اس کی بھی ہر اک راہ میں شامل تھا کبھی میں

ثامر شعور

محفلین
اس کی بھی ہر اک راہ میں شامل تھا کبھی میں
اتنا تو نہ تنہا سرِ منزل تھا کبھی میں

ڈرتا ہے مرے ساتھ کہیں ڈوب نہ جائے
طوفان میں جس شخص کا ساحل تھا کبھی میں

پتھر کی طرح غم نے ترے کر دیا ورنہ
خوشبو سا مہکتا ہوا اک دل تھا کبھی میں

اس شہر کی گلیاں بھی مجھے بھول گیئں کیا؟
ان کے تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں

یہ نرم سا لہجہ تو محبت نے دیا ہے
ورنہ تو ترے جیسا ہی مشکل تھا کبھی میں

دنیا کے جھمیلوں نے کہیں کا بھی نہ چھوڑا
ورنہ تو غمِ یار کے قابل تھا کبھی میں

کیسے وہ مجھے بھول کے جی پائے گا ثامؔر
اس کی بھی دعاؤں کا تو حاصل تھا کبھی میں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب
اس شہر کی گلیاں بھی مجھے بھول گیئں کیا؟
ان کے تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں
 

ثامر شعور

محفلین
ظاہر ہے لکھے اشعارمیں عِزّ و جاہ یا درجات کی نامناسبت کو شترگربہ کہتے ہیں

اس شہر کی گلیاں بھی مجھے بھول گیئں کیا؟
ان کے تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں

آپ کے بالا شعر میں اس اور ان سے یہ صورت پیدا ہو گئی ہے
اُس شہر کی.۔۔۔ ۔۔۔
اُن کے تو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔

دوسرے مصرع میں پہلے مصرع کے ' اُس شہر کی۔۔۔ ' نسبت ( اصولِ مراتب کی وجہ سے )اُس کے تو ۔۔۔
ہونا چائے
:)
محترم طارق شاہ صاحب بہت شکریہ آپ کا توجہ دلانے کا۔میں نے بھی اس کے بارے میں سوچا تھا مگر 'اُن کے تو ۔۔۔۔' گلیوں کے ساتھ استعمال کیا تھا کیونکہ میں سمجھا کہ ذکر گلیوں کا ہے تو شاید یہ شترگربہ نہ ہو۔ تھوڑی سی اور توجہ فرما دیں تاکہ تدوین سے پہلے یہ الجھن ختم ہو سکے
میں آپ کا تبصرہ ادھر لے آیا ہوں تا کہ آپ کی مزید توجہ حاصل رہے۔
آپ کی محبت کا ایک مرتبہ پھر شکریہ
 

طارق شاہ

محفلین
تشکّر ثامر شعور صاحب!
اِس یا ایسے مفہوم کے لئے ان کے کو " اُن کی" کرنا ہوگا آپ نے !

گلیوں کو راجع کرنے کے لئے
" ان کی تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں "
کہ اس طرح بیان گلیوں سے رجوع کرتا ہے

( دی صورت میں شہر راجع ہے نہ کہ گلیاں )

دیکھ لیں، کہ دیکھ لینے میں کیا قباحت !
 
آخری تدوین:

ثامر شعور

محفلین
تشکّر ثامر شعور صاحب!
اِس یا ایسے مفہوم کے لئے ان کے کو " اُن کی" کرنا ہوگا آپ نے !

گلیوں کو راجع کرنے کے لئے
" ان کی تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں "
کہ اس طرح بیان گلیوں سے رجوع کرتا ہے

( دی صورت میں شہر راجع ہے نہ کہ گلیاں )

دیکھ لیں، کہ دیکھ لینے میں کیا قباحت !
جی طارق صاحب میں ضرور دیکھتا ہوں۔ بہت ساری دعائیں
 
اس شہر کی گلیاں بھی مجھے بھول گیئں کیا؟
ان کے تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں۔
نثر میں دیکھئے تو یوں بنتا ہے ۔۔۔ میں تو کبھی اس شہر کی گلیوں کے شب و روز میں شامل تھا، کیا یہ بھی مجھے بھول گئی ہیں؟ ۔۔۔ جو بالکل درست ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے پاس غزل کی تدوین کا option نہیں آ رہا ۔ ابھی نیا ہوں مدد چاہئے۔ یہی مسئلہ ایک اور دھاگے میں بھی تھا محمد وارث بھائی

