سید شہزاد ناصر
محفلین
اس تیرے سر کی قسم فرق سرِ مو بھی نہیں
جس قدر ہم ہیں پریشاں ترے گیسو بھی نہیں
موت نے کتنا کج اخلاق بنایا ہے مجھے
لوگ روتے ہیں مری آنکھ میں آنسو بھی نہیں
رات بھر جلنا ہے آ جا ادھر اے پروانے
قابلِ رحم یہاں میں بھی نہیں، تو بھی نہیں
اب تو دامن پہ لہو ہے، کہو کیا کہتے ہو
اب تو انکارِ ستم کا کوئی پہلو بھی نہیں
جا تجھے ہم نے بس اے عمرِ رواں دیکھ لیا
ہم تجھے اپنا سمجھتے تھے مگر تو بھی نہیں
میری میت پہ یہ اظہارِ الم رہنے دے
رونے والے تری آنکھوں میں تو آنسو بھی نہیں
دلِ مایوس میں احساسِ خودی تک نہ رہا
ایسا مرجھا گیا یہ پھول کہ خوشبو بھی نہیں
سوچتا ہوں یہ کہ دنیا میں اندھیرا کیوں ہے
تیرے چہرے پہ تو بکھرے ہوئے گیسو بھی نہیں
کتنا ہمدرد ہے ہمدردیِ رہبر دیکھو
کارواں لٹ گیا اور آنکھ میں آنسو بھی نہیں
اے قمرؔ شب کے اندھیرے میں لحد ہے میری
شمعِ تربت تو بڑی چیز ہے جگنو بھی نہیں