بابا بلھے شاہ اس کے استعاراتی معانی سمجھا دیں ۔۔۔ !

جی ایسے بد بختوں کو بزرگوں سے کوئی نسبت نہیں ۔۔ بزرگوں کے مزارات کو ایسے بھنگیوں چرسیوں سے واگزار کرانے کی مصبوط اور توانا مہم چلانے کی صرورت ہے
آپ کا موقف واضح ہونے کے بعد میرے دل میں آپ سے متعلق کوئی میل نہیں میں نادانستگی میں آپ کی دل آزاری پر آپ سے معذرت خواہ ہوں امید ہے کہ آپ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول فرمائیں گے
والسلام
جزاکم اللہ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
صوفی بزرگ ہمیشہ ملامتی روپ اختیار کیئے رکھتے تھے تاکہ عام لوگ ان کے قریب آتے ان کی بات سنتے کوئی جھجھک محسوس نہ کیا کریں ۔ انہیں اپنی بات کہنے اپنے اشکال بیان کرتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب درج ذیل کلام جو آپ نے شریک محفل کیا ۔۔ یہ بھی اک وعظ کی صورت تبلیغ ہی ہے ۔۔۔۔ اللہ واحد و لاشریک کی جانب بلانے کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
بابا بلھے شاہ اپنی ذات کو مخاطب کرتے اپنی شناخت تلاش کر رہے ہیں
انسان کی سوچ اس کے باطن سے مخاطب ہے ۔۔۔

نہ میں مومن وچ مسیت آں
مومن کون ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ ؟
جو اللہ پر یقین رکھے اور اس کے احکامات پر بے چون و چرا عمل کرے ۔۔
مسیت ۔۔ مسجد کیا ہوتی ہے ۔۔۔۔۔؟
جہاں نماز کی ادائیگی ہوتی ہے ۔ نماز پڑھتے نمازی کے سامنے دو صورتیں ہوتی ہیں ۔
اک وہ اللہ کے حضور کھڑا اللہ کو دیکھ رہا ہے
دوسرے وہ اللہ کے حضور کھڑا ہے اور اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔
اب وہ " مومن " کیسے ہو سکتا ہے جو مسجد میں کھڑا ہے رکوع و سجود کر رہا ہے ۔
اور ساتھ ہی ساتھ اس کا نفس اسے خواہش میں الجھائے ہوئے ہے ۔ اور جھوٹ فریب دھوکہ کی راہیں سمجھا رہا ہے ۔۔۔۔
سو میں " مومن " نہیں جو کہ اللہ کی مانتا نہیں اور اپنے نفس پر چلتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر میں " مومن " نہیں تو کیا پھر میں " کفر " کی راہ پر ہوں ۔۔۔؟

نہ میں وچ کفر دی ریت آں
کافر جس کا مادہ کفر ہے ۔ وہ حق کے جھٹلانے والا ہے ۔
جس نے " لا الہ الا اللہ " کی صدا سنی مگر تسلیم نہ کی اور اعراض کر گیا ۔۔
لیکن میں تو کلمہ پڑھ چکا ۔۔ اللہ کے آخری رسول پہ آئے پیغام کی تصدیق کر چکا ۔۔۔۔۔۔۔
سو میں " کفر " میں تو مبتلا نہیں ہوں ۔۔۔۔
تو کیا میں پاکیزگی کی بجائے ناپاکی میں مبتلا ہوں ۔۔۔۔؟

نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
(اسے نہیں سمجھ پایا )
نہ میں موسٰی، نہ فرعون
نہ میں موسی کے درجے پہ ہوں جسے رسالت سے سرفراز کرتے " تبلیغ " کی امانت کا بوجھ دیا گیا ۔۔۔۔۔
نہ ہی میں فرعون ہوں جسے زمانے کے خزانے دیئے گئے اور وہ خود ساختہ رب بن بیٹھا ۔۔۔۔۔۔۔

بلھا کی جاناں میں کون
تو اب کیسے پتہ چلے کہ " میں " کون ہوں ۔۔ میرا فرض کیا ہے ۔ میری تخلیق کا مقصد کیا ہے ۔
مجھے زمین پہ بھیجا کیوں گیا ہے ۔؟

اب یہاں سے مخاطب بدل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے باطن سے خطاب ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اب باطن جواب دے رہا ہے ۔۔۔۔۔

نہ میں اندر بید کتاباں
زمانے کی کتابیں پڑھ لے مگر میرا بھید نہ مل سکے گا۔۔۔۔۔۔۔ کہ میری حقیقت کیا ہے ۔۔؟
نہ وچ بھنگاں، نہ شراباں
بھنگ چرس شراب تمام نشے کر کے دیکھ لے مگر بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔
نہ رہنا وچ خراباں
خرابات دنیا میں مگن رہتے تجربہ کر لے میرا بھید نہ ملے گا
نہ وچ جاگن، نہ سون
جاگتے بھی سوچتا رہ اور سوتے بھی خواب دیکھ مگر میرا بھید نہ مل سکے گا ۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔؟
نہ وچ شادی نہ غمناکی
خوشی کے عالم میں بھی اور دکھ کی کیفیت میں بھی میرا بھید نہیں ملے گا
نہ میں وچ پلیتی پاکی
ناپاکی اور پاکی میں ڈوبے رہتے بھی میرا سراغ نہ پاسکے گا ۔۔۔۔۔
نہ میں آبی نہ میں خاکی
نہ میں سراپا پانی ہوں نہ ہی سراپا خاک ہوں ۔۔۔
نہ میں آتش نہ میں پون
نہ میں سراپا آگ ہوں نہ ہی سراپا ہوا ہوں ۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو میں کیا ہوں ۔۔۔۔؟
نہ میں عربی، نہ لاہوری
نہ میں عرب سے ہوں نہ میں لاہور سے
نہ میں ہندی شہر رنگوری
نہ میں ہندی شہر رنگوری ہوں ۔۔۔۔۔
نہ ہندو نہ ترک پشوری
نہ میں ہندو ہوں نہ میں پشاور چھوڑ دینے والا پٹھان
نہ میں رہنا وچ ندون
نہ ہی میں کسی ندون ؟ میں رہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلھا کی جاناں میں کون
تو بلھے شاہ تو کیا جانے میں کون ہوں ۔۔۔؟
نہ میں بھیت مذہب دا پایاں
نہ میں نے کسی مذہب کو اختیار کیا ۔۔
نہ میں آدم حوا جایا
نہ ہی میں آدم و حوا کی اولاد ہوں ۔۔۔۔۔
نہ میں اپنا نام دھرایا
میرا نام اک ہی ہے چاہے کتنے روپ بدلے

