صرف علی
محفلین
شہادت حضرت علی علیہ السلام
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت:حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت آپ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت ہے ۔یہ حضرت علی علیہ السلام کی مخصوص خصوصیت ہے نہ اس سے پہلے کسی کویہ شرف نصیب ہوا ہے اورنہ اس کے بعدہوگا ۔یہ کرامت اور معجزہ الہی ہے جو ذات احدیت نے دنیا کو دکھایا وہ بھی دروازے سے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی دیوارکو شق کرکے آپ کی والدہ کو اندر بلایا اور عمل ولادت خانہ الہی کے اندر انجام پایا۔یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا کی خاص عنایات آپ ؑ کے اوپر تھی ۔
شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام مکہ میں مسجد الحرام کے اندر جمعہ کے دن تیرہ رجب کو متولد ہوئے ۔آپ ؑ کی ولادت کے وقت عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ نے ہاتھیوں کے ذریعہ خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا)کے واقعہ کو تیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ آپ ؑ کے علاوہ نہ کوئی اورخانہ کعبہ میں متولدہوا ہے نہ ہی کوئی اسکے بعد اس منزلت اور عظمت کو حاصل کر سکے گا۔( الارشاد جلد ١ص٥ ۔)
ابن صباغ مالکی لکھتے ہےں : حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر مکہ میں متولد ہوئے اور کسی کو نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد یہ شرف حاصل ہے ۔ یہ وہ فضلیت ہے جو خدا نے آپ ؑ کے لئے مختص کی ہے اوریہ آپ ؑ کے مقام ومنزلت کی بلند ی کا اظہار کرتی ہے اور آپ کی کرامات میں سے ہے ۔( الفصول المہمۃ ص ٣٠۔)
عتاب بن اسید سے روایت کی گئی ہے کہ انہوںنے کہا : حضرت علی علیہ السلام مکہ میں بارہ سال نبوت سے پہلے خانہ کعبہ کے اندرجمعہ تیرہ رجب کو متولد ہوئے اور آپ ؑ کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھائیس سال کے تھے ۔( مرأۃ العقول ج ٥ ص ٢٧٦۔)
پس مشہور تاریخ تیرہ رجب جمعہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی ہے ۔پیغمبر اکرم ؐعام الفیل کے سال متولد ہوئے تھے اور وفات کے موقع پر ٦٣ سال کے تھے تو اس لحاظ سے آپ کی ولادت ٥٦٩سے ٥٧٠ عیسوی بتائی گئی ہے اور حضرت علی ؑ کی ولادت کے وقت پیغمبراکرم ؐ کی عمر شریف ٣٠ سال لکھا گیا ہے تو اسی طرح حضرت علی ؑ کی ولادت ٥٩٩ عیسوی یا ٦٠٠ عیسوی بنتی ہے ۔( دانش نامہ اما م علی ؑ ج ٨ ص١٢ ۔)
حضرت علی علیہ السلام کے والد گرامی:
