اسی کے ملنے سے تعبیر زندگی ملے گی

احمد وصال

محفلین
غزل
۔۔
اُسی کے ملنے سے تعبیرِ زندگی ملے گی
ہمیں پتہ ہے یہ اک خواب ہے ، نہی ملے گی

کہا تھا اُس نے کہ "میسج کروں، نہ کال کروں"
مگر وہ کیسی ہے ؟ پھر کیسے آگہی ملے گی

الہی! میں نہیں منکر تری عطاؤں کے
مگر یہ کیسے ہے ممکن مجھے خوشی ملے گی

آہ! انتہائے تغافل کہ سامنے، ۔۔۔۔ نہ سنے
اسے خبر دو کہ پھر " گہری خامُشی" ملے گی

جہاں پہ ٹکڑے ہیں رنگین چوڑیوں کے پڑے
ذرا سا آگے وہاں ٹوٹی بانسری ملے گی

مٹے گی پیاس ، نہ آنے کو دل کرے گا پھر
نہ جانا دریا کنارے ، وہ جل پری ملے گی

نہیں ہے کوئی یہاں خوش نصیب اس جیسا
وصال جس کو مدینے میں نوکری ملے گی

احمد وصال
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی کاوش ہے جناب ۔
لیکن اس غزل میں گرامر اور زبان کی بنیادی اغلاط ہیں ۔ ایسی اغلاط کی نثر اور شاعر ی میں بالکل گنجائش نہیں ۔ ردیف میں مستقبل کا صیغہ ہے اس لئے بقیہ شعر میں بیان اسی کی مطابقت سے ہونا چاہئے جو اکثر اشعار میں نہیں ہے ۔ نیز
- قافیہ بندی کے لئے نہیں کو نہی نہیں بنایا جاسکتا
- واوین کے درمیان کہنے والے کے اصل الفاظ نقل کئے جاتے ہیں ۔ اس شعر کو دوبارہ دیکھئے
- ۔۔۔۔۔۔ منکر تری عطاؤں کا
 

احمد وصال

محفلین
اچھی کاوش ہے جناب ۔
لیکن اس غزل میں گرامر اور زبان کی بنیادی اغلاط ہیں ۔ ایسی اغلاط کی نثر اور شاعر ی میں بالکل گنجائش نہیں ۔ ردیف میں مستقبل کا صیغہ ہے اس لئے بقیہ شعر میں بیان اسی کی مطابقت سے ہونا چاہئے جو اکثر اشعار میں نہیں ہے ۔ نیز
- قافیہ بندی کے لئے نہیں کو نہی نہیں بنایا جاسکتا
- واوین کے درمیان کہنے والے کے اصل الفاظ نقل کئے جاتے ہیں ۔ اس شعر کو دوبارہ دیکھئے
- ۔۔۔۔۔۔ منکر تری عطاؤں کا
بہت نوازش محترم۔۔
ان شاءاللہ کوشش ہوگی کہ ایسی غلطیاں نہ ہوں
 
Top