محسن وقار علی
محفلین
اس لمحۂ وارد میں نہ میں اور نہ تو تھا
آفاق میں جو کچھ بھی تھا آوازۂ ہو تھا
سرکار کہیں رہتا بھی ہے اک سازمانہ
جس دہر پہ نازاں ہو وہ میرا بھی کبھو تھا
یہ بات بہت خوف میں کرتی ہے اضافہ
باہر تھا بھلا کون جو تصویر میں تو تھا
یہ کم ہے کوئی میرے مقابل یہاں نکلا
تھا داد کا حق دار مرا جو بھی عدو تھا
ظاہر ہے ترے بعد کوئی بھایا نہ مجھ کو
میں دیکھتا بھی کس کو مری آنکھوں میں تو تھا
یہ سچ جو کہیں بھی تو کہیں کس سے یہاں پر
مسمار مجھے کرتا مرا جوشِ نمو تھا
اے طورؔ میں اس بات پہ حیراں ہوں ابھی تک
کل سامنے جو آیا وہ میرا ہی لہو تھا
آفاق میں جو کچھ بھی تھا آوازۂ ہو تھا
سرکار کہیں رہتا بھی ہے اک سازمانہ
جس دہر پہ نازاں ہو وہ میرا بھی کبھو تھا
یہ بات بہت خوف میں کرتی ہے اضافہ
باہر تھا بھلا کون جو تصویر میں تو تھا
یہ کم ہے کوئی میرے مقابل یہاں نکلا
تھا داد کا حق دار مرا جو بھی عدو تھا
ظاہر ہے ترے بعد کوئی بھایا نہ مجھ کو
میں دیکھتا بھی کس کو مری آنکھوں میں تو تھا
یہ سچ جو کہیں بھی تو کہیں کس سے یہاں پر
مسمار مجھے کرتا مرا جوشِ نمو تھا
اے طورؔ میں اس بات پہ حیراں ہوں ابھی تک
کل سامنے جو آیا وہ میرا ہی لہو تھا