منیر نیازی اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو ۔ منیر نیازی

فاتح

لائبریرین
اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو​
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو​
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد​
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو​
لائی ہے اب اُڑا کے گئے موسموں کی باس​
برکھا کی رُت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو​
دل کو ہجومِ نکہتِ مہ سے لہو کیے *​
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو​
پھرتے ہیں مثل موج ہوا شہر شہر میں​
آوارگی کی لہر ہے ہم ہیں دوستو​
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول​
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو​
منیر نیازی​
* فلم میں اس مصرع کو یوں گایا گیا ہے:
شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا

گلوکارہ: نسیم بیگم
موسیقی: رشید عطرے
فلم: شہید (1962)

گلوکارہ: مہناز

گلوکار: ڈاکٹر امجد پرویز

گلوکارہ: زرین حیدر

گلوکار: ڈاکٹر ابرار عمر اور علینہ شاہ
 
Top