عزیزی ابراہیم میاں، آداب!
میرے خیال میں ہماری آپ کی عمروں میں اتنا تفاوت تو ہے کہ ہم آپ کو بزرگانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے میاں کہہ کر مخاطب کرسکتے ہیں
خیر، مزاح برطرف، میں بھی آپ کی طرح علم سخن کا مبتدی ہی ہوں۔ آپ نے اظہارِ خیال کی دعوت دی، یہ محض آپ کا حسنِ ظن ہے۔ جزاک اللہ
جو کچھ بزرگوں سے سیکھا ہے، اس کی روشنی میں آپ کی اس کاوش پر کچھ تاثرات بیان کئے دیتا ہوں۔ اگر کوئی بات خلاف حقیقت قلم برداشتہ ہوجائے تو یہ میرے نقصِ فہم کا شاخسانہ سمجھئے گا۔ اساتذہ ہم جیسوں کی اغلاط کے مکلف نہیں۔
پہلا بات تو یہ کہ آپ کی کاوش دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ماشاءاللہ آپ کی طبیعت میں قدرتی طور پر موزونیت ہے جو اچھی شاعری کے لئے بہت اہم ہے اور اس کا آپ کو مستقبل میں یقیناً بہت فائدہ ہوگا۔
کافی مصرعے آپ نے درست موزوں کئے ہیں، جبکہ بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کا وزن ناقص ہے۔ مجھے اندازہ نہیں کہ عروض میں آپ کی فی الوقت کیا استعداد ہے، اور جو مصرعے آپ نے موزوں کئے ہیں وہ ارادتاً، حساب لگا کر کئے ہیں یا پھر طبعی موزونیت کی رہین منت ہیں۔ بہرحال، مشق جاری رکھیں گے تو ان شاءاللہ مزید بہتری آئے گی۔
میں نے کتبہ لے لیا ہے اب کفن درکار ہے
زندگی کی نظم میں مجھ کو سخن درکار ہے
دونوں مصرعے وزن میں تو پورے ہیں، اور قوافی بھی درست ہیں۔ یہ تو ہوئے مطلع کے پلس پوائنٹس۔
منفی پہلو یہ ہے کہ دونوں مصرعے باہم مربوط نہیں ہے، جس کی وجہ سے آپ کے مافی الضمیر کا ابلاغ نہیں ہو پا رہا! کتبے اور کفن کا زندگی کی نظم میں سخن سے آپ کے ذہن میں جو تعلق موجود ہے، قاری کے لئے اس تک رسائی حاصل کرنا کار از بس ہوگا۔ پھر یہ کہ ’’نظم میں سخن درکار ہونا‘‘ بھی ایک معنوی اعتبار سے ایک مہمل بات لگتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے بس کسی طرح سخن کو بطور قافیہ لانا تھا۔ ایسی روش کو دنیائے نقد میں قافیہ پیمائی یا عام زبان میں تک بندی کہا جاتا ہے جو ایک عملِ مزموم ہے۔
مختصراً یہ کہ آپ کا مطلع گو عروضی اعتبار سے درست، مگر معنوی اعتبار سے کمزور ہے۔
میں یہاں کوئی متبادل دانستہ طور پر تجویز نہیں کررہا ہے کہ اس مقام پر آپ خود مشق کرنا زیادہ سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ اوپر بیان کئے گئے نکات کی روشنی میں دوبارہ فکر کیجئے اور کوئی متبادل پیش کیجئے، جس میں دنوں مصرعے بے ربط نہ ہوں۔
ہم سفر کی روح سے ہموار ہوں راہیں تری
کون احمق تجھ سے سے گویا ہے بدن درکار ہے
دوسرے مصرعے میں ٹائپ کی غلطی کے سبب ایک ’’سے‘‘ زائد ہے، ورنہ وزن کا مسئلہ نہیں
تاہم روح سے راہ کا ہموار ہونا بھی کوئی محاورہ نہیں، بلکہ معنوی اعتبار سے ایک لغو بات ہی ہے۔
یوں سوچ کر دیکھیں
ہمسفر کی روح سے ناتہ جڑے تو بات ہو!
کون کہتا ہے ہمیں اس کا بدن درکار ہے
تھی جفا کش طبقے کی تعطیل لیکن وہ وہاں
کام پر مجبور تھے کہ آمدن درکار ہے
طبقے کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگتا۔
وہاں کہاں؟؟؟ اس طرح زوائد شعر میں غیرضروری ابہام پیدا کرتے ہیں، جن سے احتراز کرنا چاہیئے۔ پھر دونوں مصرعوں میں زمانہ بھی متضاد ہے۔ پہلے مصرعے میں صیغہ ماضی میں بات کی جارہی ہے، دوسرے کے اختتام تک صیغہ حال آجاتاہے۔ اصولاً یہاں آمدن درکار ’’تھی‘‘ کہنا چاہیئے تھا۔
دوسرے مصرعے میں کہ کا دوحرفی باندھنا درست نہیں جس کی وجہ سے وزن کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ ’’کہ‘‘ یک حرفی تقطیع کیا جاتا ہے، جبکہ ’’کے‘‘ دو حرفی۔
تیری باتوں سے نکھار آتا ہے خدو خال میں
جس طرح شعروں میں ندرت کو خبن درکار ہے
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ آپ خبن کا تلفط بفتح ب (خَ+بَنْ) کررہے ہیں، جو درست نہیں۔ خَبْنْ میں ب ساکن ہوتی ہے اور اسے خَبْ+نْ پڑھتے ہیں۔
اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ قافیہ بھی درست نہیں۔ چونکہ آپ نے مطلع فَن اور خَن کی تخصیص کردی ہے، اس لئے دیگر اشعار میں اس کی پابندی ضروری ہے۔ یعنی اب ہر قافیہ میں مشترک ن، جو یہاں حرف روی ہے، سے پہلے کے حرف کا مفتوح ہونا لازم ہے۔
ملت مسلم فرنگی جال میں محصور ہے
حضرت رومی کا وہ سوز کہن درکار ہے
پہلے مصرعہ ’’ہے‘‘ پر ختم ہو رہا ہے جو کہ غزل کا ردیف ہے۔ مطالع کے علاوہ ردیف کا کسی دوسرے شعر کے پہلے مصرعے کے اختتام پر وارد ہونا تقابل ردیفین کہلاتا ہے، جو شاعری کے معمولی عیوب میں شمار کیا جاتا ہے۔ جب تک انتہائی ناگزیر نہ ہو، اس سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
مجھ کو شہرت اور دولت کی کوئی لالچ نہیں
سب مسائل کو ترے کن کا اذن درکار ہے
یہاں بھی دوسرے مصرعے میں وزن کا مسئلہ ہے کیونکہ آپ نے اِذْن کو تلفظ درست نہیں کیا اور اسے اِذَن باندھا ہے۔ چونکہ اذن کی ذ ساکن ہوتی ہے، اس لئے یہ قافیہ بھی درست نہ ہوا!
دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے اس لئے بہتر ہے کہ دوبارہ فکر کرکے دیکھیں۔
امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ ہم سب ہی یہاں سیکھنے کی غرض سے موجود ہیں۔ حتمی بات کہنا تو اساتذۂ کرام کا منصب ہے۔
میں نسبتاً تفصیلی جواب اس لئے لکھ دیا تاکہ یہ نکات آپ کے ذہن نشین رہیں اور آپ مستقبل میں ان کی رعایت رکھ سکیں۔
دعاگو،
راحلؔ۔