نہ وچ بھٹن، نہ وچ بھون
نہ بھٹن کی خانقاہ میں نہ ہی بھون کے مدرسے میں
بلھا کی جاناں میں کون
تو بلھے شاہ کیا تو جانا کہ میں کون ہوں ۔۔۔؟
اول آخر آپ نوں جاناں
ابتدا سے انتہا تک صرف میں ہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
نہ کوئی دوجا پچھاناں
میرا کوئی دوسرا شریک نہیں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
مجھ سے زیادہ کوئی علم والا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بلھا! او کھڑا ہے کون؟
بلھے شاہ ذرا دیکھ تیرے دل میں کون قائم ہے ۔۔۔۔؟
بلھا کی جاناں میں کون
بلھے شاہ کیا جانا مجھ بارے میں ہوں کون ۔۔۔؟

لاتطمئن القلوب الا بذکر اللہ
اللہ بہترین ذکر یہی ہے کہ اس کے ذکر میں محو رہتے اس کی مخلوق کے لیئے آسانیاں پیدا کی جائیں ۔۔۔
ملحوظ رہے کہ پنجابی میری مادری زبان نہیں ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
(جاری )

لیس للانسان الا ما یسعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان کے لیئے کچھ بھی نہیں سوائے اس کے جس کے لیئے وہ کوشش کرے ۔۔
تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ارفع ہونے کی کوشش کریں ۔ مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کریں
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئیں ۔
یہ کہاں کی حکمت کہ جب ہمارے پاس ترقی کی راہ موجود ہو تو ہم قناعت کر جائیں ۔۔۔؟
کون اسفل ہے کون اعلی ہے کون ارذل کون ارفع ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہ حساب کے دن کا مالک خوب جانتا ہے ۔۔۔۔
اس کے حساب میں رائی برابر زیادتی اور کمی نہیں ہو سکتی ۔۔

عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے ہو
فضل کریں تے بخشے جاون میں جئے منہ کالے ہو

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
نیک نیت ہوتے نیک مراد ملنے پر یقین کامل رکھنا اک بہتر عمل ۔۔۔
اور حساب کے دن کی مالک سچی ذات تو اپنی مخلوق پر ماں سے بھی ستر گناہ زیادہ مہربان ہے ۔
اس کی صفت رحیمی اس کے غضب پر حاوی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اپنی عاقبت کے بارے فکر کرنا بلاشبہ روشن ضمیروں کی عادت ہوتی ہے ۔
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لانا لاوے بھانوے نہ لاوے ۔۔
اس شعر کے مصداق اللہ سے ڈرنے والے اس کے ذکر میں محو رہتے مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی کیئے جاتے ہیں ۔
اور اجر و ثواب اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔
عرفان ذات ۔۔۔۔۔ وہ حقیقت بھرا احساس ہے جو کہ بیان میں نہیں آ سکتا ۔
جس کو عرفان ذات نصیب ہوجائے ۔۔ وہ شریعت پر عمل پیرا رہتے طریقت اختیار کرتے معرفت کی منزل پہ پہنچ حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے ۔
لیکن وہ اس راز کو بیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔۔۔ کیونکہ سرمد و منصور کی طرح راز افشاء کرنے پر اک تو سولی مقدر دوسرے عام انسان کے لیئے گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔
عمومی طور پر جسے عرفان ذات ہوجائے وہ خلق خدا سے محبت میں اپنی ہستی مٹاتا دکھ جاتا ہے ۔۔۔۔
وہ انسانوں سے بے نیاز اور اللہ پر یقین رکھنے والا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔
عرفان ذات باری تعالی کی حقیقت کھول دیتی ہے ۔ اور صاحب عرفان وجود باری تعالی کے مقام کی الجھن سے بے نیاز ہوجاتا ہے ۔
نبوت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک امانت ہے ۔ اور زمانے کے بوجھوں سے بڑھ کر اک بوجھ
نبی کو حکم ہوتا ہے ۔ تبلیغ کا ۔ بنا کسی جھجھک کسی مصلحت کے ۔
اور یہ فرض بحسن خوبی ادا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔
آپ سورت اقراء سورت المزمل سورت المدثر کو رجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھیں
ان شاء اللہ نافع ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

بہت بہت شکریہ ۔۔۔ تہ دل سے شکریہ مجھے جواب دینے کا ۔۔ میری عقل میں آپ کی بات کچھ کچھ سما گئی ہے ۔۔۔ ان شاء اللہ نفع کی طرف توجہ دوں گی ۔۔۔

میرا خیال ۔۔۔ نایاب کا مطلب پازیٹو ہوتا ہے ۔۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
 
آپ کی بات سمجھ میں آئ ...بلکہ سمجھ پنجابی کی رمز آپ سے بہتر کون جانے

کیا نام ہے آپ کی شاعری کی کتاب کا؟
تینوں .... واہ ..کیا خوب کہا ہے
ع: کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
اس فقیر کی تین کتابیں آئی ہیں (حال ہی میں)۔
1۔ اردو نظم: مجھے اک نظم کہنی تھی
2۔ پنجابی شاعری: پِنڈا پَیر دھرُوئی جاندے
3۔ اردو غزل: لفظ کھو جائیں گے
 
میرا خیال ۔۔۔ نایاب کا مطلب پازیٹو ہوتا ہے ۔۔
نایاب {نا + یاب} (فارسی)
صفت ذاتی
معانی
1. جو عام طور سے میسر نہ آئے، ناپید؛ (مراداً) جو بڑی زحمتوں سے دستیاب ہو، جو نہایت کم یاب ہو۔
انگریزی ترجمہ
not to be found or got; undiscoverable; unprocurable; unattainable; scarce, rare
 

نور وجدان

لائبریرین
ع: کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
اس فقیر کی تین کتابیں آئی ہیں (حال ہی میں)۔
1۔ اردو نظم: مجھے اک نظم کہنی تھی
2۔ پنجابی شاعری: پِنڈا پَیر دھرُوئی جاندے
3۔ اردو غزل: لفظ کھو جائیں گے
آپ کے کتب کے کے عنوان ہی بہت خوبصورت ہیں ۔۔بالخصوص لفظ کھو جائیں گے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم کو اور روشنائی دے آمین

پانی بجلی آٹا چینی " نایاب " ہو جائیں تو کون کہے گا " پازیٹو " ۔۔۔؟
بہت دعائیں
اب تو عادت سی ہے ۔۔۔۔۔۔
اس کا متبادل۔۔۔ یو پی ایس ،، جنریٹر ۔۔۔ سیاسی نا اہلی
پانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھارتی سازش
چینی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاسی شازش
نایاب کچھ نہیں ہوتا ہمارئی رسائی وسائل تک نایاب ہوتی ہے ۔

نایاب {نا + یاب} (فارسی)
صفت ذاتی
معانی
1. جو عام طور سے میسر نہ آئے، ناپید؛ (مراداً) جو بڑی زحمتوں سے دستیاب ہو، جو نہایت کم یاب ہو۔
انگریزی ترجمہ
not to be found or got; undiscoverable; unprocurable; unattainable; scarce, rare

بات سچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ہیرے بہت پسند ہیں اور وہ ہیں بھی نایاب ۔۔۔مجھے اب کان کنی شروع کرنی ہے ۔۔۔ جسٹ کڈنگ
دنیا میں ہر چیز میسر ہوسکتی ہے اور نہیں بھی ۔۔ ان کے بین بین تقدیر ہے ۔۔۔
 
