رخ کرتے ، واپسی پر اگلی کلاس کے لئے پندرہ منٹ لیٹ ہوجاتے تھے تو غیر مسلم ساتھیوں سے نوٹس مانگ لیتے۔ کامیابی سے یہ معمول ایک سال سے زائد عرصہ تک چلائے رکھا۔ معمولات دنیا بھی چلتے رہے ، دینی فریضہ بھی ادا ہوتا رہا۔ تاہم اپنے مذہب کو اپنے سکول سے باہر رکھا جو کہ ایک سیکولر نظام تعلیم کاتقاضا ہے۔
آجکل جہاں جاب کرتا ہوں وہاں کچھ وقت آفس میں گذارنے کے علاوہ شپنگ اورریسیونگ سیکشن کو بھی ٹائم دینا پڑتا ہے۔ جب تک آفس میں ہوں تو خیر ہے تاہم مذکورہ سیکشن میں گرمی ، اور جسمانی مشقت کی بدولت تھکن ، پیاس اور نیند سے برا حال ہوجاتا ہے۔ کولیگ خواتین و حضرات جوس کی بوتل ساتھ ساتھ ختم کرتے جاتے ہیں ، لنچ اور چائے پانی کے وقفہ الگ۔ جبکہ خاکسار روزے کی حالت میں سوائے صبر کے اور کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ مینیجر اور کولیگز نے کہا کہ ڈیوٹی بدلوا لو۔ جب تک روزے ہیں ، کم وقت کے لئے آؤ یا کمپیوٹر کے آگے ہی سارا وقت گذار لو ، وقت آسان کٹے گا۔ لیکن اپنا ماننا یہ ہے کہ خصوصی رعایت نہیں چاہیے۔ مذہب اپنی جگہ ، کام اپنی جگہ۔ وہ عبادت ہی کیا جس کے لئے معمولات دنیا چھوڑ کر آرام ڈھونڈا جائے ؟ پھر ایک سیکولر معاشرے کے سیکولر نظام میں اپنی مذہبی ٹانگ کیوں گھسیڑتا پھروں ؟ میرا مذہب میرا مسئلہ ہے ، دوسرے کے معمولات میں خلل کیوں آئے ؟

موضوع کی طرف واپس آؤں تو اول تو گریٹر ٹورانٹو ایریا کا شہری ہونے کے باوجود متعلقہ سکول کا طالب علم نہ ہونے کے سبب اپنے آپ کو بڑھ بڑھ کر رائے زنی کا مستحق نہیں سمجھتا۔ پھر سکول کو درپیش مسئلہ سے پوری طرح آگاہی بھی نہیں۔ ہاں اگر مذکورہ سکول کا طالب علم ہوتا تو مذہب کو سیکولر نظام تعلیم سے مکمل دور رکھنے کے اصول کی بھر پور پاسداری کرتا۔ اور غیرمسلم ساتھی طلبہ اور ان کے والدین کے تحفظات نبٹانے کی طرف بھی توجہ دیتا۔

رہ گئے ہزاروں میل دور بیٹھے ، فکر غیر مبتلا اہل جذبات ، تو ان سے گذارش ہے کہ بھائیو اور بہنو! دور دراز کی بستیوں کے چھوٹے موٹے غم چھوڑیے۔ آپ کے اپنے ممالک میں جو بڑے بڑے خوفناک مسائل منہ کھولے آپ کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں ، اپنی توانائیاں ان پہ صرف کیجئے۔ اپنے ارد گرد کے مسائل جن کا تعلق واقعتا آپ اور آپ کے مستقبل سے ہے ، ان پہ رائے زنی کروا کر کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں تو بڑی بات ہے۔ دس ہزار میل دور ٹورانٹو کا سکول اپنا مسئلہ نبٹا لے گا چاہے آپ کی خواہشات و جذبات کچھ ہی ہوں۔

خیر اندیش
عثمان (ساکن کینیڈا)
 
Top