نصیر الدین نصیر اس کو نہ چھو سکے کبھی رنج و بلا کے ہاتھ

الف نظامی

لائبریرین
اس کو نہ چھو سکے کبھی رنج و بلا کے ہاتھ
اٹھے ہیں جس کے حق میں رسولِ خدا کے ہاتھ

بھیجا گیا ہے دین رسولِ خدا کے ہاتھ
ایسا چراغ، دُور ہیں جس سے ہوا کے ہاتھ

دیکھوں گا جب بھی روضہ ء اقدس کی جالیاں
چُوموں گا فرطِ شوق سے پیہم لگا کے ہاتھ

گیسوئے مصطفی سے یقینا ہوئی ہے مس
خوشبو کہاں سے آئی یہ بادِ صبا کے ہاتھ

خاطر میں کب وہ لائے گا شاہانِ وقت کو
اُٹھتے ہوں صرف اُن کی طرف جس گدا کے ہاتھ

محشر میں مجھ پہ سایہ ء لطفِ رسول ہو
میں یہ دعائیں مانگ رہا ہوں اُٹھا کے ہاتھ

ممکن نہ تھا کہ روضہ ء اقدس کو چُھو سکیں
آگے بڑھا دیا ہے نظر کو بنا کے ہاتھ

بے حد و بے شمار خطائیں سہی ، مگر
کچھ غم نہیں کہ لاج ہے اب مصطفی کے ہاتھ

ہم عاصیوں کے آپہی تو دستگیرہیں
ہم سب کا آسرا ہیں شہ ِ انبیاء کے ہاتھ

اخیار کی دُعا کا وسیلہ تلاش کر
عرشِ بریں سے دُور نہیں اولیا کے ہاتھ

میں ہوں گدائے کوچہ ء آلِ نبی نصیر
دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ

(سید نصیر الدین نصیر)​
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
آئی ہے جالیوں سے بھی شاید لگا کے ہاتھ
کیا کچھ مہک رہے ہیں یہ بادِ صبا کے ہاتھ

شاہد ہے مارَمیتَ کی آیت ، اس امر پر
یعنی نبی کے ہاتھ ہیں بیشک خدا کے ہاتھ

وہ کامیابِ عشقِ خدا و رسول ہے
جس کی زمامِ کار ہے صبر و رضا کے ہاتھ

ذکرِ حبیب نے ، وہ غنی کر دیا مجھے
بیٹھا ہوا ہوں دونوں جہاں سے اُٹھا کے ہاتھ

سو رنج ہوں ، ہزار الم ، لاکھ مشکلیں
ہم نے بڑھا دئیے ہیں اُدھر مسکرا کے ہاتھ

عشقِ نبی کی ان میں لکیریں بھی کھینچ دیں
روزِ ازل خدا نے ہمارے بنا کے ہاتھ

ہے اُن کےدم قدم سے فضیلت کا فیصلہ
خاکِ شفا لگی ہے تو بس نقشِ پا کے ہاتھ

جب کوئی وسوسہ مجھے لاحق ہوا کبھی
سینے پہ رکھ دئیے وہیں حضرت نے آکے ہاتھ

وہ رحمتِ تمام ہیں دونوں جہان میں
دامن تک اُن کے پہنچیں گے شاہ و گدا کے ہاتھ

ہم پر کرم ہے صاحبِ خُلقِ عظیم کا
افلاک سے بُلند ہیں جُود و عطا کے ہاتھ

اُٹھی جہاں نصیر! نگاہِ رسولِ حق
ہو جائیں گے قلم وہیں تیغِ جفا کے ہاتھ

(سید نصیر الدین نصیر)​
 

الف نظامی

لائبریرین
پہنچے کہاں کہاں نہ حبیبِ خدا کے ہاتھ
کونین کا ہے نظم و عمل مصطفی کے ہاتھ

محروم رہ نہ ساقی ء کوثر کے فیض سے
پڑھ کر دُرود ، جام اُٹھا لے ، بڑھا کے ہاتھ

ہر سانس وقف ہے شہِ لولاک کے لیے
میری طرف بڑھیں گے ادب سے قضا کے ہاتھ

آیا ہوں جب سے ہو کے درِ مصطفی سے میں
خاکِ قدم سمیٹ رہے ہیں ہَوا کے ہاتھ

ہوگی رسائی صدقہ ء خیر الانام میں
پہنچیں گے عرش تک مری ہر اک دعا کے ہاتھ

میرے لیے مدینہ سے لائی ہے یہ پیام
کیوں چُوم لوں نہ وجد میں آ کر صبا کے ہاتھ

دامن رسول کا مرے ہاتھوں میں آگیا
یہ ہاتھ شاہ کے ہیں ، نہیں بے نوا کے ہاتھ

آسان ان کے واسطے ہے راہ خلد کی
وہ جن کی رہنمائی ہے آلِ عبا کے ہاتھ

سلطانِ انبیاء کی نگاہیں جو پڑ گئیں
شل ہو کے رہ گئے ستمِ ناروا کے ہاتھ

دیوانہء حبیبِ خدا ، جو نصیر ہو
باتیں کریں فرشتے بھی اس سے ملا کے ہاتھ

(سید نصیر الدین نصیر)​
 

الف نظامی

لائبریرین
ان کی طرف بڑھیں گے نہ لطفِ خدا کے ہاتھ
جو پھر گئے رسولِ خدا سے چھڑا کے ہاتھ

