غازی عثمان
محفلین
علی الصباح ( خلاف معمول ) جاگ گیا تھا۔ نہا دھو کر تیار ہوا میرا پروگرام ائرپورٹ پر چیف جسٹس آف پاکستان کا استقبال کرنے کا تھا ( رات ہی دوستوں کے ساتھ پروگرام بنا تھا ) میری والدہ میرے خلاف معمول جاگ جانے کا مقصد جان گئی تھیں اس لئے میرے جوتے پہن نے کے ساتھ ہی سوال داغ دیا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے ان کو کہا کہ میں آفس جارہا ہوں ( اور دل میں سوچنے لگا کہ اب آفس جاکر واپس آنا پڑے گا کیونکہ جھوٹ تو نہ بول سکتا تھا۔۔) مگر وہ بھی میری والدہ ہیں انہوں نے کہا کہ جھوٹ بول کر کیوں جارہے ہو جہاں جارہے ہو جاؤ مگر اپنا خیال رکھنا اس میں نے شکر ادا کیا کہ چلو اجازت تو ملی،، میں موبائل فون استعمال نہیں کرتا مگر اس دن میں نے والدہ کا موبائل لے لیا تھا میں گھر سے نکل کر میں نے دیکھا کے ہڑتال کا سماں ہے علاوہ اخبار والے کے کوئی دکان نہیں کھلی ہے مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوی کیونکہ میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اب میں اپنے دوست کے ہاں پہنچا ان کہ ابونے فورا مجھے گھر کے اندر بلالیا اوردوست کو اٹھادیا ان کا پورا خاندان کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں رہائش پزیر ہے انہوں کہا کے حالات خراب ہیں ہیں اور سنی تحریک کے ایک لیڈر کو لانڈھی میں قتل کر دیا گیا ہے ،،، اور ماڈل کالونی میںمسلم لیگ نواز کے رہنما کو بھی قتل کردیا گیا۔ انہوںنے محتاط رہنے کا مشورہ دیا اور میںاور میرا دوست پچھلے راستے سے وائرلیس گیٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ مین روڈکی بجائے چھوٹی چھوٹی گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم شمسی مسجد وائرلیس گیٹ پہنچے تو وہاںدوسرا ہی منظر تھا۔
۔ بڑی تعداد میں MQM کے اندرون سندھ کے “کارکنان“ بہت سی بسوں میں ائیر پورٹ کا محاصرہ کرے بیٹھے تھے۔
ساڑھے گیارہ بجے ہم شمسی سوسائٹی سے ملیر کورٹ کیلئے نکلے کیونکہ ائیر پورٹ پر تو مسلحہ قبضہ ہوچکا تھا۔ وارئر لیس گیٹ سے اندرونی سڑک پر گزرتے ہوئے میں نے سوچا کہ ملیر ہالٹ سے اگر صحیح سلامت گزر گئے تو بعد میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ملیر ہالٹ سے گزرنے کے بعد ہمارے دو ساتھی جو رفاہ عام سیکٹر کے سامنے سے آرہے تھے انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں نے آپ کی ریلی دیکھتے ہی کلاشنکوفیں لوڈ کرلی تھی، لیکن فائر نہیں کیا۔ یہ سن کہ ہم بہت خوش ہوئے کہ ان کی اتنی بھی ہمت نہیں کہ گولی چلا سکیں۔
کالا بورڈ پر ہم نے ملیر کورٹ سے آنے والی ایک بہت بڑی ریلی دیکھی جو چیف جسٹس کے استقبال کیلئے جارہی تھی جس میں جیو ٹی وی کے مطابق پچاس ہزار افراد تھے، ہماری ریلی بھی کورٹ جانے کے بجائے ائیر پورٹ جانے والی اس ریلی میں شامل ہوگئی۔ یعنی ہم واپس ملیر ہالٹ جارہے تھے یعنی ڈینجر زون میں ۔
کالابورڈ سے کچھ آگے ڈومینو کے سامنے پہنچتے ہی مجھے پہلے فائر کی آواز سنائی دی۔ پھر دوسرا اور پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ لگاتار فائرنگ۔