آپ کے کتب کے کے عنوان ہی بہت خوبصورت ہیں ۔۔بالخصوص لفظ کھو جائیں گے ۔۔۔ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم کو اور روشنائی دے آمین


اب تو عادت سی ہے ۔۔۔۔۔۔
اس کا متبادل۔۔۔ یو پی ایس ،، جنریٹر ۔۔۔ سیاسی نا اہلی
پانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھارتی سازش
چینی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیاسی شازش
نایاب کچھ نہیں ہوتا ہمارئی رسائی وسائل تک نایاب ہوتی ہے ۔



بات سچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ہیرے بہت پسند ہیں اور وہ ہیں بھی نایاب ۔۔۔مجھے اب کان کنی شروع کرنی ہے ۔۔۔ جسٹ کڈنگ
دنیا میں ہر چیز میسر ہوسکتی ہے اور نہیں بھی ۔۔ ان کے بین بین تقدیر ہے ۔۔۔

چپ کرو یار، مجھے ڈر ہے تمہاری باتیں
اور لہجہ نہ کسی اور کو کر دے پاگل
۔۔۔۔۔ از: لفظ کھو جائیں گے​
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ عرصہ یعنی دو سال پہلے میں نے بُلھے شاہ صاحب کی یہ منظوم پڑھی تو ذہن میں سوال اُبھرا کہ اس میں کچھ استعارے پوشیدہ ہیں ،جن کو جاننے میں رُکاوٹ ہے ! خود بھی علم نہیں تھا کہ میں نے کیوں لکھا کہ 'اس کے استعاراتی معانی سمجھادیں ' بس اندر ایک آتش فشاں تھا جو سوال کا لاوا بن کے باہر نکلا ۔ سوال کے کوئی تشفی بخش جواب نہ مل سکا جبتکہ محترم شاکر القادری کی پوسٹ کی جوابی رسید ادھر نہ آئی ۔ ایک طرف اپنے صاحب علم ہونے پر بڑا زعم بھی تھا کہ بڑی کتابیں پڑھ رکھیں ہیں جبکہ دوسری طرف سوال کی جھولی بھی پھیلا رکھی تھی ! شاکر القادری صاحب کا جواب کافی مدلل تھا مگر میرے اندر کا جوار بھاٹا سوال در سوال کیے جارہا تھا جن کو ساتھ ساتھ گوگل بھی کیے جارہی تھی تو کہیں عربی زبان سے مفاہیم بھی اخذ کیے جارہی تھی اور آج اس تحریر پر اعتراف کے بعد آنسوؤں کی لڑی ہے میں تو تہی داماں ہوں ! میرا دامن تو بہت خالی ہے ! میرے پاس علم کا ایک ذرہ تک میسر نہ آسکا !


استعاراتی معانی سمجھنے کیا تھے مجھے تو اپنا سوال بھی واضح نہیں تھا کہ میں نے کیا پوچھا ہے اور کیوں پوچھا ہے ! اسکے بعد شاکر صاحب کے سامنے بے چینی و اضطرابی کو ایک سوال کی صورت سامنے رکھا کہ میں کون ہوں ؟ میں اسفل بھی نہیں ! میں ارفع بھی نہیں ! مجھ پر فضل ہوگا یا اس کا قہر نازل ہوگا؟ اسفل نام کی ذہن میں ایسی گونج اٹھی کہ بار بار دل کہتا کہ نور تو ''اسفل '' ہے ! سو ایک خوف ، ڈر کا عالم تھا اندر ! کیا وہ مجھ سے راضی ہوگا یا خفا ہی رہے گا ! مجھے لگتا تھا کہ اللہ مجھ سے روٹھ گیا ہے اور اسکے روٹھنے کے باعث میں اسفل مقام پر فائز ہوگئی مگر ساتھ میں خود کو باور کراتی رہتی تھی کہ میں جب اسے پکارتی ہوں ، اسکو یاد رکھتی ہوں تو اسکے معانی ہیں کہ اسنے مجھے تھام رکھا ہے ! میں خود کو گناہوں کی دلدل سے پاتال تک کے سفر میں اسفل اسفل کے خطابات سے نوازتی رہتی تھی تو ساتھ میں یہی احساس جاگزیں رہتا کہ میں اسفل نہیں ہوں ! میرے اندر کی کشمکش مجھے معلوم نہیں تھی اور میں اس کشمکش کو خود سمجھ نہیں پارہی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے !


قبلہ شاکر صاحب نے میرے لیے ایک نئی دنیا کا سورج کھول دیا ۔ گوکہ وہ سمجھ بیٹھے کہ میں تصوف میں بہت تحقیق کرچکی ہوں جبکہ میں نے اسی وقت انہی کی باتوں کو گوگل کرتے اپنے سوال کو پانا چاہا تھا ۔ گویا میری ذات تصوف میں داخل ہوگئی مگر اس میں میرا کتنا ارادہ تھا میں اسے بھی خود باخبر تھی ! ہاں ! میرا دل اتنا ٹوٹ چکا تھا جتنی کائنات بکھری ہوئی ہے ! کائنات کبھی اتنی حسین تھی! مرد محبت کرتا ہے اور کھل کے لکھتا ہے مگر عورت محبت کرکے اسکو لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ! سو ہمارے معاشرے میں محبت کو ناسور سمجھا جاتا ہے کجا عشق ! عشق میرا اپنی مثال تھا یعنی مجھے اپنے عکس سے بہت شدت سے عشق ہوا اور اپنی محبت میں خود پسندی اتنی بڑھ گئی کہ فساد کا باعث بنے مگر اللہ کا کرم اسنے مجھے فساد سے محفوظ رکھا مگر اپنی ذات سے محبت نفرت میں بدل گئی ! خود سے عشق ،نفرت میں ! بس یہ خلا -------یہ خلا ایسا تھا جس نے مجھے نہ ہونے اور ہونے کے درمیان کردیا میں ایک پنڈولم کی طرح اسفل اور احسن کی بیچ گھومتی رہتی !


