اصلاح درکار برائے غزل

عشق سے معمور ہو بس دل برشتہ ہی سہی
مے سے پر لبریز ہو ساغر شکستہ ہی سہی

سننے کو بے تاب ہیں ہم خامشی اب توڑ دو
کچھ تو بولو شیریں لب سے ناشائستہ ہی سہی

گر نہیں جلوہ دکھانا پردے میں آجاؤ تم
گر شگفتہ گل نہ دکھلاؤ تو غنچہ ہی سہی

مرنے کا ہم حوصلہ کر لیں تسلی گر ملے
یاں نہیں بس خلد میں ملنے کا وعدہ ہی سہی

عشق کے مذہب میں اپنا دل ہے مجنوں کا پیرو
جا نہیں محبوب کے دل میں تو صحرا ہی سہی

کیوں تکلّفِ چادرِ ابیض کہ دل ہے داغدار
میری میّت کے لئے یہ چاک کرتہ ہی سہی

بحث ہم سے نہ کرو جاؤ ہمیں منظور ہے
ہم گنہگارِ جہاں اور وہ فرشتہ ہی سہی

کارواں تک نہ بھی پہنچیں گرد تو پا لیں گے ہم
دکھ چھپانے کے لئے رخ پر یہ غازہ ہی سہی

قتل کرنا ہے تو یہ تلوار کیوں اے نازنیں
ظلم کرنا ہی ہے تو انداز شستہ ہی سہی

گر جنونِ عشق سے میرے انہیں کچھ خوف ہے
لے چلو اس در پہ ہم کو دست بستہ ہی سہی

اس جہاں میں قدر کیا آتش بیانی کی ہو شانؔ
یاں تو غالبؔ بھی تھا خستہ ہم بھی خستہ ہی سہی
 
برشتہ اور شکستہ میں حرفِ روی کا اختلاف ہے، اس لیے قوافی درست قرار نہیں دیے جا سکتے. بہتر ہو اگر مطلع میں ایسا قافیہ لائیں جس میں الف اصل روی ہو جیسے دریا، صحرا وغیرہ.
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشق کے مذہب میں اپنا دل ہے مجنوں کا پیرو
«پَیرَو» میں «ی» کا اِسقاط ہو رہا ہے۔ ایسا کوئی نمونہ میں نے فارسی شاعری میں نہیں دیکھا۔ کیا اردو شاعری میں ایسا جائز ہے؟ محمد ریحان قریشی

ضِمناً، فارسی میں اِس کا تلفُّظ «peyrow» (ایرانی) یا «payrav» (ماوراءالنہری) ہے۔
 
آخری تدوین:
«پَیرَو» میں «ی» کا اِسقاط ہو رہا ہے۔ ایسا کوئی نمونہ میں نے فارسی شاعری میں نہیں دیکھا۔ کیا اردو شاعری میں ایسا جائز ہے؟ محمد ریحان قریشی

ضِمناً، فارسی میں اِس کا تلفُّظ «peyrow» (ایرانی) یا «payrav» (ماوراءالنہری) ہے۔
ی کا اسقاط صرف سنسکرت اور ہندی سے ماخوذ الفاظ میں جائز ہے وہ بھی صرف تب جب ی آخری حرف ہو. عربی اور فارسی الاصل الفاظ میں آخری 'ی' گرانا بھی غیر مستحسن ہے.
 
آخری تدوین:
روی کا تعین کیسے کر رہے ہیں؟
پتا نہیں شکیب بھائی، عین ممکن ہے کہ غلطی پر ہوں. شکستہ اور برشتہ میں "تہ" مشترک ہے اگر اسے ایسے ہی رکھنا ہے تو شکستہ کے ساتھ خستہ، بستہ وغیرہ درست قوافی ہوں گے اور برشتہ کے ساتھ نوشتہ، رشتہ وغیرہ. ایسی صورت میں حروفِ روی بالترتیب س اور ش ہوں گے.
 
آخری تدوین:
برشتہ اور شکستہ میں حرفِ روی کا اختلاف ہے، اس لیے قوافی درست قرار نہیں دیے جا سکتے. بہتر ہو اگر مطلع میں ایسا قافیہ لائیں جس میں الف اصل روی ہو جیسے دریا، صحرا وغیرہ.

بھائی محمد ریحان قریشی صاحب! بہت شکریہ۔آپ نے جو توجہ دلائی ہے اس کے تحت تو مجھے بقیہ قوافی بھی مشکوک لگ رہے ہیں۔مہربانی فرما کر پوری غزل میں رہنمائی فرما دیں۔
 
بھائی محمد ریحان قریشی صاحب! بہت شکریہ۔آپ نے جو توجہ دلائی ہے اس کے تحت تو مجھے بقیہ قوافی بھی مشکوک لگ رہے ہیں۔مہربانی فرما کر پوری غزل میں رہنمائی فرما دیں۔
مطلع میں ایسا قافیہ لائیں جس میں الف اصل روی ہو جیسے دریا، صحرا وغیرہ.
اگر اس تجویز پر عمل کریں تو سب درست ہو جائیں گے.
 
شکریہ بھائی جان
مزید کچھ اصلاح چاہتا ہوں۔ میں نے اس غزل میں ’’ہ‘‘ یا ’’الف‘‘ کو حرفِ روی رکھا ہے۔ کیا اس حساب سے بھی مطلع میں نقص ہے؟
 
برشتہ اور شکستہ میں حرفِ روی کا اختلاف ہے، اس لیے قوافی درست قرار نہیں دیے جا سکتے. بہتر ہو اگر مطلع میں ایسا قافیہ لائیں جس میں الف اصل روی ہو جیسے دریا، صحرا وغیرہ.

بھائی میں نے اپنی سمجھ میں یہاں الف کو حرفِ روی رکھا ہے۔ کیا اس کی گنجائش نہیں ہے؟
 
Top