زبیر مرزا
محفلین
اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی
تنہا تھے مگر خود سے تو وحشت نہ ہُوئی تھی
یہ دن ہیں کی یاروں کا بھروسا بھی نہیں ہے
وہ دن تھے کہ دُشمن سے بھی نفرت نہ ہُوئی تھی
اب سانس کا احساس بھی اِک بارِ گراں ہے
خود اپنے خلاف ایسی بغاوت نہ ہُوئی تھی
اُجڑے ہُوئے اس دِل کے ہر اِک زخم سے پوچھو
اِس شہر میں کس کس سے محبت نہ ہُوئی تھی؟
اب تیرے قریب آ کے بھی کچھ سوچ رہا ہُوں
پہلے تجھے کھو کر بھی ندامت نہ ہُوئی تھی
ہر شام اُبھرتا تھا اِسی طور سے مہتاب
لیکن دِل وحشی کی یہ حالت نہ ہُوئی تھی
خوابوں کی ہَوا راس تھی جب تک مجھے محسن
یوں جاگتے رہنا میری عادت نہ ہُوئی تھی
محسن نقوی