سید عاصم علی شاہ
محفلین
اسے بھی پڑھیئے۔۔
تحریر: عبداللہ طارق سہیل
خدا کا فضل ہے اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ معلومات اور وہ بھی ’’سچیّ ‘‘ جتنی ہمارے ہاں دستیاب ہیں دنیا کے کسی اور ریاست میں نہیں ہوں گی۔ درجنوں ٹی وی چینل ہیں اور ان پر دن رات معلومات کا بہاؤ بہاتے سینکڑوں اینکر پرسن، دانشور، تجزیہ نگار اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جن کے نام کے شروع میں ریٹائرڈکا لفظ بھی لکھا ہوتا ہے۔ اس سے مراد ان کی سابقہ ذمہ داری سے فراغت ہے نہ کہ عقل سے۔ عقل کے اعتبار سے تو یہ عقل کل ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ نہیں لکھا ہوتا وہ عقل کل نہیں ہوتے۔ سچ پوچھئے تو سے مو خرالذکر ان اول الذکر سے بڑھ کر عقل والے ہیں۔
ان دنوں یمن کا بحران چینلز پر اور ان دانشوروں اینکر پر سنز اور تجز یہ نگاروں کے حواس پر چھایا ہوا ہے۔ درجنوں چینل ہیں اور ایک آدھ کو چھوڑ کرسبھی یمن پر سعودی عرب کی جار حیت کے خلاف مصروف گر یہ وبکا ہیں۔ اور ان میں سے پانچ چھ تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے ، براہ راست جنرل قاسم سلیمانی کے سکرین پلے کے مطابق پلے کر رہے ہیں۔
ٰؓٓؓ پروگرام بہت دلچسپ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک ایک چینل پر روزانہ تین تین بار گریہ و بکا کی محفل سجتی ہے۔ ہر پروگرام کی شروعات اس اصولی موقف سے ہوتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران دونوں دوست ملک ہیں۔ہمیں ایک ملک کی خاطر دوسرے دوست کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس اصولی موقف کے فوراََ بعد عملی موقف شروع ہوجاتا ہے اور پورا ،گھنٹہ اشتہارات کے وقفے کونکال کر سعودی عرب کی وہ دھلائی کی جاتی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔
عملی موقف میں ٹیپ کا بند ’’سعودی جارحیت ‘‘ ہوتی ہے۔ سعودی جارحیت یعنی یمن پر سعودی عرب کا حملہ۔ پاکستان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دو ملکوں کی جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھے۔
بہت اچھی اپیل ہے۔ لیکن کون سے دو ملکوں کی جنگ؟ یمن پر منصور ہادی کی حکومت ہے اور صدر منصور ہادی کی حکومت نے سعودی عرب ہی نہیں، سارے عرب ملکوں سے اپیل کی ہے کی ہے کہ غوثیوں کی بغاوت ختم کرنے میں اسکی مدد کریں۔ یہ دو ملکوں کی جنگ کیسے ہو گئی؟۔
شام پربشارالاسد کی حکومت ہے۔ ملک۸۳ کی فیصد ٓبادی نے اقلیتی حکومت کیخلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ ایران اس بغاوت کو ختم کرنے کیلئے بشارالاسد حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ کیا یہ ایران اور شام کی جنگ ہے۔شام میں تیرہ فیصد الوائیٹ اور دو فیصد عیسائی ہیں۔ ۸۳فیصد سنی آبادی ہے اور پاسداران انقلاب کے دسیوں ہزار فوجی شام میں حکومتی فوج سے مل کر باغیوں کی سر کوبی کر رہے ہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے اسے شام پر ایران کی جارحیت کہا ہو۔
