کاشفی
محفلین
غزل
(دواکر راہی)
اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے
ہر ہاتھ میں دولت ہے، ہر آنکھ سوالی ہے
شاید غمِ دوراں کا مارا کوئی آجائے
اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے
ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن
ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے
اُس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤ گے
جو آنکھ پسِ پردہ بھی دیکھنے والی ہے
جب غور سے دیکھی ہے تصویر تری میں نے
محسوس ہوا جیسے اب بولنے والی ہے
دنیا جسے کہتی ہے بے راہروی راہی
جینے کے لیے ہم نے وہ راہ نکالی ہے
(دواکر راہی)
اس شہرِ نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے
ہر ہاتھ میں دولت ہے، ہر آنکھ سوالی ہے
شاید غمِ دوراں کا مارا کوئی آجائے
اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے
ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن
ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے
اُس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤ گے
جو آنکھ پسِ پردہ بھی دیکھنے والی ہے
جب غور سے دیکھی ہے تصویر تری میں نے
محسوس ہوا جیسے اب بولنے والی ہے
دنیا جسے کہتی ہے بے راہروی راہی
جینے کے لیے ہم نے وہ راہ نکالی ہے