راشد ماہیؔ
محفلین
جو محبت کی لاج رکھتے ہیں
کیا عجب ہی مزاج رکھتے ہیں
چاہے جتنے بھی غم زمانے کے
خندہِ اختلاج (بناوٹی مسکراہٹ)رکھتے ہیں
کیا عقیدہ کہ دیدِ یار کو ہی
ہر مرض کا علاج رکھتے ہیں
دم یہ آغوش میں تری نکلے
اور نہ کچھ احتیاج رکھتے ہیں
یہ زمانہ کہے ہے کافر پر
عشق و دیں امتزاج رکھتے ہیں
عشق کے تنگ و تار رستوں میں
دل ہی اپنا سراج رکھتے ہیں
کیا فقیروں کو جانے ہے دنیا
پاؤں میں تخت و تاج رکھتے ہیں
اک اشارے پہ یار کے عاشق
جان دینا رواج رکھتے ہیں
کیا لگائے گی دنیا دام اپنے
جس پہ ہم خود بیاج رکھتے ہیں
پا نشیں تیرے اک انوکھی ہی
عاشقوں میں براج رکھتے ہیں
کیا طلب ان کو بادشاہی کی
جو دل و جاں پہ راج رکھتے ہیں
ہم گلابوں سے نرم دل ماہیؔ
بڑا ظالم سماج رکھتے ہیں
کیا عجب ہی مزاج رکھتے ہیں
چاہے جتنے بھی غم زمانے کے
خندہِ اختلاج (بناوٹی مسکراہٹ)رکھتے ہیں
کیا عقیدہ کہ دیدِ یار کو ہی
ہر مرض کا علاج رکھتے ہیں
دم یہ آغوش میں تری نکلے
اور نہ کچھ احتیاج رکھتے ہیں
یہ زمانہ کہے ہے کافر پر
عشق و دیں امتزاج رکھتے ہیں
عشق کے تنگ و تار رستوں میں
دل ہی اپنا سراج رکھتے ہیں
کیا فقیروں کو جانے ہے دنیا
پاؤں میں تخت و تاج رکھتے ہیں
اک اشارے پہ یار کے عاشق
جان دینا رواج رکھتے ہیں
کیا لگائے گی دنیا دام اپنے
جس پہ ہم خود بیاج رکھتے ہیں
پا نشیں تیرے اک انوکھی ہی
عاشقوں میں براج رکھتے ہیں
کیا طلب ان کو بادشاہی کی
جو دل و جاں پہ راج رکھتے ہیں
ہم گلابوں سے نرم دل ماہیؔ
بڑا ظالم سماج رکھتے ہیں
آخری تدوین: