اسیران ِ جمالِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
کتاب اسیران ِ جمالِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔
(ڈاکٹر طاہر القادری)
کائنات کا تمام تر حسن و جمال ابد الآباد تک آفتابِ رسالت کے جلوؤں کی خیرات ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دنیا کے خوش قسمت ترین انسان تھے کہ انہوں نے حالتِ ایمان میں آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ اُنہیں ان فضاؤں میں جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انفاسِ پاک سے معطر تھیں، سانس لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہ تھی، دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں دنیا و مافیہا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھا۔ وہ ہر وقت محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دینے کے لئے ماہیء بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے۔ اس حسنِ بے مثال کی جدائی کا تصور بھی ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا۔ وہ چاہے کتنے ہی مغموم و رنجیدہ ہوتے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے ہی ان کے دل و جاں کو راحت اور سکون کی دولت مل جاتی، پھر وہ عالمِ وارفتگی میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی رفاقت کی آرزو اور تمنا کی فضائے دلکش میں گم ہو جاتے۔ انہیں یہ اندیشہ بے تاب رکھتا کہ کہیں اُن سے صحبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گراں بہا نعمت چھن نہ جائے، اُن کے قلوبِ مضطر کو اس وقت قرار آیا جب اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال پر مر مٹنے والے عشاق کو اخروی زندگی میں ابدی رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مژدۂ جانفزا سنایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا :
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًاO ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًاO (سورۃ النساء، آیت نمبر 69-70)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت)
اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo یہ فضلِ (خاص) اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہےo‘‘
اِس مقام پر مفسرینِ کرام نے آیتِ مذکورہ کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و وارفتگی کے احوال و واقعات کا تذکرہ بڑے پیارے اور دلآویز انداز سے کیا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
جاء رجل إلی النبی صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! إنک لأحب إلي من نفسي، و إنک لأحب إلي من والدي، و إني لأکون في البيت، فاذکرک فما أصبر حتي آتی فانظر إليک، و إذا ذکرت موتی و موتک عرفت انک إذا دخلت الجنة رفعت مع النبيين، و أني إذا دخلت الجنة خشيت أن لا أراک، فلم يزد عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم شيئا حتي نزل جبريل بهذه الاية : (وَ مَنْ يطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِينَ اَنْعَمَ اﷲُ عليهمْ... ).
سيوطي، الدر المنثور، 2 : 2182
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 3523
هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 47
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 5153
سيوطي، المعجم الصغير، 1 : 653
ابو نعيم، حلية الاولياء، 4 : 7240
ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 125

’’ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ! آپ مجھے میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا، اس اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
کتبِ احادیث و سیر میں اس قسم کے متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ وہ اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ اسیرانِ جمالِ مصطفی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی پاتے تھے اور انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ وہ ایک دوسرے سے اقبال کی زبان میں یوں ہم نوا ہوتے تھے :
بیا اے ہمنشیں باھم بنالیم
من و تو کشتۂ شانِ جمالیم
(میرے ساتھی آ! مل کر روئیں، میں اور تُو ایک ہی شانِ حسن و جمال کے کشتہ ہیں۔)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔

ذیل میں اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جائے گا ۔ (ان شاء اللہ عزوجل)
 

الشفاء

لائبریرین
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا شوقِ دیدار۔

مکہ معظمہ میں اسلام کا پہلا تعلیمی اور تبلیغی مرکز کوہِ صفا کے دامن میں واقع دارِارقم تھا، اسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس فرماتے۔ ابھی مسلمانوں کی تعداد 39 تک پہنچی تھی کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ کفار کے سامنے دعوتِ اسلام اعلانیہ پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منع فرمانے کے باوجود انہوں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔
و قام أبو بکر فی الناس خطيباً و رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم جالس، فکان أول خطيب دعا إلی اﷲ عزوجل وإلی رسوله صلی الله عليه وآله وسلم.
’’سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ پس آپ ہی وہ پہلے خطیب (داعی) تھے جنہوں نے (سب سے پہلے) اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوگوں کو بلایا۔‘‘
(ابن کثير، البدايه والنهايه ۔ حلبی، السيرة الحلبيه، ۔ ديار بکری، تاريخ الخميس، طبری، الرياض النضره)​
اسی بنا پر آپ کو اسلام کا ’’خطیب اوّل‘‘ کہا جاتا ہے۔ نتیجتاً کفار نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا اور آپ کو اس قدر زد و کوب کیا کہ آپ خون میں لت پت ہو گئے، انہوں نے اپنی طرف سے آپ کو جان سے مار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، جب انہوں نے محسوس کیا کہ شاید آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے تو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کے خاندان کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہ آپ کو اٹھا کر گھر لے گئے اور آپس میں مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم اس ظلم و تعدی کا ضرور بدلہ لیں گے لیکن ابھی آپ کے سانس اور جسم کا رشتہ برقرار تھا۔ آپ کے والدِ گرامی ابو قحافہ، والدہ اور آپ کا خاندان آپ کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھا، مگر جب ہوش آیا اور آنکھ کھولی تو آپ رضی اللہ عنہ کی زبانِ اقدس پر جاری ہونے والا پہلا جملہ یہ تھا :
ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘ تمام خاندان اس بات پر ناراض ہو کر چلا گیا کہ ہم اس کی فکر میں ہیں اور اسے کسی اور کی فکر لگی ہوئی ہے۔ آپ کی والدہ آپ کو کوئی شے کھانے یا پینے کے لئے اصرار سے کہتیں، لیکن اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر مرتبہ یہی جواب ہوتا، کہ اس وقت تک کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا جب تک مجھے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر نہیں مل جاتی کہ وہ کس حال میں ہیں۔ لختِ جگر کی یہ حالتِ زار دیکھ کر آپ کی والدہ کہنے لگیں : واﷲ! ما لی علم بصاحبک. ’’خدا کی قسم! مجھے آپ کے دوست کی خبر نہیں کہ وہ کیسے ہیں؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے والدہ سے کہا کہ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا بنت خطاب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے پوچھ کر آؤ۔ آپ کی والدہ امِ جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ماجرا بیان کیا۔ چونکہ انہیں ابھی اپنا اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی۔ ہاں اگر تو چاہتی ہے تو میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کے پاس چلتی ہوں۔ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا آپ کی والدہ کے ہمراہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو ان کی حالت دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کہنے لگیں :

إنی لأرجو أن ينتقم اﷲ لک. ’’مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور اُن سے تمہارا بدلہ لے گا۔‘‘ آپ نے فرمایا! ان باتوں کو چھوڑو مجھے صرف یہ بتاؤ :ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے عرض کیا : سالم صالح. ’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ اور خیریت سے ہیں۔‘‘ پوچھا : فأين هو؟ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس وقت) کہاں ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دارِ ارقم میں ہی تشریف فرما ہیں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا : ان لا أذوق طعاما أو شرابا أو آتی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم. ’’میں اس وقت تک کھاؤں گا نہ کچھ پیوں گا جب تک کہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان آنکھوں سے بخیریت نہ دیکھ لوں۔‘‘
(ابن کثير، البدايه والنهايه، ۔ حلبی، السيرة الحلبيه۔ طبری، الرياض النضره، ۔ ديار بکری، تاريخ الخميس)

شمعِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پروانے کو سہارا دے کر دارِ ارقم لایا گیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عاشقِ زار کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آگے بڑھ کر تھام لیا اور اپنے عاشقِ زار پر جھک کر اس کے بوسے لینا شروع کر دیئے۔ تمام مسلمان بھی آپ کی طرف لپکے۔ اپنے یارِ غمگسار کو زخمی حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عجیب رقت طاری ہو گئی۔ اُنہوں نے عرض کیا کہ میری والدہ حاضر خدمت ہیں، ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دولتِ ایمان سے نوازے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ دولتِ ایمان سے شرف یاب ہوگئیں۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
ہجرِ رسول اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی گریہ و زاری۔

حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے : ایک رات آپ عوام کی خدمت کے لیے رات کو نکلے تو آپ نے ایک گھر میں دیکھا کہ چراغ جل رہا ہے اور ایک بوڑھی خاتون اُون کاتتے ہوئے ہجر و فراق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہی ہے :

علی محمد صلاة الأبرار
صلی عليه الطيبون الأخيار
قد کنتَ قواماً بکا بالأسحار
يا ليت شعری والمنايا أطوار
هل تجمعنی و حبيبی الدار
(قاضی عياض، الشفاء۔ ابن مبارک، الزهد)
’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے تمام ماننے والوں کی طرف سے سلام ہو اور تمام متقین کی طرف سے بھی۔ آپ راتوں کو اللہ کی یاد میں کثیر قیام کرنے والے اور سحری کے وقت آنسو بہانے والے تھے۔ ہائے افسوس! اسبابِ موت متعدد ہیں، کاش مجھے یقین ہوجائے کہ روزِ قیامت مجھے آقا کا قرب نصیب ہوسکے گا۔‘‘
یہ اشعار سن کر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بے اختیار اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد آ گئی اور وہ زار و قطار رو پڑے۔ اہل سیر آگے لکھتے ہیں :
طرق عليها الباب، فقالت : من هذا؟ فقال : عمر بن الخطاب، فقالت : ما لي ولعمر في هذه الساعة؟ فقال : افتحي، يرحمک اﷲ فلا بأس عليک، ففتحت له، فدخل عليها، وقال : ردي الکلمات التي قلتيها آنفا، فردتها، فقال : ادخليني معکما و قولي و عمر فاغفرله يا غفار. (خفاجي، نسيم الرياض)
’’انہوں نے دروازے پر دستک دی۔ خاتون نے پوچھا : کون؟ آپ نے کہا : عمر بن الخطاب۔ خاتون نے کہا : رات کے ان اوقات میں عمر کو یہاں کیا کام؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تجھ پر رحم فرمائے، تو دروازہ کھول تجھے کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ اس نے دروازہ کھولا : آپ اندر داخل ہوگئے اور کہا کہ جو اشعار تو ابھی پڑھ رہی تھی انہیں دوبارہ پڑھ۔ اس نے جب دوبارہ اشعار پڑھے تو آپ کہنے لگے کہ اس مسعود و مبارک اجتماع میں مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلے اور یہ کہہ کہ ہم دونوں کو آخرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو اور اے معاف کرنے والے عمر کو معاف کر دے۔‘‘
بقول قاضی سلیمان منصور پوری رحمۃ اﷲ علیہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کے بعد چند دن تک صاحبِ فراش رہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی عیادت کے لئے آتے رہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نزدیک یہی ایمان تھا اور یہی دین کہ وہ کسی بھی شئے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے بغیر اپنا تعلق قائم نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج پر آئے، طواف کیا اور حجرِاسود کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ اس سے فرمانے لگے :
إنی أعلم أنک حجر لا تضر و لا تنفع، ولو لا أنی رأيت النبی صلي الله عليه وآله وسلم يقبلک ما قبلتک. (بخاری، مسلم، ابن ماجه، نسائی، احمد بن حنبل، المسند)
’’میں جانتا ہوں بیشک تو ایک پتھر ہے جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ یہ کلمات ادا کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔

سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنھم کا دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منفرد اعزاز
صدیقِ باوفا رضی اللہ عنہ کو سفرِ ہجرت میں رفاقتِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول ہونے کے شرفِ لازوال سے مشرف ہوئے۔ ان جلیل القدر صحابہ کو صحابہ رضی اللہ عنھم کی عظیم جماعت میں کئی دیگر حوالوں سے بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان يخرج علي أصحابه من المهاجرين و الأنصار، و هم جلوس و فيهم أبوبکر و عمر، فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلا أبوبکر و عمر، فإنهما کانا ينظران إليه و ينظر إليهما و يتبسمان إليه و يتبسم إليهما. (ترمذي، الجامع الصحيح، احمد بن حنبل، المسند)
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا، البتہ ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو مسلسل دیکھتے رہتے اور سرکار ان کو دیکھتے، یہ دونوں حضرات رضی اﷲ عنھما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
’’علی محمدٍ صلاة الأبرار
صلی عليه الطيبون الأخيار
قد کنتَ قواماً بکا بالأسحار
يا ليتَ شعری والمنايا أطوار
هل تجمَعَنی و حبيبی الدار‘‘
صلی اللہ علیہ وسلم
:love-over::love-over::love-over::love-over::cry::cry::cry::cry::cry::cry::cry:
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ ۔ ۔ ۔ اسیرِحسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-

عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو منفرد اعزاز عطا ہوا اس کا مظاہرہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا سفیر بنا کر مکہ معظمہ بھیجا کہ کفار و مشرکین سے مذاکرات کریں۔ کفار نے پابندی لگا دی تھی کہ اس سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفیرِ رسول بن کر مذاکرات کے لئے حرمِ کعبہ پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس سال آپ لوگ حج نہیں کر سکتے، تاہم کفارِ مکہ نے بزعم خویش رواداری برتتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ چونکہ تم آگئے ہو، اس لئے حاضری کے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اگر چاہو تو ہم تمہیں طواف کی اجازت دیتے ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے کفار کی اس پیشکش کو بڑی شان بے نیازی سے ٹھکرا دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طواف کرنا انہیں گوارا نہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا :
ما کنتُ لأطوف به حتی يطوف به رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. ’’میں اس وقت تک طوافِ کعبہ نہیں کروں گا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔‘‘ (بيهقي، السنن الکبري - ابن هشام، السيرة النبويه۔ طبري، التاريخ- قاضي عياض، الشفاء- ابن کثير، البدايه والنهايه -ابن کثير، تفسير )
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل سے دشمنانِ اسلام کو جتلا دیا کہ ہم کعبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر کعبہ مانتے ہیں اور اس کا طواف بھی اس لئے کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کعبے سے اپنی جذباتی وابستگی اور عقیدت کو اہمیت نہ دی حالانکہ اس کے دیدار کے لئے وہ مدت سے ترس رہے تھے اور ہجرت کے چھ سات سال بعد انہیں یہ پہلا موقع مل رہا تھا۔ اگر وہ طواف کر بھی لیتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہیں کیا تھا لیکن ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی جس کے بغیر وہ کسی عمل کو کوئی وقعت دینے کے لئے تیار نہ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہی نسبت ان کے ایمان کی بنیاد تھی۔
حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشقی خودسپردگی اور وارفتگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ کتبِ احادیث میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر گوشت کا لقمہ تناول کرنے لگے۔ لوگوں نے پوچھا : حضرت! یہ دروازہ گزرگاہِ عام ہے، یہاں بیٹھ کر کھانا چہ معنی دارد؟ دیکھنے والے کیا سمجھیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جواب میں فرمانے لگے : مجھے اور تو کچھ خبر نہیں، بس اتنا پتہ ہے کہ ایک بار میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا تھا، میں تو اس سنت پر عمل کر رہا ہوں اور اس وقت حضورِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی ادا میرے پیشِ نظر ہے۔
ایک دفعہ وضو کے بعد بغیر کسی وجہ کے مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا : آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں جبکہ کسی سے گفتگو اور مکالمہ بھی نہیں۔ فرمانے لگے : مجھے کسی سے کیا غرض! میں نے تو ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح وضو کرنے کے بعد مسکراتے دیکھا تھا، میں تو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی ادا کو دہرا رہا ہوں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :

مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
ترے نقشِ پاکی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں

اس تعلقِ عشقی کا اظہار تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگیوں میں جھلکتا تھا۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقِ عشقی
حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔ اس مقام پر سیدنا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے اس قول کا ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی لذت آفرین کیفیت کو بیان کر کے ثابت کر دیا کہ عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم سر بلند کرنا اور اطاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قندیل دل میں روشن رکھنا ہی ایمان کی اساس ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا : کيف کان حبکم لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟ آپ (صحابہ کرام) کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر محبت تھی؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کان و اﷲ! أحب إلينا من أموالنا وأولادنا و آباء نا و أمهاتنا و من الماء البارد علي الظمأ. ’’اللہ کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے اموال، اولاد، آباء و اجداد اور امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے اور کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔‘‘ (قاضی عياض، الشفا،)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ وہ زیارتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواقع تلاش کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کی خوشبو انہیں بتا دیتی کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف گئے ہیں۔ وہ آسانی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراغ لگا لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی تابانیوں میں اپنی روح و جان کے ساتھ بھیگ جاتے۔ جناب حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور تقرب کا حال جاننے کے لئے یہ روایت ملاحظہ فرمائیے :