ایسا ہی منظر عراق میں ہے۔ وہاں بھی بغاوت ہے۔ ایک نہیں کئی قسم کی۔ داعش الگ قیامت برپا ہوئے ہے اور رمادی، فلوجہ میں کوئی اور گروہ لڑرہے ہیں۔ ایران نے نہ صرف اپنے جرنیل اور پاسداران ہزاروں کی تعداد میں بھیجے بلکہ اس کے طیاروں نے باغیوں پر بمباری بھی کی۔ کسی نے کہا کہ ایران نے عراق پر حملہ کر دیا؟
ابھی کل ہی ا مریکہ نے تکریت چھڑا کر عراقی حکومت کو دیا ہے ۔ کیا امریکہ نے جار حیت کی؟پاکستان میں طالبان اور فاٹا کی بغاوت پر امریکہ پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ امریکہ کی پاکستان سے جنگ ہورہی ہے؟ یا امریکہ نے پاکستان پر جارحیت کردی؟ بارہ برسوں سے امریکہ پاکستان کی مدد کر رہا ہے یا جارحیت؟
ایران اور سعودی عرب برابر کے دوست ہیں، یہ ایک نیا سچ ہے۔ ایران نے بلوچستان کی سرحد گرم کر رکھی ہے۔ پھر بھی وہ پاکستان کا برابر کا دوست ہے۔ اس کے سفیر نے سابق افسر اور حال تجزیہ نگار ھلالی کو بتایا کہ ہمارے ۷۰ ہزار آدمی ایک ہی کال پر پاکستانی حکومت کیخلاف میدان میں نکل آئیں گے۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں یہ آئے بھی۔ ۷۰ ہزار تو نہیں لیکن کئی ہزار کی گنتی میں ضرور آئے۔ کیا سعودی عرب نے بھی ایسی کو ئیْ ْ۔۔ْْ ’’دوستانہ‘‘ کاروئی کی؟۔ خیر اس سے برابر کا دوست ہونے پر کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ اینکر پرسن ، تجزیہ نگار اور دانشور اس درجے کے سچے ، دیانتدار اور نیکو کار ہیں اور ''امت'' کے اتحاد کا درد ان کے سینوں میں اس طرح موجیں مار رہا ہے کہ ازراہ احترام انہیں آ یت اللہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ۔ یہ محض علامتی خطاب ہے۔ انہیں آپ جانتے ہیں، ہر روز دیکھتے ہیں، دن میں کئی کئی بار سنتے اور سر دھنتے ہیں۔ آیت اللہ مبشر زیدی کا شانی، آیت اللہ اعجازحیدرگورگانی، آیت اللہ حسن عسکری بندر عباسی، آیت اللہ شاہد لطیف نیشا پوری، آیت اللہ طلعت مسعودیزدگردی، آیت اللہ شیخ رشید گل پائیگانی، آیت اللہ ماریہ سلطان برد جروی ، آیت اللہ ایاز میر مشہدی ۔ کتنے نام گنوائے جائیں ایک سے پڑھ کر ایک ملے گا ۔ شام اور عراق میں بغاوت کی بات ہو تو کجری اور یمن میں بغاوت کی بات ہو تو ٹھمری۔ ہر راگ کے راگی ہیں۔اور تان ٹوٹتی ہے کہ سعودی عرب کو ٹھینگا دکھا دیا جاے۔ ضرور دکھا یا جائے لیکن ٹھینگا دکھانے سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ خانے کو اٹھا کر اسے واپس کرنا ہو گا کہ سارے کا سارا تو تقریباََ سعودی پیسے سے ہی بنا تھا ورنہ ہمارے پاس کہاں کے قارون کے خزانے تھے۔ اور صرف ایٹمی پروگرام پر ہی سعودی پیسہ نہیں لگا تھا بلکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگی تھیں تو ان کا تو ڑبھی سعودی عرب نے مفت تیل دے کر کیا تھا۔ اور سعودی عرب شروع ہی سے پاکستا ن کوملین بلین ڈالر دیتا رہا ہے۔ یہ لطیفہ پہلی بار ہوا کہ نواز حکومت کے دور میں جب سعودی عرب نے پاکستان کو بھاری رقم دی تو اربابِ یزدگردنے اودھم مچادیاکہ سعودی عرب نے یہ سب کیوں دیا،دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ اودھم پہلے کبھی نہیں مچا۔ اس بار ہی کیوں مچا۔
