کاشفی
محفلین
اس حلوہ گیری میں عزت اکابر بھی گئی – قمرعباس اعوان
27 فروری بروز اتوار کو ممتاز قادری کے وقت سے پہلے چالیسویں سے شروع ہونے والا کھیل آخر اپنے اختتام کو جا پہنچا۔ اور وہ مولوی حضرات جو وہاں سٹیج پر گرج رہے تھے بن برسے ہی ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں کو سدھارے۔ اور ان مولویوں میں بہت سے بڑے بڑے نام جو جنازے میں موجود تھے وہ اس احتجاج میں نظر ہی نہیں آئے۔ یہ مولوی جنازے والے دن بھی یہی کام کرنا چاہتے تھے لیکن ممتاز قادری کے والد صاحب راضی نہیں ہوئے اور یوں تب یہ معاملہ رک گیا۔ لیکن کچھ مولویوں کو یہ بات ہضم نہ ہو سکی۔ اور یوں ان کی یہ حسرت تب پوری ہو گئی جب پھانسی کے 27 دن بعد ہی چالیسواں رکھا گیا اور چالیسویں کے فوراََ بعد یہ لوگ ریڈ زون کی طرف چل پڑے۔ اس کے بعد عوام کو ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ دیکھنے کو ملتا گیا۔کبھی لاہور کے مال روڈ پر اسمبلی کے سامنے مولوی صاحب نوازشریف کو گالیاں دیتے نظر آئے اور کبھی کہیں کسی اور ویڈیو میں نواز شریف کی بیٹی پر وہ ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیے کہ الامان۔ کبھی اسلام آباد کی سڑکوں پر نواز شریف کے خاندان کو گالیاں تو کبھی کنٹینرز پر مغلظات نظر آئیں۔ ایک ویڈیو کے بعد دوسری اور پھر تیسری اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ ہر ویڈیو میں ایک سے بڑھ کر ایک غلیظ باتیں۔ اور افسوس کا مقام یہ تھا کہ گالیوں کے ساتھ ساتھ ایسے سبحان اللہ ماشاء اللہ کا ورد کر رہے تھے جیسے کوئی بہت نیک کام سرانجام دینے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ چھوٹے چھوٹے مولوی ہیں ان کو چھوڑو دھیان ان کی طرف دو جو اسلام آباد میں مطالبات منوانے بیٹھے ہیں۔ لیکن کیا کہنے ان کے بھی۔ وہ مرتبے میں ان سے بڑے تھے تو گالیوں میں بھی بڑھ کر نکلے ۔ میڈیا کے نمائندے کو گالیاں اور وہ طوفان بدتمیزی کہ کیا کہنے۔ اب سے ایک سال پہلے عمران خان پر اوئے نواز اوئے شہباز اور اوئے فلاں کہہ کر بلانے پر بہت تنقید ہوئی ۔ عمران خان نے ایسے الفاظ استعمال کر کے بلاشبہ ایک غلط روایت ڈالی ۔ ان کے متوازی دوسری طرف ایک مذہبی جماعت کے کارکن ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں دھرنا دیے بیٹھے تھے وہاں پر ماحول دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ سلجھے ہوئے تمیزدار لوگ ہیں۔نہ کسی کو برا بھلا کہا جا رہا تھا نہ کسی کو گالی دی جا رہی تھی۔مجمع بھی ایک نظم وضبط کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ وہ تربیت نظر آرہی تھی جو ایک مذہبی جماعت کے کارکن کی ہونی چاہیے ۔ لیکن اس مذہبی ہجوم میں کسی کی ایسی تربیت دور دور تک نظروں سے اوجھل رہی۔مطالبات دیکھے تو یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ اب اس ہلڑ بازی کی آڑ میں اپنا آپ بچانا چاہتے ہیں۔ تاکہ اپنے جو لوگ فورتھ شیڈول میں ہیں ان کو نکالنے کی کوئی سبیل کی جائے۔ باقی ایک دو مطالبات وہی پرانے جن کے مطالبے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ آخر انتظار کرتے کرتے وہ لمحہ بھی آ ہی گیا جب انتظامیہ نے بار بار کے الٹی میٹم کے بعد مذاکرات کر ہی لیے۔ان مذاکرات کے بعد کاغذ کا وہ ٹکڑا منظر عام پر آیا جس پر مذاکرات کے نکات درج تھے۔ پڑھتے ہی سمجھ آ گئی کہ حکومت نے ان کو لولی پاپ دے دیا ہے کہ چوستے رہیں۔ ان کے مذاکرات والوں نے بھی اس کو غنیمت سمجھا کہ چلو عزت بچانے کا کوئی تو موقع ہاتھ آگیا ہے اس لیے نکل لو اس بے عزتی کے دلدل سے۔ سات کے سات نکات جن پر مذاکرات ہوئے ان میں اس ممتاز قادری کے بارے میں ایک لفظ نہیں تھا جس کی آڑ لے کر ان لوگوں نے چار دن تک اسلام آباد کا ریڈ زون کھیل کا میدان بنائے رکھا ۔ بس بچایا تو اپنے پیٹی بند بھائیوں کو کہ ان کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کے لیے نظرثانی کی جائے۔ باقی چھ نکات بھی رسمی سے ہی نکلے۔ نفاذِشریعت کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا بھی ایک نکتہ رکھا گیا۔ اس کاغذ کے ٹکڑے کو مذاکراتی ٹیم کا معاہدہ ہونے کا رنگ دیا گیا جس میں بھنگ چوہدری نثار صاحب نے ذمہ واری سے یہ بیان دے کر ڈال دی کہ مظاہرین سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ جس نے اس بات کو مزید تقویت دے دی کہ حکومت کے طرف سے دیے گئے لولی پاپ کی آڑ میں یہ لوگ عزت بچا کر نکلے ہیں۔ لیکن ٹھہریے عوام میں ان کی عزت بچ نہیںٍ سکی۔ کیونکہ سوشل میڈیا کی وساطت سے ان کی جو حرکات پاکستانی عوام نے دیکھی ہیں اس نے ان کی عزت کے پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔ اور ان کی اخلاقیات کی ہنڈیا بیچ سوشل میڈیا پھوڑ کر رکھ دی ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اپنے اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرتے الٹا ان لوگوں نے عوام کو خود سے بدظن کیا۔ ان لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی آڑ میں اخلاقیات کا جو مظاہرہ کیا شریف انسان اس کو سن کر ویسے ہی غش کھا جائے ۔ اور کوئی بھی شریف پردہ دار وہ الفاظ اور وہ باتیں سن کر شرم سے ہی مر جائے۔ بالآخر چار دن کے فلاپ شو کے بعد ایک محفوظ راستے کے علاوہ ایک بڑے پیمانے پر بدنامی سیمیٹ کر دھرنا لپیٹ کر مولوی صاحبان گھر کو سدھار گئے۔
27 فروری بروز اتوار کو ممتاز قادری کے وقت سے پہلے چالیسویں سے شروع ہونے والا کھیل آخر اپنے اختتام کو جا پہنچا۔ اور وہ مولوی حضرات جو وہاں سٹیج پر گرج رہے تھے بن برسے ہی ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں کو سدھارے۔ اور ان مولویوں میں بہت سے بڑے بڑے نام جو جنازے میں موجود تھے وہ اس احتجاج میں نظر ہی نہیں آئے۔ یہ مولوی جنازے والے دن بھی یہی کام کرنا چاہتے تھے لیکن ممتاز قادری کے والد صاحب راضی نہیں ہوئے اور یوں تب یہ معاملہ رک گیا۔ لیکن کچھ مولویوں کو یہ بات ہضم نہ ہو سکی۔ اور یوں ان کی یہ حسرت تب پوری ہو گئی جب پھانسی کے 27 دن بعد ہی چالیسواں رکھا گیا اور چالیسویں کے فوراََ بعد یہ لوگ ریڈ زون کی طرف چل پڑے۔ اس کے بعد عوام کو ایک سے بڑھ کر ایک ڈرامہ دیکھنے کو ملتا گیا۔کبھی لاہور کے مال روڈ پر اسمبلی کے سامنے مولوی صاحب نوازشریف کو گالیاں دیتے نظر آئے اور کبھی کہیں کسی اور ویڈیو میں نواز شریف کی بیٹی پر وہ ہرزہ سرائی کرتے دکھائی دیے کہ الامان۔ کبھی اسلام آباد کی سڑکوں پر نواز شریف کے خاندان کو گالیاں تو کبھی کنٹینرز پر مغلظات نظر آئیں۔ ایک ویڈیو کے بعد دوسری اور پھر تیسری اور پھر سلسلہ چل نکلا۔ ہر ویڈیو میں ایک سے بڑھ کر ایک غلیظ باتیں۔ اور افسوس کا مقام یہ تھا کہ گالیوں کے ساتھ ساتھ ایسے سبحان اللہ ماشاء اللہ کا ورد کر رہے تھے جیسے کوئی بہت نیک کام سرانجام دینے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ یہ چھوٹے چھوٹے مولوی ہیں ان کو چھوڑو دھیان ان کی طرف دو جو اسلام آباد میں مطالبات منوانے بیٹھے ہیں۔ لیکن کیا کہنے ان کے بھی۔ وہ مرتبے میں ان سے بڑے تھے تو گالیوں میں بھی بڑھ کر نکلے ۔ میڈیا کے نمائندے کو گالیاں اور وہ طوفان بدتمیزی کہ کیا کہنے۔ اب سے ایک سال پہلے عمران خان پر اوئے نواز اوئے شہباز اور اوئے فلاں کہہ کر بلانے پر بہت تنقید ہوئی ۔ عمران خان نے ایسے الفاظ استعمال کر کے بلاشبہ ایک غلط روایت ڈالی ۔ ان کے متوازی دوسری طرف ایک مذہبی جماعت کے کارکن ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں دھرنا دیے بیٹھے تھے وہاں پر ماحول دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ سلجھے ہوئے تمیزدار لوگ ہیں۔نہ کسی کو برا بھلا کہا جا رہا تھا نہ کسی کو گالی دی جا رہی تھی۔مجمع بھی ایک نظم وضبط کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ وہ تربیت نظر آرہی تھی جو ایک مذہبی جماعت کے کارکن کی ہونی چاہیے ۔ لیکن اس مذہبی ہجوم میں کسی کی ایسی تربیت دور دور تک نظروں سے اوجھل رہی۔مطالبات دیکھے تو یوں محسوس ہوا کہ یہ لوگ اب اس ہلڑ بازی کی آڑ میں اپنا آپ بچانا چاہتے ہیں۔ تاکہ اپنے جو لوگ فورتھ شیڈول میں ہیں ان کو نکالنے کی کوئی سبیل کی جائے۔ باقی ایک دو مطالبات وہی پرانے جن کے مطالبے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ آخر انتظار کرتے کرتے وہ لمحہ بھی آ ہی گیا جب انتظامیہ نے بار بار کے الٹی میٹم کے بعد مذاکرات کر ہی لیے۔ان مذاکرات کے بعد کاغذ کا وہ ٹکڑا منظر عام پر آیا جس پر مذاکرات کے نکات درج تھے۔ پڑھتے ہی سمجھ آ گئی کہ حکومت نے ان کو لولی پاپ دے دیا ہے کہ چوستے رہیں۔ ان کے مذاکرات والوں نے بھی اس کو غنیمت سمجھا کہ چلو عزت بچانے کا کوئی تو موقع ہاتھ آگیا ہے اس لیے نکل لو اس بے عزتی کے دلدل سے۔ سات کے سات نکات جن پر مذاکرات ہوئے ان میں اس ممتاز قادری کے بارے میں ایک لفظ نہیں تھا جس کی آڑ لے کر ان لوگوں نے چار دن تک اسلام آباد کا ریڈ زون کھیل کا میدان بنائے رکھا ۔ بس بچایا تو اپنے پیٹی بند بھائیوں کو کہ ان کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کے لیے نظرثانی کی جائے۔ باقی چھ نکات بھی رسمی سے ہی نکلے۔ نفاذِشریعت کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا بھی ایک نکتہ رکھا گیا۔ اس کاغذ کے ٹکڑے کو مذاکراتی ٹیم کا معاہدہ ہونے کا رنگ دیا گیا جس میں بھنگ چوہدری نثار صاحب نے ذمہ واری سے یہ بیان دے کر ڈال دی کہ مظاہرین سے کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔ جس نے اس بات کو مزید تقویت دے دی کہ حکومت کے طرف سے دیے گئے لولی پاپ کی آڑ میں یہ لوگ عزت بچا کر نکلے ہیں۔ لیکن ٹھہریے عوام میں ان کی عزت بچ نہیںٍ سکی۔ کیونکہ سوشل میڈیا کی وساطت سے ان کی جو حرکات پاکستانی عوام نے دیکھی ہیں اس نے ان کی عزت کے پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔ اور ان کی اخلاقیات کی ہنڈیا بیچ سوشل میڈیا پھوڑ کر رکھ دی ہیں۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ اپنے اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرتے الٹا ان لوگوں نے عوام کو خود سے بدظن کیا۔ ان لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی آڑ میں اخلاقیات کا جو مظاہرہ کیا شریف انسان اس کو سن کر ویسے ہی غش کھا جائے ۔ اور کوئی بھی شریف پردہ دار وہ الفاظ اور وہ باتیں سن کر شرم سے ہی مر جائے۔ بالآخر چار دن کے فلاپ شو کے بعد ایک محفوظ راستے کے علاوہ ایک بڑے پیمانے پر بدنامی سیمیٹ کر دھرنا لپیٹ کر مولوی صاحبان گھر کو سدھار گئے۔