سورج کا پلٹنا اور نمازِ عصر کی ادائیگی:-
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اس وقت چاہتے تو عرض کر دیتے کہ حضور صلی اﷲ علیک وسلم! تھوڑی دیر توقف فرمائیے کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں، پھر حاضرِ خدمت ہوجاتا ہوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن عقل کا کام تو بقولِ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ بہانے تلاش کرنا اور تنقید کرنا ہے۔ فرماتے ہیں :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
عقل کا تو شیوہ ہی تنقید ہے، جبکہ عشق آنکھیں بند کر کے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے :
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت

(بو علی (جو کہ عقل کی علامت ہے محبوب کی) اونٹنی کے غبار میں گم ہو گیا (جبکہ عشق کے نمائندے) رومی نے ہاتھ آگے بڑھا کر (محبوب کے) کجاوے کو تھام لیا۔)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’’عقل قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ‘‘ کا مظہر بنتے ہوئے اپنی نماز محبوب کے آرام پر قربان کر دی، جس کے نتیجے میں اس کشتۂ آتشِ عشق اور پیکرِ وفا کو وہ نماز نصیب ہوئی جو کائناتِ انسانیت میں کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو کب سے موقع کے متلاشی تھے کہ انہیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اور قرب نصیب ہو۔ وہ ایسا نادر موقع کیونکر ہاتھوں سے جانے دیتے، وہ تو زبان حال سے کہہ رہے ہوں گے :
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں

چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِانور کے لئے اپنی گود بچھا دی، جس پر آپ انے اپنا مبارک سر رکھا اور اِستراحت فرمانے لگے۔ اب نہ جیسا کہ ہم ابھی بتا چکے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور نہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نماز عصر ادا ہوئی کہ نہیں؟ اِدھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی خوش بختی کے کیف میں آفتابِ نبوت کو تکے جا رہے تھے اور ادھرآفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتا جا رہا تھا۔ جب ان کی نظر ڈوبتے سورج پر پڑی تو چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کبھی نگاہ سورج پر ڈالتے اور کبھی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ زیبا پر۔ کبھی مائل بہ غروب سورج کو تکتے تو کبھی آفتابِ رسالت کے طلوع کا منظر دیکھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔ پوچھا : کیا بات ہوئی؟ عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔ فرمایا : قضا پڑھ لو۔ انہوں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہی تھیں کہ آپ رضی اللہ عنہ لی اﷲ علیک وسلم کی غلامی میں نماز جائے اور قضا پڑھوں؟ اگر اس طرح نماز قضا پڑھوں تو پھر ادا کب پڑھوں گا؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :

اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس. ’’اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا (کہ اس کی نماز قضا ہو گئی)، پس اس پر سورج کو پلٹا دے (تاکہ اس کی نماز ادا ہو)۔‘‘
(طبراني، المعجم الکبير، هيثمي، مجمع الزوائد، قاضي عياض، الشفا، ابن کثير، البدايه والنهايه- سيوطي، الخصائص الکبري، حلبي، السيرة الحلبيه،)​
نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہاں تو نماز قضا ہو گئی تھی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قضا کو اﷲ کی اطاعت قرار دے رہے تھے۔ کیا معاذ اللہ آرام اللہ پاک فرما رہا تھا؟ نہیں، وہ تو آرام سے پاک ہے۔ کیا نیند اللہ کی تھی؟ نہیں، وہ تو نیند سے بھی پاک ہے۔ آرام حضور علیہ السلام کا تھا، نیند حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، علی رضی اللہ عنہ کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر قربان ہو گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ ’’اے اللہ! علی تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا‘‘، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اطاعت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گری جیسی بھی ہو رب کی اطاعت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھے اس لئے ان کی قضا بھی اطاعتِ الٰہی قرار پائی۔ فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
مولا علی نے واری تری نیند پر نماز
اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے
اور حفظ جاں تو جان فروض غرر کی ہے
ہاں تو نے ان کو جان ،انہیں پھیر دی نماز
پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے

حدیثِ مبارک میں مذکور ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس دعا کے لئے بلند فرمائے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح واپس پلٹ آیا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو۔ یہ تو ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جنہیں کھینچنے سے سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچا آرہا ہو۔ یہاں تک کہ سورج عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔
 

الشفاء

لائبریرین
وارفتگی عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اذانِ بلالی رضی اللہ عنہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :

ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟ ’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘ (حلبي، السيرة الحلبيه،)​
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد۔ ’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘ (سبکی، شفاء السقام - هيتمی، الجوهر المنظم )
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
فلما قال : اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال : أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ، ازداد رجّتها، فلما قال : أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ، خرجت العواتق من خدورهن، و قالوا : بعث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فما رُئي يوم أکثر باکيا ولا باکية بالمدينة بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، من ذالک اليوم.( ذهبي، سير أعلام النبلاء، سبکي، شفاء السقام- حلبي، السيرة الحلبيه،)
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔

علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اللہ عنہ کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

 