شاید ا س لیے کہ پہلے کوئی جنرل قاسم سلیمانی تھا نہ اس کا سکرین پلے اور نہ اربابِ یزدگرد اس طر ح ٹی وی چینلز پر دھونیاں رما کر کبھی بیٹھے تھے۔
تحریر: عبداللہ طارق سہیل
خدا کا فضل ہے اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ معلومات اور وہ بھی ’’سچیّ ‘‘ جتنی ہمارے ہاں دستیاب ہیں دنیا کے کسی اور ریاست میں نہیں ہوں گی۔ درجنوں ٹی وی چینل ہیں اور ان پر دن رات معلومات کا بہاؤ بہاتے سینکڑوں اینکر پرسن، دانشور، تجزیہ نگار اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جن کے نام کے شروع میں ریٹائرڈکا لفظ بھی لکھا ہوتا ہے۔ اس سے مراد ان کی سابقہ ذمہ داری سے فراغت ہے نہ کہ عقل سے۔ عقل کے اعتبار سے تو یہ عقل کل ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جن کے نام کے ساتھ ریٹائرڈ نہیں لکھا ہوتا وہ عقل کل نہیں ہوتے۔ سچ پوچھئے تو سے مو خرالذکر ان اول الذکر سے بڑھ کر عقل والے ہیں۔
ان دنوں یمن کا بحران چینلز پر اور ان دانشوروں اینکر پر سنز اور تجز یہ نگاروں کے حواس پر چھایا ہوا ہے۔ درجنوں چینل ہیں اور ایک آدھ کو چھوڑ کرسبھی یمن پر سعودی عرب کی جار حیت کے خلاف مصروف گر یہ وبکا ہیں۔ اور ان میں سے پانچ چھ تو ایسے ہیں کہ لگتا ہے ، براہ راست جنرل قاسم سلیمانی کے سکرین پلے کے مطابق پلے کر رہے ہیں۔
ٰؓٓؓ پروگرام بہت دلچسپ ہوتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ ایک ایک چینل پر روزانہ تین تین بار گریہ و بکا کی محفل سجتی ہے۔ ہر پروگرام کی شروعات اس اصولی موقف سے ہوتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران دونوں دوست ملک ہیں۔ہمیں ایک ملک کی خاطر دوسرے دوست کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ اس اصولی موقف کے فوراََ بعد عملی موقف شروع ہوجاتا ہے اور پورا ،گھنٹہ اشتہارات کے وقفے کونکال کر سعودی عرب کی وہ دھلائی کی جاتی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔
عملی موقف میں ٹیپ کا بند ’’سعودی جارحیت ‘‘ ہوتی ہے۔ سعودی جارحیت یعنی یمن پر سعودی عرب کا حملہ۔ پاکستان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ دو ملکوں کی جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھے۔
بہت اچھی اپیل ہے۔ لیکن کون سے دو ملکوں کی جنگ؟ یمن پر منصور ہادی کی حکومت ہے اور صدر منصور ہادی کی حکومت نے سعودی عرب ہی نہیں، سارے عرب ملکوں سے اپیل کی ہے کی ہے کہ غوثیوں کی بغاوت ختم کرنے میں اسکی مدد کریں۔ یہ دو ملکوں کی جنگ کیسے ہو گئی؟۔
شام پربشارالاسد کی حکومت ہے۔ ملک۸۳ کی فیصد ٓبادی نے اقلیتی حکومت کیخلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ ایران اس بغاوت کو ختم کرنے کیلئے بشارالاسد حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ کیا یہ ایران اور شام کی جنگ ہے۔شام میں تیرہ فیصد الوائیٹ اور دو فیصد عیسائی ہیں۔ ۸۳فیصد سنی آبادی ہے اور پاسداران انقلاب کے دسیوں ہزار فوجی شام میں حکومتی فوج سے مل کر باغیوں کی سر کوبی کر رہے ہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ کسی نے اسے شام پر ایران کی جارحیت کہا ہو۔
