الشفاء
لائبریرین
کتاب اسیران ِ جمالِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔
(ڈاکٹر طاہر القادری)
کائنات کا تمام تر حسن و جمال ابد الآباد تک آفتابِ رسالت کے جلوؤں کی خیرات ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم دنیا کے خوش قسمت ترین انسان تھے کہ انہوں نے حالتِ ایمان میں آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ اُنہیں ان فضاؤں میں جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انفاسِ پاک سے معطر تھیں، سانس لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔(ڈاکٹر طاہر القادری)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہ تھی، دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں دنیا و مافیہا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھا۔ وہ ہر وقت محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دینے کے لئے ماہیء بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے۔ اس حسنِ بے مثال کی جدائی کا تصور بھی ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا۔ وہ چاہے کتنے ہی مغموم و رنجیدہ ہوتے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے ہی ان کے دل و جاں کو راحت اور سکون کی دولت مل جاتی، پھر وہ عالمِ وارفتگی میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی رفاقت کی آرزو اور تمنا کی فضائے دلکش میں گم ہو جاتے۔ انہیں یہ اندیشہ بے تاب رکھتا کہ کہیں اُن سے صحبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گراں بہا نعمت چھن نہ جائے، اُن کے قلوبِ مضطر کو اس وقت قرار آیا جب اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال پر مر مٹنے والے عشاق کو اخروی زندگی میں ابدی رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مژدۂ جانفزا سنایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا :
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًاO ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًاO (سورۃ النساء، آیت نمبر 69-70)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت)
اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo یہ فضلِ (خاص) اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہےo‘‘
اِس مقام پر مفسرینِ کرام نے آیتِ مذکورہ کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و وارفتگی کے احوال و واقعات کا تذکرہ بڑے پیارے اور دلآویز انداز سے کیا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
جاء رجل إلی النبی صلي الله عليه وآله وسلم فقال : يا رسول اﷲ! إنک لأحب إلي من نفسي، و إنک لأحب إلي من والدي، و إني لأکون في البيت، فاذکرک فما أصبر حتي آتی فانظر إليک، و إذا ذکرت موتی و موتک عرفت انک إذا دخلت الجنة رفعت مع النبيين، و أني إذا دخلت الجنة خشيت أن لا أراک، فلم يزد عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم شيئا حتي نزل جبريل بهذه الاية : (وَ مَنْ يطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِينَ اَنْعَمَ اﷲُ عليهمْ... ).
سيوطي، الدر المنثور، 2 : 2182
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 3523
هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 47
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 5153
سيوطي، المعجم الصغير، 1 : 653
ابو نعيم، حلية الاولياء، 4 : 7240
ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 125
’’ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ! آپ مجھے میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا، اس اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
کتبِ احادیث و سیر میں اس قسم کے متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ وہ اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ اسیرانِ جمالِ مصطفی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی پاتے تھے اور انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ وہ ایک دوسرے سے اقبال کی زبان میں یوں ہم نوا ہوتے تھے :
بیا اے ہمنشیں باھم بنالیم
من و تو کشتۂ شانِ جمالیم
(میرے ساتھی آ! مل کر روئیں، میں اور تُو ایک ہی شانِ حسن و جمال کے کشتہ ہیں۔)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔من و تو کشتۂ شانِ جمالیم
(میرے ساتھی آ! مل کر روئیں، میں اور تُو ایک ہی شانِ حسن و جمال کے کشتہ ہیں۔)
ذیل میں اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جائے گا ۔ (ان شاء اللہ عزوجل)