الشفاء

لائبریرین
اسیرِ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ

سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے، ابو عمارہ ان کی کنیت تھی اور وہ عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو چار سال بڑے تھے۔ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے انہیں بھی دودھ پلایا تھا، اس حوالے سے یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے تو تحریکِ اسلامی کے اراکین کو ایک ولولۂ تازۂ عطا ہوا۔ آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز ہے جس سے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی حق گوئی، جرات اور بے باکی کا پتہ چلتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داعئ اعظم کی حیثیت سے فریضۂ تبلیغ سرانجام دیتے ہوئے چھ سال ہو گئے تھے لیکن کفار و مشرکینِ مکہ کی اکثریت نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ حق پر کان نہیں دھرتی تھی بلکہ انہوں نے شہر مکہ کو قریۂ جبر بنا رکھا تھا اور مسلمانوں پر جو اقلیت میں تھے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف دشنام طرازیوں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے تک بنائے جا رہے تھے۔ پورے مکہ کی فضا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کی پیاسی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی شرفِ اسلام سے محروم تھے۔ وہ شمشیر زنی، تیراندازی اور شکار و تفریح کے مشاغل میں اس قدر مشغول تھے کہ دعوتِ اسلام پر غور کرنے کی فرصت ہی نہ مل سکی تھی۔
ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوہِ صفا (یا ایک روایت کے مطابق حجون) کے مقام سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو دینِ حق کی طرف بلا رہے تھے کہ ابوجہل بھی ادھر آنکلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ بدبخت اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہذیان بکنے لگا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس پر ایک بھی شکن نمودار نہ ہوئی۔ ابوجہل گالیاں بکتا رہا، حروفِ ناروا اُس کی گندی زبان سے کانٹوں کی طرح گرتے رہے۔ اس بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی اذیت کا نشانہ بھی بنایا لیکن تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس پر حرفِ شکوہ تک نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور اس کی ہرزہ سرائی و اذیت رسانی پر کمال صبر و تحمل سے کام لیا۔ ایک عورت اپنے گھر میں بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے لوٹے تو اس خاتون سے نہ رہا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگی : کاش آپ تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے سے کتنا برا سلوک کیا ہے، انہیں گالیاں دی ہیں اور اُن پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے، چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگے : ابوجہل کی یہ جرات کہ اُس نے میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہاتھ اٹھایا ہے، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچے، ابوجہل کو دیکھا کہ کفار و مشرکین کی ایک مجلس میں بیٹھا لاف زنی کر رہا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ابوجہل کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے اور اس کی دریدہ دہنی اور شرارت کی سزا دینے کے لئے اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری، جس سے اُس بدبخت شاتمِ رسول کا سر پھٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا : ابوجہل! تیری یہ ہمت کہ میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے اور ان سے بدسلوکی کرے۔ اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا باطن نورِ ایمان سے روشن ہو گیا اور ان کے مقدر کا ستارا اوجِ ثریا پر چمکنے لگا، اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنکھوں میں غیرتِ ایمانی کا چراغ بن کر جل اٹھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابوجہل سے کہنے لگے :
أتشتمه وأنا علی دينه أقول ما يقول؟ فرد ذلک علي إن استطعت. ’’کیا تو (میرے بھتیجے) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیتا ہے؟ میں (بھی اُن کے دین پر ہوں اور) وہی کہتا ہوں جو وہ فرماتے ہیں، میرا راستہ روک سکتے ہو تو روک کر دیکھو۔‘‘ (ابن هشام، السيرة النبويه- طبري، التاريخ- حلبي، السيرة الحلبيه- طبري، ذخائر العقبي)

اور پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہونے کے لئے آ رہے تھے تو اصحابِ رسول کو تردد ہوا لیکن جان نثارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پورے اعتماد سے گویا ہوئے کوئی بات نہیں، عمر آتا ہے تو اُسے آنے دو، اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک اور اگر برے ارادے سے آیا ہے تو اس کی تلوار ہی سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ایک ایمان افروز واقعہ

غزوہء تبوک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا آخری معرکہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض جنگی حکمتِ عملیوں اور مصلحتوں کے پیش نظر کسی غزوۂ پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے عزائم عام لوگوں سے خفیہ رکھا کرتے تھے لیکن غزوہ تبوک ایسا پہلا موقع تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانیہ طور پر مسلمانوں کو بھرپور جنگی تیاریوں کا حکم دیا حتی کہ نو مسلموں کے لئے بھی اس مہم میں حصہ لینا لازمی قرار دے دیا۔ جب جہاد کے لئے لشکرِ اسلام کی تیاری کا اعلانِ عام ہوا۔ اُن دنوں جزیرہ نمائے عرب شدید گرمی کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ فصلِ خرما پک چکی تھی، تمازتِ آفتاب کا وہ عالم تھا کہ ہر ذی روح کو سائے کی تلاش تھی۔ اس سے قبل کافی عرصے سے قحط سالی کے باعث مسلمان انتہائی عسرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ باربرداری اور سواری کے جانوروں کی شدید قلت تھی، سفر طویل تھا اور وسائل کا فقدان ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ اس پر مستزاد اسلام دشمن منافقین نے اس نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے لشکرِ اسلام میں وسوسے اور پھوٹ ڈالنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ کبھی وہ مسلمانوں کو موسم کی شدت سے ڈراتے، کبھی بے آب و گیاہ صحرائی سفر کی صعوبتوں کا ذکر کر کے ان کے پائے استقلال کو ڈگمگانے کی سعی کرتے اور کبھی رومیوں کی فوجی قوت کو بڑھا چڑھا کر اُن کے حربی اسلحہ اور ساز و سامان سے مسلمانوں کے حوصلے (morale) پست کرنے کا جتن کرتے، الغرض مختلف نفسیاتی حربے بروئے کار لائے جا رہے تھے۔ اس عالم میں جہاد کا اعلان مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا امتحان اور چیلنج تھا مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے جذبے سے سرشار تھے وہ کب ان سازشیوں کو خاطر میں لاتے۔ انہوں نے کسی مصلحت اور اندیشۂ دور و دراز کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا اور بغیر کسی تاخیر کے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں ہر پیر و جوان سر پر کفن باندھ کر تبوک کے طویل سفر پر روانہ ہو گیا۔ لیکن تین مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم محض سستی اور غفلت کی وجہ سے پیچھے رہ گئے، اس واقعہ کی تفصیلات اہلِ سیر اور ائمہ تفسیر نے خود حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی بیان کی ہیں۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے دوسرے دو ساتھی جو غزوہء تبوک میں اسلامی لشکر کے ساتھ نہ جا سکے حضرت مرارۃ بن الربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہما تھے۔

حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کا شمار صاحبِ ثروت لوگوں میں ہوتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سواری کے لئے ایک اونٹ خریدوں گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لشکر میں شامل ہو جاؤں گا۔ مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کا بھی یہی ارادہ تھا۔ وہ بھی اونٹ خرید کر لشکرِ اسلام میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ دونوں حضرات اسی شش و پنج میں تھے کہ آج چلتے ہیں کل چلتے ہیں، جب زیادہ دن گزر گئے تو یہ سوچ غالب آگئی کہ اب تو روانگی میں غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے، ممکن ہے وہ اسلامی لشکر میں شامل ہی نہ ہوسکیں، اسی ادھیڑ بن میں سفرِ جہاد پر روانہ نہ ہوسکے۔ جب مدینہ میں گھر سے باہر نکلتے تو سوائے ضعیفوں اور منافقین کے انہیں کوئی نظر نہ آتا۔

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا اور وہ لشکرِ اسلام میں شمولیت کی سعادت سے محروم رہ گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب تبوک سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کی خبر ملی تو ندامت و شرمندگی کے مارے ہم میں سے ہر ایک کو یہی خیال ہر وقت دامن گیر رہنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ وہ کبھی اپنے اہلِ خانہ سے مشورہ طلب کر تے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے، کبھی ذہن میں یہ خیال ابھرتا کہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنالوں گا۔ پھر ہم میں سے ہر ایک نے یہ فیصلہ کرلیا کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلوں کے پوشیدہ اَحوال نورِ نبوت سے جان لیتے ہیں، ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔
تبوک سے واپسی پر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ٹھہرے تو وہاں پیچھے رہ جانے والے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے، جن کی تعداد راویانِ حدیث نے اسّی پچاسی کے لگ بھگ بیان کی ہے۔ ان میں ہر کوئی قسمیں کھا کھا کر کوئی نہ کوئی عذر پیش کر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ظاہری قسموں پر اعتبار کر کے درگزر سے کام لیا۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میری باری آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معنی خیز تبسم فرمایا، جس سے ناگواری اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : تمہیں کس بات نے پیچھے رکھا، کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر میرا معاملہ کسی دنیا دار سے ہوتا تو میں بھی کوئی بہانہ بنا کر چھوٹ جاتا لیکن میرا معاملہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے لہٰذا سچ سچ بیان کروں گا۔ آقا! سچی بات یہ ہے کہ میں آسودہ حال تھا کوئی عذر اور بہانہ نہیں بس غفلت کا شکار ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا، اس لئے اب انتظار کر یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے۔ فرماتے ہیں : میں محفل سے اٹھا تو بنی مسلمہ کے چند آدمی اٹھ کر میرے ساتھ باہر آئے اور مجھے ملامت کرنے لگے، حتیٰ کہ میں نے سوچا کہ واپس جا کر اپنا بیان بدل دوں کہ مجھے حضرت معاذ بن سہیل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ انہوں نے میری ہمت بندھائی کہ سچ پر قائم رہو، اللہ تمہارے لئے کشادگی کی کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اِسی طرح حضرت ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ اور مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کا یہی معاملہ رہا۔ یہ تینوں مخلصین کڑی آزمائش میں ڈالے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے سماجی مقاطعہ (social boycott) کا حکم صادر فرمایا تو نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ لوگوں نے ان سے بات چیت تک کرنا چھوڑ دی۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’سماجی مقاطعہ کے نتیجہ میں لوگ ہم سے اجتناب کرنے لگے۔ دوسرے دو ساتھی تو شرم کے مارے گھروں سے باہر نہ نکلے۔ میں ہمت کر کے بازار میں جاتا، مسجد میں نماز پڑھتا، لوگوں کو سلام کہتا لیکن کوئی جواب نہ دیتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتا تو وہ منہ پھیر لیتے۔ جب میں نماز میں متوجہ ہو جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھتے لیکن جب میں دیکھتا تو اعراض فرماتے۔ ایک دن میں اپنے چچازاد اور بچپن کے دوست ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی دیوار پر چڑھ کر بڑے رنج اور کرب سے کہنے لگا کہ تم میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتے، تم تو مجھے بچپن سے جانتے ہو، میں منافق نہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے یہ جملہ تین بار دہرایا تو اُس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ یہ جواب سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور بوجھل دل کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔

یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم توفیقِ ایزدی سے اس کڑی آزمائش اور امتحان کے کڑے مرحلے سے گزرے لیکن زبان سے اُف تک نہ کی۔ جب اس سوشل بائیکاٹ کے پہاڑ جیسے چالیس دن گزر گئے تو بارگاہِ نبوی سے حکم صادر ہوا کہ اپنی بیویوں سے بھی علیٰحدہ ہوجاؤ۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ جذباتی سطح پر ایک طوفان کھڑا ہوسکتا تھا لیکن ایک لمحہ کا توقف کئے بغیر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : کیا طلاق دے دوں؟ بتایا گیا کہ نہیں صرف وقتی طور پر علیحدگی اختیار کر لو۔ یہ حکم ملتے ہی میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا۔ ادھر حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رو روکر اپنا برا حال کر رکھا تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوئیں، عرض کیا : یا رسول اللہ! ہلال رضی اللہ عنہ بڑی عمر کے ہیں، رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں، جب سے سماجی مقاطعہ ہوا ہے فرطِ غم سے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے، کسی وقت چند لقمے لے لیتے ہیں، دن کو روزہ رکھتے ہیں، ساری ساری رات نوافل ادا کرتے اور توبہ و استغفار کرتے گزارتے ہیں، ڈر ہے کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائیں۔ یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیک وسلم! کوئی خادم بھی نہیں کہ ان کی دیکھ بھال کر سکے، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں حسبِ سابق ان کی خدمت بجا لاتی رہوں؟ کتبِ سیر و احادیث میں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو بھی کسی نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بیوی کو اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت لے لیں۔ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یہ عرض کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ نجانے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا جواب ارشاد فرمائیں، میں یہ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ اسی کشمکش میں پچاس دن گزر گئے۔ ان صبر آزما لمحات میں حضرت کعب بن مالک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک ایسی مصیبت اور آزمائش کا مرحلہ آیا جس نے ان کے دن کے سکون اور رات کے آرام کو غارت کر دیا۔ وہ فرماتے ہیں : ’’میں ایک روز مدینہ کے بازار میں گھوم رہا تھا کہ ایک شامی کسان جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے آیا کرتا تھا، وہ میرے بارے میں لوگوں سے پوچھتا پھر رہا تھا کسی نے اشارے سے میرا پتہ بتا دیا تو وہ میرے پاس آگیا۔ اس نے مجھے شاہِ غسان کا ریشمی غلاف میں ملفوف ایک خط دیا۔ اس میں جو کچھ لکھا تھا وہ اس طرح تھا :
أما بعد! فإنه قد بلغنی أن صاحبک قد جفاک ولم يجعلک اﷲ بدار هوان ولا مضيعة، فالحق بنا نواسک.۔ ’’اما بعد! مجھے اطلاع پہنچي ہے کہ تیرا صاحب (مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ سے ناراض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت و رسوائی اور ضائع ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا۔ ہمارے پاس چلے آؤ ہم تم سے بہتر سلوک کریں گے۔‘‘ (بخاری، - مسلم، - احمد بن حنبل، المسند،- ابن حبان، الصحيح، - بيهقي، السنن الکبري وغیرہم)
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شاہی مکتوب پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا : یہ پہلے سے بھی زیادہ کڑی آزمائش ہے، (افسوس کہ) میرے ایمان پر حملہ کرنے کے لئے ایک مشرک بادشاہ بھی مجھ پر ڈورے ڈالنے لگا ہے۔ میں نے اس کا خط پھاڑ کر تنور میں پھینک دیا (اور اس کی مذموم پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا)۔

ان مخلص صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے آزمائش کا مرحلہ پچاس دنوں کے بعد مکمل ہوا، اللہ رب العزت نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا اعلان بذریعہ وحی فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انہیں مبارک باد دینے کے لیے ان کے گرد جمع ہوگئے کہ وہ ہر کڑے امتحان میں سرخرو نکلے تھے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں اِرشاد فرمایا :
لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔ القرآن، التوبه، 9 : 117، 118
’’یقینا اللہ نے نبی (معظم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوہ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ کی پیروی کی اس (صورت حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہےo اور ان تین شخصوں پر (بھی نظر رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ (کے عذاب)سے پناہ کا کوئی ٹھکانہ نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے) تب اللہ ان پر لطف و کرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہےo‘‘

