غالبا شاعر نے ان اصلاحات کے الفاظ شعر میں صرف نمکینی لانے کے لیے ذکر کیے ہیں، اصل اصطلاحی معنی مراد نہیں۔شاعر کی بات تو شعرا ہی بتائیں گے۔ البتہ اس میں استعمال شدہ اصطلاحات کی وضاحت کردیتا ہوں۔
عکس مستوی اور عکس نقیض در اصل فن منطق کی مشہور اصطلاحات ہیں۔
عکس مستوی یہ ہے کہ کسی بات کی ترتیب کو اس طرح الٹا جائے کہ اس کے سچ یا جھوٹ ہونے میں فرق نہ آئے۔ اگر پہلے سچا تھا تو اب بھی سچا رہے اور پہلے جھوٹا تھا تو اب بھی جھوٹا۔ (مستوی کے معنی ہیں "سیدھا")
مثلا اگر یوں کہا جائے کہ "ہر انسان جاندار ہے" تو اس کا عکس نقیض بنانے کے لیے اس کو الٹا کر "جاندار" پہلے لائیں گے اور "انسان" کو بعد میں کر دیں گے۔ اور عکس نقیض یوں ہوگا: "بعض جاندار انسان ہیں"
عکس نقیض کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں دہرا کام ہوتا ہے۔ جملے کے ہر جزو کی پہلے نقیض (ضد) لاتے ہیں اور پھر عکس مستوی کی طرح پہلے حصے کو دوسرا اور دوسرے کو پہلا کر دیتے ہیں۔ مثلا اگر جملہ ہو: "ہر انسان جاندار ہے" تو اس کا عکس نقیض یوں ہوگا: "ہر غیر جاندار غیر انسان ہے"
اب دیکھ لیں کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے
اس شعر میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ ہماری ذات بیک وقت کئی پہلو رکھتی ہے. بعض ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور بعض متضاد ہیں.عکس نقیض ذات میں بن تو گیا مگر
ہم عکس مستوی سے جگر دیکھتے رہے
شاعر کی بات تو شعرا ہی بتائیں گے۔ البتہ اس میں استعمال شدہ اصطلاحات کی وضاحت کردیتا ہوں۔
عکس مستوی اور عکس نقیض در اصل فن منطق کی مشہور اصطلاحات ہیں۔
اس شعر میں شاعر کہنا چاہتا ہے کہ ہماری ذات بیک وقت کئی پہلو رکھتی ہے. بعض ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور بعض متضاد ہیں.
یہ اس طرح ہوا کہ جب ان کو وجود بخشا گیا تو ان میں روح کسی اور کی ڈال دی گئی. اب جب روح کے زاویے سے اپنا مشاہدہ کرتا ہے تو عکس نقیض نظر آتا ہے اور جب اپنا جسم و جگر دیکھتا ہے تو عکس مستوی
یہ روح و جسم کا کھیل اس کی پوری زندگی پر محیط ہے. اس کی طبیعت عبادت پر مائل نہیں پھر بھی نماز پڑھتا ہے. وغیرہ وغیرہ