اس سوال نے مجھے میرے اصل کی جانب لوٹا دیا ! مجھے میرےوطن کی جانب ! اس سوال نے جوابات سوال کی صورت میرے سامنے رکھے مگر اب پھر مزید سوالات کے قطار کے ساتھ میں اس یقین کی جانب گامزن ہوں کہ مجھے اپنے سوالات کے جواب کسی سے مانگنے کے بجائے انتظار کو زحمت دینی ہے ! اس لڑی میں سب محفلین کی شرکت کا شکریہ ! یہ بہت تاخیر سے دیا گیا جواب مگر شاید اسکو ابھی لکھا جانا تھا ! اللہ سب کے درجات میں اضافہ کریں ! آمین
 

فرخ منظور

لائبریرین
اب اس کافی کے استعاری معانی کھوجیے۔ :)

عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا
مسجد کولوں جیوڑا ڈریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا
جتھے وجدے ناد ہزار
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں رمز عشق دی پائی
مینا طوطا مار گوائی
اندر باہر ہوئی صفائی
جت ول ویکھاں یار و یار
عشق دی نویوں نویں بہار
ہیر رانجھے دے ہو گئے میلے
بھُلی ہیر ڈھوڈیندی بیلے
رانجھا یار بکل وچ کھیلے
مینوں سدھ رہی نہ سار
عشق دی نویوں نویں بہار
بید قرآناں پڑھ پڑھ تھکے
سجدے کر دیاں گھس گئے متھے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکے
جس پایا تس نور انوار
عشق دی نویوں نویں بہار
پھوک مصلیٰ بھن سٹ لوٹا
نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا
عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں کھا مردار
عشق دی نویوں نویں بہار
عمر گوائی وچ مسیتی
اندر بھریا نال پلیتی
کدے نماز توحید نہ نیتی
ہن کیہ کرنائیں شور پُکار
عشق دی نویوں نویں بہار
عشق بھلایا سجدہ تیرا
ہن کیوں اینویں پاویں جھیڑا
بلھا ہوندا چپ بتیرا
عشق کریندا مارو مار
عشق دی نویوں نویں بہار
(بلھے شاہ)

مشکل لفظاں دے معنے

ٹھاکر۔رب، مندر وچ رکھے بت نوں وی ٹھاکر کہندے ہین
مینا۔ بولن والی طوطی
بیلے۔ جنگل
بید۔وید، چار وید، رگ وید، سام وید، اتھر وید تے یجر وید
تیرتھ۔ پاک تھاواں تے نہاونا، ہندومت وچ عقیدہ ہے جو کئی تیرتھ ہین، بوہتے مشہور، بنارس، ہردوار، رامیشورم، ترپتی وغیرہ
انوار۔ چانن
مصلیٰ۔ دری جیس تے نماز پڑھی جاندی ہے
عاصا۔ مولانا لوکاں دے ہتھ وچ پھڑی کھونڈی
ترک۔ چھڈ دینا، کسے شے توں توبہ کر لینا
توحید۔ اکائی، عام طور تے رب دے اک ہوون لئی ورتیا جاندا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
اب اس کافی کے استعاری معانی کھوجیے۔ :)

عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا
مسجد کولوں جیوڑا ڈریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا
جتھے وجدے ناد ہزار
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں رمز عشق دی پائی
مینا طوطا مار گوائی
اندر باہر ہوئی صفائی
جت ول ویکھاں یار و یار
عشق دی نویوں نویں بہار
ہیر رانجھے دے ہو گئے میلے
بھُلی ہیر ڈھوڈیندی بیلے
رانجھا یار بکل وچ کھیلے
مینوں سدھ رہی نہ سار
عشق دی نویوں نویں بہار
بید قرآناں پڑھ پڑھ تھکے
سجدے کر دیاں گھس گئے متھے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکے
جس پایا تس نور انوار
عشق دی نویوں نویں بہار
پھوک مصلیٰ بھن سٹ لوٹا
نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا
عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں کھا مردار
عشق دی نویوں نویں بہار
عمر گوائی وچ مسیتی
اندر بھریا نال پلیتی
کدے نماز توحید نہ نیتی
ہن کیہ کرنائیں شور پُکار
عشق دی نویوں نویں بہار
عشق بھلایا سجدہ تیرا
ہن کیوں اینویں پاویں جھیڑا
بلھا ہوندا چپ بتیرا
عشق کریندا مارو مار
عشق دی نویوں نویں بہار
(بلھے شاہ)

مشکل لفظاں دے معنے

ٹھاکر۔رب، مندر وچ رکھے بت نوں وی ٹھاکر کہندے ہین
مینا۔ بولن والی طوطی
بیلے۔ جنگل
بید۔وید، چار وید، رگ وید، سام وید، اتھر وید تے یجر وید
تیرتھ۔ پاک تھاواں تے نہاونا، ہندومت وچ عقیدہ ہے جو کئی تیرتھ ہین، بوہتے مشہور، بنارس، ہردوار، رامیشورم، ترپتی وغیرہ
انوار۔ چانن
مصلیٰ۔ دری جیس تے نماز پڑھی جاندی ہے
عاصا۔ مولانا لوکاں دے ہتھ وچ پھڑی کھونڈی
ترک۔ چھڈ دینا، کسے شے توں توبہ کر لینا
توحید۔ اکائی، عام طور تے رب دے اک ہوون لئی ورتیا جاندا ہے


عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا
مسجد کولوں جیوڑا ڈریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا
جتھے وجدے ناد ہزار
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں رمز عشق دی پائی
مینا طوطا مار گوائی
اندر باہر ہوئی صفائی
جت ول ویکھاں یار و یار
عشق دی نویوں نویں بہار
ہیر رانجھے دے ہو گئے میلے
بھُلی ہیر ڈھوڈیندی بیلے
رانجھا یار بکل وچ کھیلے
مینوں سدھ رہی نہ سار
عشق دی نویوں نویں بہار
بید قرآناں پڑھ پڑھ تھکے
سجدے کر دیاں گھس گئے متھے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکے
جس پایا تس نور انوار
عشق دی نویوں نویں بہار
پھوک مصلیٰ بھن سٹ لوٹا
نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا
عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں کھا مردار
عشق دی نویوں نویں بہار
عمر گوائی وچ مسیتی
اندر بھریا نال پلیتی
کدے نماز توحید نہ نیتی
ہن کیہ کرنائیں شور پُکار
عشق دی نویوں نویں بہار
عشق بھلایا سجدہ تیرا
ہن کیوں اینویں پاویں جھیڑا
بلھا ہوندا چپ بتیرا
عشق کریندا مارو مار
عشق دی نویوں نویں بہار
(بلھے شاہ)

مشکل لفظاں دے معنے

ٹھاکر۔رب، مندر وچ رکھے بت نوں وی ٹھاکر کہندے ہین
مینا۔ بولن والی طوطی
بیلے۔ جنگل
بید۔وید، چار وید، رگ وید، سام وید، اتھر وید تے یجر وید
تیرتھ۔ پاک تھاواں تے نہاونا، ہندومت وچ عقیدہ ہے جو کئی تیرتھ ہین، بوہتے مشہور، بنارس، ہردوار، رامیشورم، ترپتی وغیرہ
انوار۔ چانن
مصلیٰ۔ دری جیس تے نماز پڑھی جاندی ہے
عاصا۔ مولانا لوکاں دے ہتھ وچ پھڑی کھونڈی
ترک۔ چھڈ دینا، کسے شے توں توبہ کر لینا
توحید۔ اکائی، عام طور تے رب دے اک ہوون لئی ورتیا جاندا ہے