ایمان کی پختگی اور استقامت کا یہ واقعہ دراصل ان عاشقانِ زار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تھا جو حقیقتاً حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسیر تھے، وہ تو اپنے آقا و مولا کو چھوڑ کر کسی اور کے در کی دریوزہ گری کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہر کڑی سے کڑی آزمائش کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ امتحان کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔ اسلام دشمن صاحبانِ اقتدار و اختیار نے تو ایسے موقعوں پر بھی اُن کے قصرِ ایمان میں نقب لگانے کی اپنی سی کوشش کی مگر وہ کسی لالچ اور دُنیوی مفاد کو خاطر میں نہ لائے، اس لئے کہ وہ تو حسنِ مصطفیٰ کے اسیر تھے اور دنیا کی کوئی طاقت کسی قیمت پر ان کی وفاداری کا سودا نہیں کرسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی پیشکش کو بھی انہوں نے پائے اِستحقار سے ٹھکرا دیا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی پر کسی پرکشش مادی منفعت کو بھی ترجیح نہ دی اور ہر نئی بلا اور مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کا فقید المثال جذبۂ حبّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمان اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ جہاد کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اطاعت و اتباع اور ایثار و بے نفسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ اپنی جان کی پروا کر رہے تھے اور نہ انہیں مال و دولت اور اہل و عیال کی محبت مرغوب تھی۔ ایسے میں بعض مخلص اور سچے اہلِ ایمان بھی بوجوہ پیچھے رہ گئے لیکن جب انہیں محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آئے اور ان کی چشمِ تصور میں اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ بے مثال منور و تاباں ہوا تو وہ دنیا کی تمام آسائشوں اور مرغوبات کو ٹھکراتے ہوئے سیدھے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آ گرے۔ ایسے عشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک جاں نثار صحابی حضرت ابو خیثمہ مالک بن قیس رضی اللہ عنہ کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی بوجوہ بروقت لشکرِ اسلام کے ساتھ روانہ نہ ہوسکے تھے لیکن احساسِ ندامت نے انہیں جلدی رختِ سفر باندھنے پر مجبور کر دیا اور وہ سیدھے جا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں قدم بوسی کے لئے حاضر ہوگئے۔ ان کی روانگی کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ دار ہے۔ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ ان کی دو بیویاں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑے حسن و جمال سے نوازا تھا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے غزوۂ تبوک کے موقع پر خطۂ عرب شدید قحط کی زد میں تھا اور اوپر سے سورج بھی آگ برسا رہا تھا۔ انہی ایام میں جب مجاہدینِ اسلام تبوک کی طرف روانہ ہونے کو تھے حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ اپنے کھجوروں کے باغ میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی دونوں بیویوں نے باغ کے اندر اپنے سائبانوں کو خوب اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور پانی کے چھڑکاؤ سے خوب ٹھنڈا کر رکھا تھا۔ شدید گرمی کے اس موسم میں جب ہر ذی روح العطش العطش پکار رہا تھا ٹھنڈے پانی کا بھی وافر بندوبست تھا۔
علاوہ ازیں دونوں بیگمات خوب بن سنور کر ان کے لئے سراپا انتظار تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر نامدار کے لئے کھانا بھی تیار کر رکھا تھا اور دونوں کی یہی خواہش تھی کہ وہ پہلے اس کے خیمے میں آئیں۔ جب حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ باغ کے اندر آئے تو دروازے پرکھڑے ہوکر دونوں بیویوں کے بناؤ سنگھار کو دیکھا، ان کے خیموں کا خوب جائزہ لیا جنہیں انہوں نے بلا کی گرمی میں بے حد آرام دہ اور ٹھنڈا بنا رکھا تھا۔ اس موقع پر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کے عشق کا امتحان ہوا، لیکن انہوں نے اس ظاہری اور عارضی آرام اور عیش و عشرت پر اس دائمی و ابدی آرام کو ترجیح دی جو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کا منتظر تھا۔ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے فرمایا :

رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی الضح والرّيح والحر، وأبو حيثمة في ظل بارد و طعام مهيا، و امرأة حسناء في ماله مقيم، ما هذا بالنصف! ثم قال : واﷲ! لا أدخل عريس واحدة منکما حتي الحق برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهيأ لي زاداً، ففعلتا. (ابن هشام، السيرة النبويه، ۔ ابن کثير، البدايه والنهايه۔ ابن کثير، السيرةالنبويه۔ ابن قيم، زاد المعاد۔ مسند سعد بن ابي وقاص)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو دھوپ، آندھی اور گرمی میں سفر پر ہوں اور ابو خیثمہ یہاں ٹھنڈے سائے، تیار کھانے اور خوبرو حسین و جمیل بیویوں کے ہمراہ اپنے مال و متاع میں محوِ استراحت ہو، یہ قرینِ انصاف نہیں۔ پھر (اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے) فرمایا : خدا کی قسم! میں تم دونوں میں سے کسی ایک کے بھی سائبان میں داخل نہیں ہوں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملوں، لہٰذا تم دونوں فوراً میرے لئے زادِراہ کا انتظام کرو، چنانچہ دونوں بیویوں نے ان کے لئے زادِ راہ تیار کیا۔‘‘

لشکرِ اسلام سوئے تبوک روانہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ بلاتاخیر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ بلاتاخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش و جستجو میں روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ تبوک پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا سارا ماجرا کہہ سنایا، جسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ یوں یہ عاشقِ صادق اور اسیرِ حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں سے فیض یاب ہوا۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خادمِ رسالت مآب حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آنکھ کھولی تو گھر کی فضا کو اللہ اور اُس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکارِ جمیل سے معمور پایا، گھر کا ہر فرد جاں نثارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں وراثت میں ملی تھی، دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت پر بھی مامور رہے،۔ پیغمبرِانسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہر وقت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضائے کیف و سرور میں گم رہتے۔ جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی۔ جس شفیق ہستی کا ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونا دل پر شاق گزرتا تھا، اس عظیم ہستی کی یاد میں آنکھیں اشکبار رہتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات کی زیارت کرتے تو دل کو اطمینان ہوتا۔ ذکرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل سجاتے، خود بھی تڑپتے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے۔

ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرما رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے :
ولا مَسِسْتُ خزّة ولا حريرَة الين من کف رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، و لا شَمِمْتُ مسکة و لا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم۔ ’’اور میں نے آج تک کسی دیبا اور ریشم کو مَس نہیں کیا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کہیں ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔‘‘ (بخاري،مسلم، احمد بن حنبل، ابن حبان، دارمی)۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اکثر خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی۔ مثنی بن سعید روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے سنا :
ما من ليلة إلاّ وأنا أري فيها حبيبي، ثم يبکی۔ ’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گذری جس میں میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔‘‘(ابن سعد، الطبقات الکبري۔ ذهبي، سير أعلام النبلاء)۔
 
Top