ایسا ہی منظر عراق میں ہے۔ وہاں بھی بغاوت ہے۔ ایک نہیں کئی قسم کی۔ داعش الگ قیامت برپا ہوئے ہے اور رمادی، فلوجہ میں کوئی اور گروہ لڑرہے ہیں۔ ایران نے نہ صرف اپنے جرنیل اور پاسداران ہزاروں کی تعداد میں بھیجے بلکہ اس کے طیاروں نے باغیوں پر بمباری بھی کی۔ کسی نے کہا کہ ایران نے عراق پر حملہ کر دیا؟
ابھی کل ہی ا مریکہ نے تکریت چھڑا کر عراقی حکومت کو دیا ہے ۔ کیا امریکہ نے جار حیت کی؟پاکستان میں طالبان اور فاٹا کی بغاوت پر امریکہ پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ امریکہ کی پاکستان سے جنگ ہورہی ہے؟ یا امریکہ نے پاکستان پر جارحیت کردی؟ بارہ برسوں سے امریکہ پاکستان کی مدد کر رہا ہے یا جارحیت؟
ایران اور سعودی عرب برابر کے دوست ہیں، یہ ایک نیا سچ ہے۔ ایران نے بلوچستان کی سرحد گرم کر رکھی ہے۔ پھر بھی وہ پاکستان کا برابر کا دوست ہے۔ اس کے سفیر نے سابق افسر اور حال تجزیہ نگار ھلالی کو بتایا کہ ہمارے ۷۰ ہزار آدمی ایک ہی کال پر پاکستانی حکومت کیخلاف میدان میں نکل آئیں گے۔ اسلام آباد کے دھرنوں میں یہ آئے بھی۔ ۷۰ ہزار تو نہیں لیکن کئی ہزار کی گنتی میں ضرور آئے۔ کیا سعودی عرب نے بھی ایسی کو ئیْ ْ۔۔ْْ ’’دوستانہ‘‘ کاروئی کی؟۔ خیر اس سے برابر کا دوست ہونے پر کیا فرق پڑتا ہے۔
یہ اینکر پرسن ، تجزیہ نگار اور دانشور اس درجے کے سچے ، دیانتدار اور نیکو کار ہیں اور ''امت'' کے اتحاد کا درد ان کے سینوں میں اس طرح موجیں مار رہا ہے کہ ازراہ احترام انہیں آ یت اللہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں ۔ یہ محض علامتی خطاب ہے۔ انہیں آپ جانتے ہیں، ہر روز دیکھتے ہیں، دن میں کئی کئی بار سنتے اور سر دھنتے ہیں۔ آیت اللہ مبشر زیدی کا شانی، آیت اللہ اعجازحیدرگورگانی، آیت اللہ حسن عسکری بندر عباسی، آیت اللہ شاہد لطیف نیشا پوری، آیت اللہ طلعت مسعودیزدگردی، آیت اللہ شیخ رشید گل پائیگانی، آیت اللہ ماریہ سلطان برد جروی ، آیت اللہ ایاز میر مشہدی ۔ کتنے نام گنوائے جائیں ایک سے پڑھ کر ایک ملے گا ۔ شام اور عراق میں بغاوت کی بات ہو تو کجری اور یمن میں بغاوت کی بات ہو تو ٹھمری۔ ہر راگ کے راگی ہیں۔اور تان ٹوٹتی ہے کہ سعودی عرب کو ٹھینگا دکھا دیا جاے۔ ضرور دکھا یا جائے لیکن ٹھینگا دکھانے سے پہلے پاکستان کے ایٹمی اسلحہ خانے کو اٹھا کر اسے واپس کرنا ہو گا کہ سارے کا سارا تو تقریباََ سعودی پیسے سے ہی بنا تھا ورنہ ہمارے پاس کہاں کے قارون کے خزانے تھے۔ اور صرف ایٹمی پروگرام پر ہی سعودی پیسہ نہیں لگا تھا بلکہ ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگی تھیں تو ان کا تو ڑبھی سعودی عرب نے مفت تیل دے کر کیا تھا۔ اور سعودی عرب شروع ہی سے پاکستا ن کوملین بلین ڈالر دیتا رہا ہے۔ یہ لطیفہ پہلی بار ہوا کہ نواز حکومت کے دور میں جب سعودی عرب نے پاکستان کو بھاری رقم دی تو اربابِ یزدگردنے اودھم مچادیاکہ سعودی عرب نے یہ سب کیوں دیا،دال میں کچھ کالا ہے۔ یہ اودھم پہلے کبھی نہیں مچا۔ اس بار ہی کیوں مچا۔
شاید ا س لیے کہ پہلے کوئی جنرل قاسم سلیمانی تھا نہ اس کا سکرین پلے اور نہ اربابِ یزدگرد اس طر ح ٹی وی چینلز پر دھونیاں رما کر کبھی بیٹھے تھے۔