استعاراتی معانی سمجھائے جاتے ہیں سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں ۔ اسوقت سے حیرت ہوں میں ''کیہ جاناں میں کون '' سے عشق دی نوی نوی بہار '' کے بارے میں کیا لکھوں ! کیا دل میں عشق کے تار چھڑچکے ہیں مگر نہ تو میرے پاس یقین کی وہ دولت ہے جس کی سواری پر عشق کی صعوبتوں کو برداشت کرسکوں ۔ سوچتی ہوں کہ کبھی کبھی لگتا ہے وہ دل میں چھپا بیٹھا مجھے دیکھ کے کہتا ہے کہ میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم تصویر ہو میری اور اگر تم خود کو تصویر کرلو تو میں تمھیں دکھ جاؤں ! مگر یہی کہ اسکی بات میں کیسے مانوں ، میں ایک چھوٹی سی تصویر یعنی ذرہ اور پوری کائنات اس کا فریم ۔۔۔۔۔وہ مجھ پر نظر رکھنے پر قادر ہے مگر میں اتنی لامحدودیت کہاں سے لاؤں کہ اسے دیکھ سکوں ۔جب سوچتی ہوں اسے دیکھ نہیں سکتی تو فائدہ محبت کی جو نظارے سے محروم ہے ، فائدہ جو اسکے ساتھ کو محسوس کرنا چاہتی ہے اسلیے دل میں آج کل ہر اس بات کو رد کیے جارہی ہوں جس سے مجھے لگے کہ میں اس سے محبت میں ہوں ۔اسطرح کرنے سے مجھے اپنے اندر کی ساری کثافتیں نظر آنے لگی ہیں ۔ اپنے گناہ بھی ! میں گناہ گار ہوں ، میری شبیہ پر داغ ہیں میں اسکو کیسے دیکھ سکتی ہوں ، دل کے اجلے دامن پر ایک داغ بھی پڑجائے تو تصویر پوری نظر نہیں آتی جب عکس مکمل نہ بنے تو تب انسان بڑا ادھورا ہوجاتا ہے ۔ جو استعارا ، رمز ہے وہ سمجھ سے باہر ہوتا ہے مگر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی در وا ہوتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کتنا ادھورا ہے ۔ جیسے مجھے محسوس ہوتا ہے لکھنا بالکل ایک اضافی سی بات ان جذبات کو قرطاس پر لکھنے کے لیے اور اسکو لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ آج کل ایک ایسی انہونی سی کیفیت ہے کہ وہ ہے تو دکھتا کیوں نہیں ہے اور نہیں دکھتا ہے تو کیسے نفی کروں ۔ ابھی تو کلمہ پڑھا ہی نہیں ، ابھی تو نفی تک نہیں کی تو کیسے کہوں میں نے عشق کیا ہے ۔ جن کے نصیب میں بہاریں ہوں گی وہ بہار لیے دیے گئے ! ہم جیسے تو ان کے قدموں کی دھول ہوتے ہیں کہ شاید کوئی آفتاب ذرے کو توانائی بخشے اور اسکو اجال دے ! کل سے سوچ رہی ہوں کیا اسکے استعاراتی معانی سمجھ میں آرہے تو مجھے تو بس اسمیں ایک ٹھاکر ہی نطر آتا ہے جودل میں بڑی شان سے براجمان ہے اور کہتا ہے کہ صنم اندر ہے باہر کیا دیکھتی ہو ۔ اندر اجیارا ہے باہر کیا دیکھتی ہو ۔ اندر جلوہ ہے باہر کیا دید کرو گی ۔ اندر سب کچھ ہے باہر کیا ۔ قران بھی اندر ہے باہر سب لفظ ہیں ۔ نماز ، سجدہ ، حج بھی اندر ہے باہر کیا دیکھو گی ۔میں جب یہ سنتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ مجھے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں جستجو رکھو مگر وہی جستجو بھی خود تنگ کرتی ہے لاکھ اسکو پرے دھیکیلو کہ ہٹو دنیا دیکھنی ہے ۔ دنیا چلتی ہے شعور سے ، یہ وجدان ، یہ سب خیالی باتیں جن سے دل بہلتا ہے اور وہ میرا دل بہلانے کا ذریعہ بھی نہیں ہے اسلیے ہر جستجو کا در بند کردیا ہے اور یہ اب تب ہی کھلے گا جب وہ مجھے جواب دے گا میرے اس سوال کا جس کی مجھے تلاش ہے !
 

فرقان احمد

محفلین
شاعری میں کسی قدر مبالغہ آمیزی ہوتی ہے اور یہ روا ہے تاہم معاملہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ بابا بلھے شاہ کی اس نظم کا موضوع عرفانِ نفس ہے اور انسان کو درپیش بنیادی نوعیت کے ازلی سوالات ہیں کہ جن سے ہر حساس اور متفکر انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ شاعر نے خود کلامی کے ذریعے سوچ کے ان مراحل کو خوب صورت شعری لہجے میں ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور سچ بات ہے کہ شعری صورت میں پیش کردہ معرفت کی یہ باتیں ان ہزاروں کتابوں پر بھاری ہیں جو فلسفیانہ مسائل سے بھری پڑی ہیں، شاید یہی شعری منطق کا اعجاز بھی ہے۔ دیکھا جائے تو بعض سوالات ذات سے متعلق ہوا کرتے ہیں اور بعض سماج سے متعلق۔ اس کلام میں ذات سے متعلقہ وہ سوالات ہیں جو کہ انسان کے خدا اور کائنات بلکہ انسان اور خدا کے تعلق سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں صاحبانِ علم نے صحیح معنوں میں ہماری بہترین رہنمائی کی ہے اور امید ہے کہ ہم بھی فلسفیانہ بحثوں میں جائے بغیر ایک کلیدی نکتہ سمجھ لیں گے اور وہ خدا شناسی بذریعہ خودشناسی! واللہ اعلم بالصواب!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا
مسجد کولوں جیوڑا ڈریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا
جتھے وجدے ناد ہزار
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں رمز عشق دی پائی
مینا طوطا مار گوائی
اندر باہر ہوئی صفائی
جت ول ویکھاں یار و یار
عشق دی نویوں نویں بہار
ہیر رانجھے دے ہو گئے میلے
بھُلی ہیر ڈھوڈیندی بیلے
رانجھا یار بکل وچ کھیلے
مینوں سدھ رہی نہ سار
عشق دی نویوں نویں بہار
بید قرآناں پڑھ پڑھ تھکے
سجدے کر دیاں گھس گئے متھے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکے
جس پایا تس نور انوار
عشق دی نویوں نویں بہار
پھوک مصلیٰ بھن سٹ لوٹا
نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا
عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں کھا مردار
عشق دی نویوں نویں بہار
عمر گوائی وچ مسیتی
اندر بھریا نال پلیتی
کدے نماز توحید نہ نیتی
ہن کیہ کرنائیں شور پُکار
عشق دی نویوں نویں بہار
عشق بھلایا سجدہ تیرا
ہن کیوں اینویں پاویں جھیڑا
بلھا ہوندا چپ بتیرا
عشق کریندا مارو مار
عشق دی نویوں نویں بہار
(بلھے شاہ)

