یہ اول مصرع کے دو حصوں اور دوسرے مصرع کے پہلے حصے کا اختتام ہم قافیہ الفاظ پر کرنا کونسی صنعت ہے؟
اِس صنعت کا نام تو نہیں معلوم، لیکن اِس طرح کے قافیوں کے لیے 'قافیۂ میانی' کی اصطلاح نظر آئی ہے۔
یہ صنعت تُرکی غزلوں میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ مثلاً:اللہ ہی جانے لیکن استعمال سبھی کرتے ہیں
ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل ہی کے خواب بُن
زبردست!! کیا بات ہے!!شب تا سحر مینغْنوم، واندرزِ کس مینشْنوم
وین ره نه قاصد میروم، کز کف عِنانم میرود
(سعدی شیرازی)
میں شب سے سَحَر تک نہیں سوتا اور کسی کی نصیحت نہیں سنتا؛ اور یہ راہ مَیں قصداً نہیں چل رہا، بلکہ میرے کف سے لگام جا رہی ہے۔ (یعنی میں اپنے دست سے اختیار گنوا چکا ہوں اور بے اختیار راہ طے کر رہا ہوں۔)
حسان خان سر بہت بہت بہت شکریہدر رفتنِ جان از بدن گویند هر نوعی سخن
من خود به چشمِ خویشتن دیدم که جانم میرود
(سعدی شیرازی)
بدن سے جان کے نکلنے کے بارے میں طرح طرح کے سُخن کہے جاتے ہیں، [لیکن] میں نے خود اپنی چشم سے اپنی جان کو جاتے دیکھا ہے۔
× مصرعِ دوم میں 'جان' استعارتاً معشوق کے لیے استعمال ہوا ہے۔
یہ اول مصرع کے دو حصوں اور دوسرے مصرع کے پہلے حصے کا اختتام ہم قافیہ الفاظ پر کرنا کونسی صنعت ہے؟
اِس صنعت کا نام تو نہیں معلوم، لیکن اِس طرح کے قافیوں کے لیے 'قافیۂ میانی' کی اصطلاح نظر آئی ہے۔
اللہ ہی جانے لیکن استعمال سبھی کرتے ہیں
ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل ہی کے خواب بُن
فارسی میں اِس صنعت کو 'تسمیط' کہتے ہیں۔ نیز، اِس قسم کے شعروں کے لیے 'شعرِ مُسجّع' بھی نظر آیا ہے۔یہ صنعت تُرکی غزلوں میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ مثلاً:
شبِ هجران یانار جانیم، تؤکر قان چشمِ گریانیم
اویادار خلقی افغانیم، قارا بختیم اویانمازمی؟
(محمد فضولی بغدادی)
شبِ ہجراں میری جان جلتی ہے اور میری چشمِ گریاں خون بہاتی ہے؛ میری فغاں خلق کو بیدار کرتی ہے، کیا میرا سیاہ بخت بیدار نہیں ہو گا؟
قامو بیمارینا جانان دوایِ درد ائدر احسان
نئچون قیلماز منه درمان؟ منی بیمار سانمازمی؟
(محمد فضولی بغدادی)
یار اپنے تمام بیماروں کو دوائے درد عطا کرتا ہے؛ (لیکن) کس لیے وہ میرا علاج نہیں کرتا؟ کیا مجھے بیمار نہیں سمجھتا؟