کچھ لوگ ریلوے لائین کراس کرکے رفاہ عام کی طرف بھاگنے لگے۔ لیکن میں نے طے کرلیا تھا کہ میں رفاہ عام نہیں جاؤں گا۔ اور بعد میں صحیح بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ ریلوے لائن کراس کرنے والے اکثر افراد قریبی بلڈنگز سے ہونے والی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ میرے سامنے تین افراد کو گولی لگی جس میں ایک بلوچ خاتون بھی تھیں۔ لیکن میں شاہراہ فیصل پر ہی گاڑیوں کی آڑ لیکر چلتا رہا۔ اور ملیر ہالٹ پھاٹک تک پہنچ گیا۔
اسوقت تک کئی سو راؤنڈ فائر ہوچکے تھے۔ جلوس کے اگلے حصے کے کئی افراد شہید ہوچکے تھے۔ ملیر ہالٹ پر فائرنگ شدید ہونا شروع ہوگئی اور فائرنگ میں نیا عنصر یعنی جی تھری گنیں بھی شامل ہوگئیں۔ جوکہ فوج اور رینجرز کی جنگی گنیں ہیں اور عام دستیاب نہیں ہوتیں۔
ملیر ہالٹ اسٹیٹ لائف بلڈنگ پر قائم رینجرز کی چوکی سے بھائی لوگوں کی فائرنگ دیکھ کر میں ایک ٹرک میں چڑھ گیا جو خالی تھا لیکن وہ تھوڑی دیر میں رک گیا اور میں بھاگ کے اے این پی کے ایک ٹرک میں چڑھ گیا جس میں کئی افراد سوار تھے۔ شدید فائرنگ کے درمیان یہ ٹرک رینجرز ہیڈ کوارٹر ملیر ہالٹ کے سامنے رک گیا جہاں سے MQM کے کارکنان فائرنگ کررہے تھے۔ میں واپس ملیر ہالٹ کی طرف بھاگا لیکن درمیان میں مجھے ایک جائے پناہ نظر آئی یہ ملیر ہالٹ پہ لکڑی کی بنی ہوئی فروٹ شاپس تھیں۔ میرے یہاں چھپتے ہی والدہ کی کال موصول ہوئی، وہ شدید فکر مند تھیں۔
میں نے اپنے دوست سے موبائل پہ رابطہ کرکے ان کی لوکیشن دریافت کی وہ روڈ کی دوسری جانب ملیر ہالٹ ریلوے لائین پر بے بسی کی کیفیت میں دیگر لوگوں کیساتھ موجود تھے اور فائرنگ انہیں پر ہورہی تھی۔ کبھی وہ گاڑی کی آڑ لیتے اور کبھی زمین پر لیٹ کر گولیوں سے بچنے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے میرے عزیز دوست شجاع الرحمٰن کی شہادت کی اطلاع دی۔
چار گھنٹے تک وہ براہ راست فائرنگ کی زد میں رہے ان میں سے کئی لوگ زخمی اور کئی شہید ہوئے ان پر گرنیڈ لانچر سے گرنیڈ تھرو کئے گئے جس سے ایک اور دوست شدید زخمی ہوگئے اور گرنیڈ کے پارچے ان کے آر پار ہوگئے۔ جو زندہ تھے وہ کسی گولی کے منتظر تھے کہ اب لگی کہ اب۔
اس کال کے بعد دوبارہ اپنے دوست سے رابطہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ آیا وہ اب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار گھنٹے بعد جب فائرنگ رکی تو میرے بھائی نے مجھے فون کرکے کہا کہ ابھی رفاہ عام میں نہیں آنا کیوں کہ یہاں MQM کے کارکنان بڑی تعداد میں اسلحہ لئے موجود ہیں اور اس کے سامنے ہی ملیر ہالٹ سے آنے والے دو افراد کو گولی ماردی گئی۔
میں جہاں چھپا تھا وہاں سے ساڑھے پانچ بجے ایک رشتہ دار کے گھر پہنچا۔ یوں یہ داستان لکھنے کیلئے زندہ رہ گیا۔
۔ بڑی تعداد میں MQM کے اندرون سندھ کے “کارکنان“ بہت سی بسوں میں ائیر پورٹ کا محاصرہ کرے بیٹھے تھے۔
ساڑھے گیارہ بجے ہم شمسی سوسائٹی سے ملیر کورٹ کیلئے نکلے کیونکہ ائیر پورٹ پر تو مسلحہ قبضہ ہوچکا تھا۔ وارئر لیس گیٹ سے اندرونی سڑک پر گزرتے ہوئے میں نے سوچا کہ ملیر ہالٹ سے اگر صحیح سلامت گزر گئے تو بعد میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ملیر ہالٹ سے گزرنے کے بعد ہمارے دو ساتھی جو رفاہ عام سیکٹر کے سامنے سے آرہے تھے انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں نے آپ کی ریلی دیکھتے ہی کلاشنکوفیں لوڈ کرلی تھی، لیکن فائر نہیں کیا۔ یہ سن کہ ہم بہت خوش ہوئے کہ ان کی اتنی بھی ہمت نہیں کہ گولی چلا سکیں۔