مشکل لفظاں دے معنے

ٹھاکر۔رب، مندر وچ رکھے بت نوں وی ٹھاکر کہندے ہین
مینا۔ بولن والی طوطی
بیلے۔ جنگل
بید۔وید، چار وید، رگ وید، سام وید، اتھر وید تے یجر وید
تیرتھ۔ پاک تھاواں تے نہاونا، ہندومت وچ عقیدہ ہے جو کئی تیرتھ ہین، بوہتے مشہور، بنارس، ہردوار، رامیشورم، ترپتی وغیرہ
انوار۔ چانن
مصلیٰ۔ دری جیس تے نماز پڑھی جاندی ہے
عاصا۔ مولانا لوکاں دے ہتھ وچ پھڑی کھونڈی
ترک۔ چھڈ دینا، کسے شے توں توبہ کر لینا
توحید۔ اکائی، عام طور تے رب دے اک ہوون لئی ورتیا جاندا ہے

استعاراتی معانی سمجھائے جاتے ہیں سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں ۔ اسوقت سے حیرت ہوں میں ''کیہ جاناں میں کون '' سے عشق دی نوی نوی بہار '' کے بارے میں کیا لکھوں ! کیا دل میں عشق کے تار چھڑچکے ہیں مگر نہ تو میرے پاس یقین کی وہ دولت ہے جس کی سواری پر عشق کی صعوبتوں کو برداشت کرسکوں ۔ سوچتی ہوں کہ کبھی کبھی لگتا ہے وہ دل میں چھپا بیٹھا مجھے دیکھ کے کہتا ہے کہ میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم تصویر ہو میری اور اگر تم خود کو تصویر کرلو تو میں تمھیں دکھ جاؤں ! مگر یہی کہ اسکی بات میں کیسے مانوں ، میں ایک چھوٹی سی تصویر یعنی ذرہ اور پوری کائنات اس کا فریم ۔۔۔۔۔وہ مجھ پر نظر رکھنے پر قادر ہے مگر میں اتنی لامحدودیت کہاں سے لاؤں کہ اسے دیکھ سکوں ۔جب سوچتی ہوں اسے دیکھ نہیں سکتی تو فائدہ محبت کی جو نظارے سے محروم ہے ، فائدہ جو اسکے ساتھ کو محسوس کرنا چاہتی ہے اسلیے دل میں آج کل ہر اس بات کو رد کیے جارہی ہوں جس سے مجھے لگے کہ میں اس سے محبت میں ہوں ۔اسطرح کرنے سے مجھے اپنے اندر کی ساری کثافتیں نظر آنے لگی ہیں ۔ اپنے گناہ بھی ! میں گناہ گار ہوں ، میری شبیہ پر داغ ہیں میں اسکو کیسے دیکھ سکتی ہوں ، دل کے اجلے دامن پر ایک داغ بھی پڑجائے تو تصویر پوری نظر نہیں آتی جب عکس مکمل نہ بنے تو تب انسان بڑا ادھورا ہوجاتا ہے ۔ جو استعارا ، رمز ہے وہ سمجھ سے باہر ہوتا ہے مگر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی در وا ہوتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کتنا ادھورا ہے ۔ جیسے مجھے محسوس ہوتا ہے لکھنا بالکل ایک اضافی سی بات ان جذبات کو قرطاس پر لکھنے کے لیے اور اسکو لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ آج کل ایک ایسی انہونی سی کیفیت ہے کہ وہ ہے تو دکھتا کیوں نہیں ہے اور نہیں دکھتا ہے تو کیسے نفی کروں ۔ ابھی تو کلمہ پڑھا ہی نہیں ، ابھی تو نفی تک نہیں کی تو کیسے کہوں میں نے عشق کیا ہے ۔ جن کے نصیب میں بہاریں ہوں گی وہ بہار لیے دیے گئے ! ہم جیسے تو ان کے قدموں کی دھول ہوتے ہیں کہ شاید کوئی آفتاب ذرے کو توانائی بخشے اور اسکو اجال دے ! کل سے سوچ رہی ہوں کیا اسکے استعاراتی معانی سمجھ میں آرہے تو مجھے تو بس اسمیں ایک ٹھاکر ہی نطر آتا ہے جودل میں بڑی شان سے براجمان ہے اور کہتا ہے کہ صنم اندر ہے باہر کیا دیکھتی ہو ۔ اندر اجیارا ہے باہر کیا دیکھتی ہو ۔ اندر جلوہ ہے باہر کیا دید کرو گی ۔ اندر سب کچھ ہے باہر کیا ۔ قران بھی اندر ہے باہر سب لفظ ہیں ۔ نماز ، سجدہ ، حج بھی اندر ہے باہر کیا دیکھو گی ۔میں جب یہ سنتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ مجھے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں جستجو رکھو مگر وہی جستجو بھی خود تنگ کرتی ہے لاکھ اسکو پرے دھیکیلو کہ ہٹو دنیا دیکھنی ہے ۔ دنیا چلتی ہے شعور سے ، یہ وجدان ، یہ سب خیالی باتیں جن سے دل بہلتا ہے اور وہ میرا دل بہلانے کا ذریعہ بھی نہیں ہے اسلیے ہر جستجو کا در بند کردیا ہے اور یہ اب تب ہی کھلے گا جب وہ مجھے جواب دے گا میرے اس سوال کا جس کی مجھے تلاش ہے !
"عشق دی نویوں نویں بہار" کی تشریح پر گوجرانوالہ کے کسی نواحی علاقے کے ایک صوفی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے "بحرِ بُلھا"۔ کافی عرصہ قبل ، طالب علمی کے زمانے میں مجھے ایک کرم فرما نے تحفے میں دی تھی، انتہائی معلوماتی اور مفید کتاب ہے، اگر کہیں سے مل سکے تو اس کا مطالعہ بلھے شاہ کو سمجھنے کے لیے مفید رہے گا۔
 

La Alma

لائبریرین
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں سبق عشق دا پڑھیا
مسجد کولوں جیوڑا ڈریا
ڈیرے جا ٹھاکر دے وڑیا
جتھے وجدے ناد ہزار
عشق دی نویوں نویں بہار
جاں میں رمز عشق دی پائی
مینا طوطا مار گوائی
اندر باہر ہوئی صفائی
جت ول ویکھاں یار و یار
عشق دی نویوں نویں بہار
ہیر رانجھے دے ہو گئے میلے
بھُلی ہیر ڈھوڈیندی بیلے
رانجھا یار بکل وچ کھیلے
مینوں سدھ رہی نہ سار
عشق دی نویوں نویں بہار
بید قرآناں پڑھ پڑھ تھکے
سجدے کر دیاں گھس گئے متھے
نہ رب تیرتھ نہ رب مکے
جس پایا تس نور انوار
عشق دی نویوں نویں بہار
پھوک مصلیٰ بھن سٹ لوٹا
نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا
عاشق کہندے دے دے ہوکا
ترک حلالوں کھا مردار
عشق دی نویوں نویں بہار
عمر گوائی وچ مسیتی
اندر بھریا نال پلیتی
کدے نماز توحید نہ نیتی
ہن کیہ کرنائیں شور پُکار
عشق دی نویوں نویں بہار
عشق بھلایا سجدہ تیرا
ہن کیوں اینویں پاویں جھیڑا
بلھا ہوندا چپ بتیرا
عشق کریندا مارو مار
عشق دی نویوں نویں بہار
(بلھے شاہ)

