امجد اسلام امجد اسی زمیں سے نمود میری، اسی زمیں پر حساب میرا۔۔ امجد اسلام امجد

فرحت کیانی

لائبریرین
اسی زمیں سے نمود میری، اسی زمیں پر حساب میرا
میں پچھلی نسلوں کا خواب بن کر گزرتے لمحوں میں جاگتا ہوں
میں آنے والے دنوں کی آہٹ ہوں، ان زمانوں کو دیکھتا ہوں
جو سارے سینوں میں خواہشوں کے لباس پہنے اُبھر رہے ہیں
میں آنے والی رُتوں کے دامن میں ایسے پھولوں کو سونگھتا ہوں
ابھی تلک جو کِھلے نہیں ہیں
میں ایسے الفاظ سُن رہا ہوں جنہیں مطالب ملے نہیں ہیں
خزاں میں پُھوٹی ہیں میری کلیاں، اُگا ہے خوں میں گلاب میرا
اسی زمیں سے نمود میری، اسی زمیں پر حساب میرا

ستم رسیدوں کی بستیوں کو یری طرف سے نوید پہنچے
ابھرنے والا ہے اب وطن کی زمیں سے ہی آفتاب میرا
کہ میری آنکھوں پہ اُن کے فردا کا حال ظاہر ہے
میں نے دیکھا ہے، وہ شکم کی عظیم دوزخ کو بھرتے رہنے کی
داستاں کو بدل رہے ہیں
کرن کرن جو ترس رہے تھے، اب ان دریچوں سے دُکھ کے سایوں
کو قتل کر کے ضیاء کے لشکر نکل رہے ہیں
میں بادلوں کی نمی ہواؤں کے خشک جھونکوں میں چُھو رہا ہوں
میں جانتا ہوں اب ان زمینوں پہ آنے والے ہیں ایسے موسم
جو خواب جیسے حسین ہیں لیکن حقیقتوں کے لباس میں ہیں

میری طرف سے ستم رسیدوں کی بستیوں کو نوید پہنچے
کہ آنے والے دنوں کے دامن میں اُن کی خوشیاں بسی ہوئی ہیں
میں ان کو مژدہ سُنا رہا ہوں
کہ اُن کی قصے کا ہی تسلسل ہے باب میرا
گلاب بن کر مہکنے والا ہے اب زمانے میں خواب میرا
سلام تجھ کو طلوعِ فردا، ہراول انقلاب میرا
اسی زمیں سے نمود میری، اس زمیں پر حساب میرا

۔۔امجد اسلام امجد
 
Top