جی تدوین کی سہولت پوسٹ کرنے کے بعد صرف کچھ منٹوں کیلیے مہیا ہوتی ہے، اسکے بعد اگر کچھ تدوین کرنی ہو تو اس مراسلے کو رپورٹ کر دیں اور مجوزہ تبدیلی بھی لکھ دیں، انشاءاللہ منتظمین میں سے کوئی بھی اپنی پہلی فرصت میں تبدیلی کر دے گا۔ یہ والی تبدیلی میں نے کر دی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب۔ اچھی غزل ہے، اس اور ان کا شتر گربہ نہیں کہا جا سکتا۔ مطلب صاف ہے کہ گلیوں کی طرف اشارہ ہے
 

طارق شاہ

محفلین
بہت خوب۔ اچھی غزل ہے، اس اور ان کا شتر گربہ نہیں کہا جا سکتا۔ مطلب صاف ہے کہ گلیوں کی طرف اشارہ ہے
عبید صاحب! اس طرح تو، یعنی صرف مطلب صاف ہونے ہی پر ہم اگر معیار معین یا صحیح غلط ہونا منتج کریں گے
تو قوائد زبان ، روزمرہ ، تلفظ ، زمانہ ، تانیث و تذکیر ، محاورہ یا تعقید وغیرہ کی ضرورت یا قید ہی نہیں رہے گی
جب یہ نہیں تو (رفتہ رفتہ ہی سہی) مروجہ اوزان و بحر بھی کیوں ؟، والی بات بھی آجائے گی
:)
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
اس شہر کی گلیاں بھی مجھے بھول گیئں کیا؟
ان کے تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں۔
نثر میں دیکھئے تو یوں بنتا ہے ۔۔۔ میں تو کبھی اس شہر کی گلیوں کے شب و روز میں شامل تھا، کیا یہ بھی مجھے بھول گئی ہیں؟ ۔۔۔ جو بالکل درست ہے۔

نثر کرتے ہوئے، بی بی |صاحب ، آپ نے حرف مُعْترِض عَلَیْہ " ان کے " ہی نکال باہر کردیا ہے
(نثر کرنے کا قاعدہ یہ ہےکہ نثر کرتے وقت وہی سب الفاظ استعمال میں لائے جائیں جو شعر میں ہیں

(کوئی حرف ، لفظ نکال نہیں سکتے، ہاں وضاحت کے لئے اضافہ کرسکتے ہیں مگر صرف اس حرف خفی کا
جو کہ شعر میں دیکھنے سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے، یا ہو رہے ہیں مگر پڑھنے سے خیال میں آتا یا آتے ہیں،
اسے بھی مفہوم واضح کرنے کیلئے ، صرف قوسین میں ہی ڈال سکتے ہیں)
:)
 
آخری تدوین:

ثامر شعور

محفلین
تشکّر ثامر شعور صاحب!
اِس یا ایسے مفہوم کے لئے ان کے کو " اُن کی" کرنا ہوگا آپ نے !

گلیوں کو راجع کرنے کے لئے
" ان کی تو شب و روز میں شامل تھا کبھی میں "
کہ اس طرح بیان گلیوں سے رجوع کرتا ہے

( دی صورت میں شہر راجع ہے نہ کہ گلیاں )

دیکھ لیں، کہ دیکھ لینے میں کیا قباحت !

محترم طارق شاہ صاحب میں نے " ان کے " کو 'ان کی' میں تبدیل کرنے کے بارے میں غور کیا مگر شب و روز کو مونث استعمال کرنا غلط لگ رہا ہے ۔ جیسے اقبال کے اس شعر کو "تیری شب و روز " پڑھا جائے تو ٹھیک نہ ہوگا۔
تيرے شب وروز کي اور حقيقت ہے کيا
ايک زمانے کي رَو جس ميں نہ دن ہے نہ رات
(مسجد قرطبہ)
اور فراز نے یوں کہا ہے
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے

آپ کی توجہ کا شکریہ اور بہت ساری دعا ئیں اللہ آپ کوخوش رکھے
 
Top