مشکل لفظاں دے معنے

ٹھاکر۔رب، مندر وچ رکھے بت نوں وی ٹھاکر کہندے ہین
مینا۔ بولن والی طوطی
بیلے۔ جنگل
بید۔وید، چار وید، رگ وید، سام وید، اتھر وید تے یجر وید
تیرتھ۔ پاک تھاواں تے نہاونا، ہندومت وچ عقیدہ ہے جو کئی تیرتھ ہین، بوہتے مشہور، بنارس، ہردوار، رامیشورم، ترپتی وغیرہ
انوار۔ چانن
مصلیٰ۔ دری جیس تے نماز پڑھی جاندی ہے
عاصا۔ مولانا لوکاں دے ہتھ وچ پھڑی کھونڈی
ترک۔ چھڈ دینا، کسے شے توں توبہ کر لینا
توحید۔ اکائی، عام طور تے رب دے اک ہوون لئی ورتیا جاندا ہے

استعاراتی معانی سمجھائے جاتے ہیں سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں ۔ اسوقت سے حیرت ہوں میں ''کیہ جاناں میں کون '' سے عشق دی نوی نوی بہار '' کے بارے میں کیا لکھوں ! کیا دل میں عشق کے تار چھڑچکے ہیں مگر نہ تو میرے پاس یقین کی وہ دولت ہے جس کی سواری پر عشق کی صعوبتوں کو برداشت کرسکوں ۔ سوچتی ہوں کہ کبھی کبھی لگتا ہے وہ دل میں چھپا بیٹھا مجھے دیکھ کے کہتا ہے کہ میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم تصویر ہو میری اور اگر تم خود کو تصویر کرلو تو میں تمھیں دکھ جاؤں ! مگر یہی کہ اسکی بات میں کیسے مانوں ، میں ایک چھوٹی سی تصویر یعنی ذرہ اور پوری کائنات اس کا فریم ۔۔۔۔۔وہ مجھ پر نظر رکھنے پر قادر ہے مگر میں اتنی لامحدودیت کہاں سے لاؤں کہ اسے دیکھ سکوں ۔جب سوچتی ہوں اسے دیکھ نہیں سکتی تو فائدہ محبت کی جو نظارے سے محروم ہے ، فائدہ جو اسکے ساتھ کو محسوس کرنا چاہتی ہے اسلیے دل میں آج کل ہر اس بات کو رد کیے جارہی ہوں جس سے مجھے لگے کہ میں اس سے محبت میں ہوں ۔اسطرح کرنے سے مجھے اپنے اندر کی ساری کثافتیں نظر آنے لگی ہیں ۔ اپنے گناہ بھی ! میں گناہ گار ہوں ، میری شبیہ پر داغ ہیں میں اسکو کیسے دیکھ سکتی ہوں ، دل کے اجلے دامن پر ایک داغ بھی پڑجائے تو تصویر پوری نظر نہیں آتی جب عکس مکمل نہ بنے تو تب انسان بڑا ادھورا ہوجاتا ہے ۔ جو استعارا ، رمز ہے وہ سمجھ سے باہر ہوتا ہے مگر کبھی کبھی کوئی نہ کوئی در وا ہوتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کتنا ادھورا ہے ۔ جیسے مجھے محسوس ہوتا ہے لکھنا بالکل ایک اضافی سی بات ان جذبات کو قرطاس پر لکھنے کے لیے اور اسکو لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ آج کل ایک ایسی انہونی سی کیفیت ہے کہ وہ ہے تو دکھتا کیوں نہیں ہے اور نہیں دکھتا ہے تو کیسے نفی کروں ۔ ابھی تو کلمہ پڑھا ہی نہیں ، ابھی تو نفی تک نہیں کی تو کیسے کہوں میں نے عشق کیا ہے ۔ جن کے نصیب میں بہاریں ہوں گی وہ بہار لیے دیے گئے ! ہم جیسے تو ان کے قدموں کی دھول ہوتے ہیں کہ شاید کوئی آفتاب ذرے کو توانائی بخشے اور اسکو اجال دے ! کل سے سوچ رہی ہوں کیا اسکے استعاراتی معانی سمجھ میں آرہے تو مجھے تو بس اسمیں ایک ٹھاکر ہی نطر آتا ہے جودل میں بڑی شان سے براجمان ہے اور کہتا ہے کہ صنم اندر ہے باہر کیا دیکھتی ہو ۔ اندر اجیارا ہے باہر کیا دیکھتی ہو ۔ اندر جلوہ ہے باہر کیا دید کرو گی ۔ اندر سب کچھ ہے باہر کیا ۔ قران بھی اندر ہے باہر سب لفظ ہیں ۔ نماز ، سجدہ ، حج بھی اندر ہے باہر کیا دیکھو گی ۔میں جب یہ سنتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ مجھے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں جستجو رکھو مگر وہی جستجو بھی خود تنگ کرتی ہے لاکھ اسکو پرے دھیکیلو کہ ہٹو دنیا دیکھنی ہے ۔ دنیا چلتی ہے شعور سے ، یہ وجدان ، یہ سب خیالی باتیں جن سے دل بہلتا ہے اور وہ میرا دل بہلانے کا ذریعہ بھی نہیں ہے اسلیے ہر جستجو کا در بند کردیا ہے اور یہ اب تب ہی کھلے گا جب وہ مجھے جواب دے گا میرے اس سوال کا جس کی مجھے تلاش ہے !
علم ہو ،عزت ہو یا محبت، ان کی مثال رزق جیسی ہے ، اور وہ بھی رزقِ حلال جیسی ، جو محنت سے کمائی جاتی ہے. اس کے حصول کے لیے در در پر دستک نہیں دی جاتی . جگہ جگہ صدا نہیں لگائی جاتی .کیونکہ اس کے بدلے میں صرف اور صرف بھیک ملتی ہے . کشکول بھر بھی جائے تو کیا، عزتِ نفس جاتی رہتی ہے . جتنی نصیب ہو اسی پر قناعت کرنا بہتر ہے . قناعت میں ہی اطمینانِ قلب ہے .
آپ کے خیالات زریں ہیں . کھوج اور طلب سچی ہے . لیکن خیالات جیسے وارد ہوتے ہیں ، انھیں من و عن صفحہِ قرطاس پر اتار دینا بہتر نہیں . کچھ راز و نیاز بندے اور خدا کے مابین ہوتے ہیں. یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ کی ہر دعا ، ہر سرگوشی ، ہر خود کلامی کا علم دوسروں کو بھی ہو . بےاختیاری کی ہر کیفیت ، ہر روحانی جذبہ خالص آپ کا اپنا ہے اور اس کا رازدان بجز خدا کوئی نہیں ہونا چاہیے .اگر اس کیفیت کو کسی شعر یا نثر پارے کی صورت ڈھالنا بھی ہو تو کافی کچھ فلٹر کرنا پڑتا ہے . خدا غفور الرحیم ہے . بندے مواخذہ کر سکتے ہیں .
آپ کی زیادہ تر تحریروں میں ایک اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے. شاید آپ ہر چیز کو حق الیقین سے دیکھنا چاہتی ہیں . سب سوالوں کا فوری جواب چاہتی ہیں . اپنے دامن میں سب کچھ بھر لینا چاہتی ہیں لیکن ایسا کسی طور ممکن نہیں . ہر سوال کا جواب ملنا بھی نہیں چاہیے . سب ظاہر ہو جائے تو باقی کیا بچے . اس جستجو اور طلب کو نعمتِ خداوندی سمجھئے. اپنے لیے اذیت کا سامان مت بنائیے اور بہت خوش رہا کیجئے .
 