دل چاہتا ہے خاکِ در پاک چُوم لوں
یہ بات لگ نہ جائے کہیں سے ، صبا کے ہاتھ

بس اک نگاہِ لطف کا امیدوار ہوں
کچھ اور ہو طلب ، تو کٹیں التجا کے ہاتھ

ہو گا کرم یہ چاہنے والوں پہ حشر میں
اپنی طرف بلائیں گے آقا ﷺ ، اٹھا کے ہاتھ

جو اُن پہ مر مٹے انہیں یوں زندگی ملی
نقدِ حیات ، لوٹ نہ پائے فنا کے ہاتھ

اُس کا نہ مول اور نہ اُس کی مثال ہے
جو بک چکا ہو اُن کی ادائے عطا کے ہاتھ

طاعت ہے فرض ہم پہ خدا و رسول کی
عزت خدا کے ہاتھ ہے یا مصطفی ﷺ کے ہاتھ

بیٹھے ہیں آج ذوقِ توکل سے مطمئن
جو پوچھتے تھے اپنا مقدر دکھا کے ہاتھ

ہر سُو ہیں ان کے نقشِ کفِ پا حجاز میں
اللہ نے کیا ، تو لگا لیں گے جا کے ہاتھ

امید ہےدُعائے حضوری قبول ہو
رودادِ شوق بھیج تو دی ہے صبا کے ہاتھ

مجھ کو ہے بس نصیر شفیع الوری کی دُھن
پھیریں گے میرے سر پہ وہی ، مُسکرا کے ہاتھ
(سید نصیر الدین نصیر)
 
آخری تدوین:
اس کو نہ چھو سکے کبھی رنج و بلا کے ہاتھ
اٹھے ہیں جس کے حق میں رسولِ خدا کے ہاتھ

بھیجا گیا ہے دین رسولِ خدا کے ہاتھ
ایسا چراغ، دُور ہیں جس سے ہوا کے ہاتھ

دیکھوں گا جب بھی روضہ ء اقدس کی جالیاں
چُوموں گا فرطِ شوق سے پیہم لگا کے ہاتھ

گیسوئے مصطفی سے یقینا ہوئی ہے مس
خوشبو کہاں سے آئی یہ بادِ صبا کے ہاتھ

خاطر میں کب وہ لائے گا شاہانِ وقت کو
اُٹھتے ہوں صرف اُن کی طرف جس گدا کے ہاتھ

محشر میں مجھ پہ سایہ ء لطفِ رسول ہو
میں یہ دعائیں مانگ رہا ہوں اُٹھا کے ہاتھ

ممکن نہ تھا کہ روضہ ء اقدس کو چُھو سکیں
آگے بڑھا دیا ہے نظر کو بنا کے ہاتھ

بے حد و بے شمار خطائیں سہی ، مگر
کچھ غم نہیں کہ لاج ہے اب مصطفی کے ہاتھ

ہم عاصیوں کے آپہی تو دستگیرہیں
ہم سب کا آسرا ہیں شہ ِ انبیاء کے ہاتھ

اخیار کی دُعا کا وسیلہ تلاش کر
عرشِ بریں سے دُور نہیں اولیا کے ہاتھ

میں ہوں گدائے کوچہ ء آلِ نبی نصیر
دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ

(سید نصیر الدین نصیر)​
سبحان اللہ
 
پہنچے کہاں کہاں نہ حبیبِ خدا کے ہاتھ
کونین کا ہے نظم و عمل مصطفی کے ہاتھ

محروم رہ نہ ساقی ء کوثر کے فیض سے
پڑھ کر دُرود ، جام اُٹھا لے ، بڑھا کے ہاتھ

ہر سانس وقف ہے شہِ لولاک کے لیے
میری طرف بڑھیں گے ادب سے قضا کے ہاتھ

آیا ہوں جب سے ہو کے درِ مصطفی سے میں
خاکِ قدم سمیٹ رہے ہیں ہَوا کے ہاتھ

ہوگی رسائی صدقہ ء خیر الانام میں
پہنچیں گے عرش تک مری ہر اک دعا کے ہاتھ

میرے لیے مدینہ سے لائی ہے یہ پیام
کیوں چُوم لوں نہ وجد میں آ کر صبا کے ہاتھ

دامن رسول کا مرے ہاتھوں میں آگیا
یہ ہاتھ شاہ کے ہیں ، نہیں بے نوا کے ہاتھ

آسان ان کے واسطے ہے راہ خلد کی
وہ جن کی رہنمائی ہے آلِ عبا کے ہاتھ

سلطانِ انبیاء کی نگاہیں جو پڑ گئیں
شل ہو کے رہ گئے ستمِ ناروا کے ہاتھ

دیوانہء حبیبِ خدا ، جو نصیر ہو
باتیں کریں فرشتے بھی اس سے ملا کے ہاتھ

(سید نصیر الدین نصیر)​
سبحان اللہ
 
Top