کالا بورڈ پر ہم نے ملیر کورٹ سے آنے والی ایک بہت بڑی ریلی دیکھی جو چیف جسٹس کے استقبال کیلئے جارہی تھی جس میں جیو ٹی وی کے مطابق پچاس ہزار افراد تھے، ہماری ریلی بھی کورٹ جانے کے بجائے ائیر پورٹ جانے والی اس ریلی میں شامل ہوگئی۔ یعنی ہم واپس ملیر ہالٹ جارہے تھے یعنی ڈینجر زون میں ۔
کالابورڈ سے کچھ آگے ڈومینو کے سامنے پہنچتے ہی مجھے پہلے فائر کی آواز سنائی دی۔ پھر دوسرا اور پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ لگاتار فائرنگ۔
کچھ لوگ ریلوے لائین کراس کرکے رفاہ عام کی طرف بھاگنے لگے۔ لیکن میں نے طے کرلیا تھا کہ میں رفاہ عام نہیں جاؤں گا۔ اور بعد میں صحیح بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ ریلوے لائن کراس کرنے والے اکثر افراد قریبی بلڈنگز سے ہونے والی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ میرے سامنے تین افراد کو گولی لگی جس میں ایک بلوچ خاتون بھی تھیں۔ لیکن میں شاہراہ فیصل پر ہی گاڑیوں کی آڑ لیکر چلتا رہا۔ اور ملیر ہالٹ پھاٹک تک پہنچ گیا۔
اسوقت تک کئی سو راؤنڈ فائر ہوچکے تھے۔ جلوس کے اگلے حصے کے کئی افراد شہید ہوچکے تھے۔ ملیر ہالٹ پر فائرنگ شدید ہونا شروع ہوگئی اور فائرنگ میں نیا عنصر یعنی جی تھری گنیں بھی شامل ہوگئیں۔ جوکہ فوج اور رینجرز کی جنگی گنیں ہیں اور عام دستیاب نہیں ہوتیں۔
ملیر ہالٹ اسٹیٹ لائف بلڈنگ پر قائم رینجرز کی چوکی سے بھائی لوگوں کی فائرنگ دیکھ کر میں ایک ٹرک میں چڑھ گیا جو خالی تھا لیکن وہ تھوڑی دیر میں رک گیا اور میں بھاگ کے اے این پی کے ایک ٹرک میں چڑھ گیا جس میں کئی افراد سوار تھے۔ شدید فائرنگ کے درمیان یہ ٹرک رینجرز ہیڈ کوارٹر ملیر ہالٹ کے سامنے رک گیا جہاں سے MQM کے کارکنان فائرنگ کررہے تھے۔ میں واپس ملیر ہالٹ کی طرف بھاگا لیکن درمیان میں مجھے ایک جائے پناہ نظر آئی یہ ملیر ہالٹ پہ لکڑی کی بنی ہوئی فروٹ شاپس تھیں۔ میرے یہاں چھپتے ہی والدہ کی کال موصول ہوئی، وہ شدید فکر مند تھیں۔
میں نے اپنے دوست سے موبائل پہ رابطہ کرکے ان کی لوکیشن دریافت کی وہ روڈ کی دوسری جانب ملیر ہالٹ ریلوے لائین پر بے بسی کی کیفیت میں دیگر لوگوں کیساتھ موجود تھے اور فائرنگ انہیں پر ہورہی تھی۔ کبھی وہ گاڑی کی آڑ لیتے اور کبھی زمین پر لیٹ کر گولیوں سے بچنے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے میرے عزیز دوست شجاع الرحمٰن کی شہادت کی اطلاع دی۔
چار گھنٹے تک وہ براہ راست فائرنگ کی زد میں رہے ان میں سے کئی لوگ زخمی اور کئی شہید ہوئے ان پر گرنیڈ لانچر سے گرنیڈ تھرو کئے گئے جس سے ایک اور دوست شدید زخمی ہوگئے اور گرنیڈ کے پارچے ان کے آر پار ہوگئے۔ جو زندہ تھے وہ کسی گولی کے منتظر تھے کہ اب لگی کہ اب۔
اس کال کے بعد دوبارہ اپنے دوست سے رابطہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی کہ آیا وہ اب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار گھنٹے بعد جب فائرنگ رکی تو میرے بھائی نے مجھے فون کرکے کہا کہ ابھی رفاہ عام میں نہیں آنا کیوں کہ یہاں MQM کے کارکنان بڑی تعداد میں اسلحہ لئے موجود ہیں اور اس کے سامنے ہی ملیر ہالٹ سے آنے والے دو افراد کو گولی ماردی گئی۔
میں جہاں چھپا تھا وہاں سے ساڑھے پانچ بجے ایک رشتہ دار کے گھر پہنچا۔ یوں یہ داستان لکھنے کیلئے زندہ رہ گیا۔