آپ ؑ کے والد جناب عبد مناف معروف بہ ابوطالب ابن عبد المطلب ہیں اور حضرت عبداللہ( والد گرامی پیغمبراکرم ؐ )کے بھائی ہیں اور اسی طرح حضرت علی ؑ اور پیغمبر اکرم ؐ چچا زاد بھائی ہےں ۔حضرت ابو طالب کے نام پر اختلاف نظرہے کچھ حضرات نے آپ کے نام اور کنیہ کو ایک ہی لکھا ہے یعنی ابوطالب (مروج الذہب ج ٣ ص ٢٦٩الاصابہ جلد٤ ص ١١٥۔)مگرکچھ حضرات نے آپ کا نام عبدمناف ذکر کیا ہے ۔( انساب الاشراف ج ٢ ص ٢٣ السیرۃ الحلبیہ ج ١ ص ١٣٤ مروج الذہب ج ٣ ص ٢٦٩۔ ) اور کچھ نے عمر ان نام بتایا ہے (الاصابہ ج ٤ ص ١١٥ ۔)مگر صحیح یھی ہے کہ آپ کا نام عبدمناف تھا ۔ بعد میں آپ کے بڑے بیٹے طالب کی وجہ سے آپ کو ابو طالب کہنے لگے اور اتنا زیادہ استعمال ہوا کہ آپ کے اصل نام کی جگہ لے لی۔ بلکہ یوں کہیں کہ کنیہ اصل نام کے اوپر چھاگیا۔( دانش نامہ حضرت علی ؑ ج ٨ ص ٦٤۔)حضرت ابوطالب کے چار بیٹے طالب ، عقیل ، جعفر، علی اور آپ کی بیٹیوں کے بارے میں اختلاف ہے کچھ حضرات نے دو بیٹیاںبنام فاختہ (ام ہانی ) اور جمانہ لکھاہے (مروج الذہب ج ٤ ص ٢٩٠ ۔)اور کچھ نے تین بیٹیاں لکھی ہےں ربطہ کا نام اضافہ کیاہے ۔( الطبقات ج ٨ ص ٢٦٧،دانش نامہ حضرت علی ؑ ج ٨ ص ٦٨۔)
عطا ،بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو طالب کا ا نتقال ہواتو پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا : اے چچا آپ نے صلہ رحم کیا خداوند آپ کو جزاء خیر عنا یت فرمائے ۔( تاریخ بغداد ج ١٣ص ١٩٦۔)امام شامی سے منقول ہے کہ :حضرت ابوطالب نے وفات کے موقع پر فرمایا: میں تم لوگوں کو خانہ کعبہ کی تعظیم اور تکریم کی سفارش کرتاہوں البتہ خدا کی رضایت اور خشنودی بھی اسی تعظیم اور تکریم خانہ کعبہ میں ہے ۔اور آخری بات جو آپ نے فرمائی وہ یہ تھی کہ : میں عبدا لمطلب کے دین پر پابندہوں ۔( قصہ کوفہ (بنقل از سبیل الہدی ج ٢ ص٥٦٢،) ص٣٠۔)
امام شامی کہتے ہیں : عبدالمطلب توحید پر اعتقاد کے ساتھ رخصت ہوا اور ابو طالب دین عبدا لمطلب پر پابند تھے اور انتقال کرگئے (قصہ کوفہ ص٣٠بنقل از سبیل الہدی.۔.)
حضرت علی علیہ السلام کی والدہ:
آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد ہیں ۔حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد دونوں ایک ہی قبیلہ سے ہیں ۔ مورخ حضرات نے آپ دونوں کی شادی کو قبیلہ ہاشمی کی ایک مرد اور عورت کے درمیان پہلی شادی قرار دی ہے اور اسی لحاظ سے یہ شادی خاص اہمیت کی حامل ہے ۔( الطبقات ج ٨ ص ٢٦٧،دانش نامہ حضرت علی ؑ ج ٨ ص ٦٨۔)حضرت فاطمہ بنت اسد بہت ہی خدا ترس خاتون تھیں پیغمبر اکرم ؐ آپ کو ماں کے طورپریاد فرماتے تھے کیونکہ آپ ؐ کو جناب فاطمہ سے ماں کی محبت حاصل ہوئی تھی۔
عطاء بن ابی رباح نے ابن عباس سے نقل کیاہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنی قمیض دی اور حکم دیا کہ اس سے کفن کریں ۔اور آپؐ خود قبر میں جا کر لیٹ گئے ۔ جب حضرت فاطمہ بنت اسد کی تدفین سے فارغ ہوئے تو کچھ افراد نے آپؐ سے سوال کیا :یارسول اللہؐ آپؐ نے کچھ ایسے کام انجام دیئے جو پہلے کبھی بھی انجام نہیں دیئے تھے ؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی قمیص سے کفن دیاتاکہ بہشتی لباس آپ کو پہنایا جائے اور قبر میں اس لئے لیٹا تاکہ قبرکے فشار سے محفوظ رہ سکے کیونکہ انہوں نے ابوطالب کی رحلت کے بعد میری بہترین خدمت کی تھی۔ (قصہ کوفہ ص ٣١بنقل از فرائد السمطین ج ١ ص ٣٧٨ح٣٠٨۔)