اشتیاق احمد...
بچہن کے کئی دن تیزی سے نگاہوں کے سامنے سے گزر گئے...
ہم اور ہمارے کزنز، کلاس فیلوز اور دوست ہر نیا ناول پڑھنے کے بعد اس پر تبصرے کرتے. جس نے نہیں پڑھا ہوتا کانوں پر ہاتھ رکھ لیتا کہیں مجرم کا نام یا کہانی کا انجام نہ پتا چل جائے...
آپس میں ایک دوسرے کو ڈراوے بھی یہی دیتے، بتاؤں مجرم کا نام؟؟؟
یہ ڈراوا کام کرجاتا اور سب کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے...
گھر والوں نے کتاب پڑھنے پر کبھی نہیں ٹوکا. ہمارے تو خاندان کا آوے کا آوا بگڑا ہوا تھا...
چھوٹے ماموں پاکستان رہ کر انگلینڈ واپس جاتے تو سسپنس، جاسوسی، سب رنگ اور اسی قماش کے ڈائجسٹوں کے کارٹن ہمارے گھر پہنچاتے جاتے. ابا، اماں اور ہم لائن سے بیٹھے انہیں بھگتاتے جاتے...
بڑے ماموں کے گھر جاتے تو بڑی عمر کے کزنز کی الماری سے کرنل محمد خان، شفیق الرحمن اور ابن انشاء کی کتابوں پر ہاتھ صاف کرتے اور ہم عمر کزن کے ساتھ مل کر اشتیاق احمد کی کتابوں کی شامت بلائے رکھتے...
خالہ آتیں تو پاکیزہ، خواتین اور شمع جیسے ڈائجسٹ لے آتیں. اماں رات گئے تک انہیں پڑھتی رہتیں، معصوم ہیروئن پر ہونے والے مظالم پر آنسو بہاتیں اور ہم انہیں دیکھ دیکھ اپنی ہنسی دباتے...
خالہ کے یہاں جاتے تو ساری چنڈال چوکڑی طلسم ہوشربا، الف لیلی، ابن صفی، مظہر کلیم اور اشتیاق احمد کی کتابوں کے ذخیرہ میں گم رہتی...
ہر ماہ نیا ناول آنے کا بے چینی سے انتظار رہتا خاص کرخاص نمبر کا. روزانہ بک شاپ پر جاتے. انتہائی شوق اور تجسس سے پوچھتے انکل خاص نمبر آیا؟ نہیں بیٹا سن کے منہ لٹک جاتا. کب تک آئے گا؟ شاید دو تین روز اور لگ جائیں. ہمارا منہ مزید لٹک جاتا...
بچے تو تھے. رات کے اندھیرے میں جب مجرم گھر کے سارے حفاظتی انتظام توڑ کر پستول تھامے اچانک محمود فاروق فرزانہ کے سامنے آتا تو دل زور زور سے دھڑکنے لگتا. جب ان کی مجرم سے لڑائی ہوتی تو یہی خواہش ہوتی جلدی سے جیت جائیں...
ہر بار جب مجرم ہاتھ سے نکل جاتا تو دانت پیستے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہتا...
آخری صفحات میں جب کلائمیکس انتہا کو پہنچا ہوتا، مجرم مچھلی کی طرح ہاتھ سے پھسل پھسل جاتا، کسی طرح قابو میں نہیں آتا، تگنی کا ناچ نچائے رکھتا اور وہ گھن چکر بنے چو مکھی لڑتے رہتے تو ہمارا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہتا...
آخرکار جب ہماری ٹیم مجرم کو پکڑ کر اکرام کے حوالے کرتی تب جا کر سانس میں سانس آتا...
ارے ہائیں...
مجرم کے خوف سے ہمارے ہاتھوں کے طوطے ایسے اڑے کہ یاد ہی نہ رہا محاورات کی برسات بھی تو ان ناولز کا اٹوٹ انگ ہوا کرتی تھی!!!