نور وجدان

لائبریرین
"عشق دی نویوں نویں بہار" کی تشریح پر گوجرانوالہ کے کسی نواحی علاقے کے ایک صوفی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے "بحرِ بُلھا"۔ کافی عرصہ قبل ، طالب علمی کے زمانے میں مجھے ایک کرم فرما نے تحفے میں دی تھی، انتہائی معلوماتی اور مفید کتاب ہے، اگر کہیں سے مل سکے تو اس کا مطالعہ بلھے شاہ کو سمجھنے کے لیے مفید رہے گا۔
یہ کتاب گوگل پر دستیاب نہیں ہے۔ شاید مصنف کا نام مدد کرسکے ۔ آپ بذاتِ خود ایک مکتب ہیں ، کتاب بھی پڑھ رکھی ہے تو آپ کی زبانی کچھ تشریح ہوجائے اور اسکو سمجھنے کا لطف بھی مل سکے
 

نور وجدان

لائبریرین
علم ہو ،عزت ہو یا محبت، ان کی مثال رزق جیسی ہے ، اور وہ بھی رزقِ حلال جیسی ، جو محنت سے کمائی جاتی ہے. اس کے حصول کے لیے در در پر دستک نہیں دی جاتی . جگہ جگہ صدا نہیں لگائی جاتی .کیونکہ اس کے بدلے میں صرف اور صرف بھیک ملتی ہے . کشکول بھر بھی جائے تو کیا، عزتِ نفس جاتی رہتی ہے . جتنی نصیب ہو اسی پر قناعت کرنا بہتر ہے . قناعت میں ہی اطمینانِ قلب ہے .
آپ کے خیالات زریں ہیں . کھوج اور طلب سچی ہے . لیکن خیالات جیسے وارد ہوتے ہیں ، انھیں من و عن صفحہِ قرطاس پر اتار دینا بہتر نہیں . کچھ راز و نیاز بندے اور خدا کے مابین ہوتے ہیں. یہ بالکل ضروری نہیں کہ آپ کی ہر دعا ، ہر سرگوشی ، ہر خود کلامی کا علم دوسروں کو بھی ہو . بےاختیاری کی ہر کیفیت ، ہر روحانی جذبہ خالص آپ کا اپنا ہے اور اس کا رازدان بجز خدا کوئی نہیں ہونا چاہیے .اگر اس کیفیت کو کسی شعر یا نثر پارے کی صورت ڈھالنا بھی ہو تو کافی کچھ فلٹر کرنا پڑتا ہے . خدا غفور الرحیم ہے . بندے مواخذہ کر سکتے ہیں .
آپ کی زیادہ تر تحریروں میں ایک اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے. شاید آپ ہر چیز کو حق الیقین سے دیکھنا چاہتی ہیں . سب سوالوں کا فوری جواب چاہتی ہیں . اپنے دامن میں سب کچھ بھر لینا چاہتی ہیں لیکن ایسا کسی طور ممکن نہیں . ہر سوال کا جواب ملنا بھی نہیں چاہیے . سب ظاہر ہو جائے تو باقی کیا بچے . اس جستجو اور طلب کو نعمتِ خداوندی سمجھئے. اپنے لیے اذیت کا سامان مت بنائیے اور بہت خوش رہا کیجئے .

سوال سرِ عام تب کیا جاتا ہے جب آگہی نہیں ہوتی ہے ۔انسان پر جب کچھ نیا وارد ہوتا ہے تو سمجھنے کی قوت سلب ہوجاتی ہے ۔ میں نے شاید دوتین سوالات رکھے جسمیں اپنی کیفیت کو جاننا مقصود تھا کہ مجھ پرجو بیتا ، وہ ہے کیا ۔۔۔ اس پر یقین کیا جائے یا بے یقین رہا جائے ۔ اس کشمکش میں سوال بنا سوال کے شروع ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے لکھے سے مکمل متفق ہوں اور اسپر اس سے پہلے کافی حد تک عمل بھی شروع کیا ہوا ہے۔ آپ کے لیے دعا ! خوش رہیں
 

فرقان احمد

محفلین
"عشق دی نویوں نویں بہار" کی تشریح پر گوجرانوالہ کے کسی نواحی علاقے کے ایک صوفی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے "بحرِ بُلھا"۔ کافی عرصہ قبل ، طالب علمی کے زمانے میں مجھے ایک کرم فرما نے تحفے میں دی تھی، انتہائی معلوماتی اور مفید کتاب ہے، اگر کہیں سے مل سکے تو اس کا مطالعہ بلھے شاہ کو سمجھنے کے لیے مفید رہے گا۔
یہ کتاب گوگل پر دستیاب نہیں ہے۔ شاید مصنف کا نام مدد کرسکے ۔ آپ بذاتِ خود ایک مکتب ہیں ، کتاب بھی پڑھ رکھی ہے تو آپ کی زبانی کچھ تشریح ہوجائے اور اسکو سمجھنے کا لطف بھی مل سکے
صرف اتنی معلومات مل پائی ہیں، اگر یہ کتاب آن لائن میسر آ گئی تو آپ کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
'بحر بُلھا'
صوفی محمد دین کمبوہ چشتی نظامی
چشتی سنز پبلی کیشنز، 1995، قصور
اور اگر جامعہء پنجاب کی طرف آپ کا رُخ ہو جائے تو یہ کتاب آپ کو مل جائے گی ۔۔۔ حوالہ: کتاب نمبر 3543 ۔۔۔!!!
 
آخری تدوین:
سوال سرِ عام تب کیا جاتا ہے جب آگہی نہیں ہوتی ہے ۔انسان پر جب کچھ نیا وارد ہوتا ہے تو سمجھنے کی قوت سلب ہوجاتی ہے ۔ میں نے شاید دوتین سوالات رکھے جسمیں اپنی کیفیت کو جاننا مقصود تھا کہ مجھ پرجو بیتا ، وہ ہے کیا ۔۔۔ اس پر یقین کیا جائے یا بے یقین رہا جائے ۔ اس کشمکش میں سوال بنا سوال کے شروع ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے لکھے سے مکمل متفق ہوں اور اسپر اس سے پہلے کافی حد تک عمل بھی شروع کیا ہوا ہے۔ آپ کے لیے دعا ! خوش رہیں
ان کیفیات کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کے دل پہ گزری ہوں۔
 
Top