محمداحمد
لائبریرین
آج بہت عرصے بعد یاہو اکاؤنٹ کھولا تو بزمِ قلم کی ای میل میں یہ افسانہ / افسانچہ ملا ۔ اچھا لگا سو یہاں پیش کر رہا ہوں۔
آج آخری سال کے نتائج کا اعلان ہُوا تھا۔ وہ شام ڈھلے نتیجہ ہاتھ میں تھامے کالج کے باہر کھڑا تھا۔ آج اُس کی پڑھائی کا برسوں سے چلا آ رہا سِلسلہ ختم ہو چکا تھا۔اب اُسے عملی زندگی میں قدم رکھنا تھا۔ جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں سے ایک سڑک سیدھے چوراہے تک جاتی تھی۔ چوراہے پر ایک سِگنَل تھا۔ جہاں ۔ ۔ ۔ ۔تمام سڑکیں ختم ہوکر دوبارہ شروع ہو جاتیں تھیں۔لیکن جو سڑک وہ اپنے ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، وہ بڑی طویل سڑک تھی۔ جس کا دوسرا سِرا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اُسے اب اُس سڑک پر بہت دُور تک چلنا تھا۔
تعلیم نے اُسے اپنی گود میں کچھ اِس طرح کھِلایا کہ کچھ محسوس ہی نہ ہونے دیا۔ یوں گُزرے اتنے سارے برس ۔۔۔ کہ ہوں چند راتوں کے خواب۔ لیکن اب ! سویرا ہو چکا تھا۔ اُسے اُٹھنا تھا، ایک موڑ چُننا تھا اور چلنا تھا۔ ایک ایسے دور میں کہ جب مقابلہ بہت ہے۔ بھیڑ بہت ہے۔اس سے اچھے ۔ ۔ ۔ اور بہت اچھے۔ ۔ ۔پہلے ہی قسمت آزما رہے ہیں۔
سامنے ۔ ۔ ۔ ۔ سِگنل تھوڑی تھوڑی دیر میں رنگ بدل رہا تھا۔ لال ، پیلا اور سبز۔
گاڑیاں چلتیں ، رُکتیں ۔ ۔ ۔ پھر چلنے لگتیں۔ اُس کے ذہن میں بھی مختلف رنگوں کے خیالات
آ ۔ ۔ ۔ ۔ جا رہے تھے۔کچھ کر گزرنے کی خواہش اور ناکامی کا ایک انجانا سا خوف۔اِسی کشمکش میں اُس نے ایک مصَمم ارادہ کیا۔ ایک نئے سِرے سے اپنی سوچ کا تجزیہ کِیا۔ اپنی پوری توجہ مثبت پہلوؤں پر مرکوز کر دی اور آہستہ ۔ ۔ ۔ آہستہ قدم بڑھانے لگا۔
یہ بات تھی اب سے کچھ برس پہلے کی۔ اب وہ اپنے خیالوں میں نظر آنے والی اُس سڑک پر بہت دُورتک چل چکا تھا۔ آج اُس سِگنَل میں چھُپے راز کو اُس نے جان لیاتھا۔
لال ، پیلے اور سبز اِشاروں کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔اُس کے تجربات نے اُسے بتایا کہ راستے میں جہاں رکاوٹیں آتی ہیں، وہاں رُکنا پڑتا ہے۔ وہاں سے لَوٹا نہیں جاتا۔ اور جب سبز سِگنل مِل جاتا ہے تو اِنسان پھِر چل پڑتا ہے۔
آج کامیابی کی منزل پر پہنچ کر وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ ایسے کتنے تھے جو اُس کے ساتھ چلے تھے۔ لیکن کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی رکاوٹ کو دیکھ کر لَوٹ گیا تھا۔جب کہ ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ کو عبور کرنے کے بعدایک ہموار راستہ منتظر ہوتا تھا۔
کاش ۔ ۔ ۔ وہ رُکتے ، نہ لَوٹتے تو آج اُس کے ساتھ ہوتے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتے کہ یہ سفر کتنا مختصر تھا۔ کتنا آسان تھا۔ بس تھوڑے سے صبر ، تھوڑی سی محنت اور پختہ عزم کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِشارہ
(SIGNAL)
نادر خان سَر گِروہ
آج آخری سال کے نتائج کا اعلان ہُوا تھا۔ وہ شام ڈھلے نتیجہ ہاتھ میں تھامے کالج کے باہر کھڑا تھا۔ آج اُس کی پڑھائی کا برسوں سے چلا آ رہا سِلسلہ ختم ہو چکا تھا۔اب اُسے عملی زندگی میں قدم رکھنا تھا۔ جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں سے ایک سڑک سیدھے چوراہے تک جاتی تھی۔ چوراہے پر ایک سِگنَل تھا۔ جہاں ۔ ۔ ۔ ۔تمام سڑکیں ختم ہوکر دوبارہ شروع ہو جاتیں تھیں۔لیکن جو سڑک وہ اپنے ذہن کی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، وہ بڑی طویل سڑک تھی۔ جس کا دوسرا سِرا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اُسے اب اُس سڑک پر بہت دُور تک چلنا تھا۔
تعلیم نے اُسے اپنی گود میں کچھ اِس طرح کھِلایا کہ کچھ محسوس ہی نہ ہونے دیا۔ یوں گُزرے اتنے سارے برس ۔۔۔ کہ ہوں چند راتوں کے خواب۔ لیکن اب ! سویرا ہو چکا تھا۔ اُسے اُٹھنا تھا، ایک موڑ چُننا تھا اور چلنا تھا۔ ایک ایسے دور میں کہ جب مقابلہ بہت ہے۔ بھیڑ بہت ہے۔اس سے اچھے ۔ ۔ ۔ اور بہت اچھے۔ ۔ ۔پہلے ہی قسمت آزما رہے ہیں۔
سامنے ۔ ۔ ۔ ۔ سِگنل تھوڑی تھوڑی دیر میں رنگ بدل رہا تھا۔ لال ، پیلا اور سبز۔
گاڑیاں چلتیں ، رُکتیں ۔ ۔ ۔ پھر چلنے لگتیں۔ اُس کے ذہن میں بھی مختلف رنگوں کے خیالات
آ ۔ ۔ ۔ ۔ جا رہے تھے۔کچھ کر گزرنے کی خواہش اور ناکامی کا ایک انجانا سا خوف۔اِسی کشمکش میں اُس نے ایک مصَمم ارادہ کیا۔ ایک نئے سِرے سے اپنی سوچ کا تجزیہ کِیا۔ اپنی پوری توجہ مثبت پہلوؤں پر مرکوز کر دی اور آہستہ ۔ ۔ ۔ آہستہ قدم بڑھانے لگا۔
***************
یہ بات تھی اب سے کچھ برس پہلے کی۔ اب وہ اپنے خیالوں میں نظر آنے والی اُس سڑک پر بہت دُورتک چل چکا تھا۔ آج اُس سِگنَل میں چھُپے راز کو اُس نے جان لیاتھا۔
لال ، پیلے اور سبز اِشاروں کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔اُس کے تجربات نے اُسے بتایا کہ راستے میں جہاں رکاوٹیں آتی ہیں، وہاں رُکنا پڑتا ہے۔ وہاں سے لَوٹا نہیں جاتا۔ اور جب سبز سِگنل مِل جاتا ہے تو اِنسان پھِر چل پڑتا ہے۔
آج کامیابی کی منزل پر پہنچ کر وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ ایسے کتنے تھے جو اُس کے ساتھ چلے تھے۔ لیکن کوئی نہ کوئی، کسی نہ کسی رکاوٹ کو دیکھ کر لَوٹ گیا تھا۔جب کہ ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ کو عبور کرنے کے بعدایک ہموار راستہ منتظر ہوتا تھا۔
کاش ۔ ۔ ۔ وہ رُکتے ، نہ لَوٹتے تو آج اُس کے ساتھ ہوتے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتے کہ یہ سفر کتنا مختصر تھا۔ کتنا آسان تھا۔ بس تھوڑے سے صبر ، تھوڑی سی محنت اور پختہ عزم کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر 1996