اصلاح درکار ہے

یوں نہ جینا تھا ہمیں جیسے جیے جاتے ہیں ہم
زخم سینے تھے ہمیں اور لب سیے جاتے ہیں ہم

یہ غم و اندوہ میرے یوں تو ٹلنے سے رہے
زہر پینا تھا ہمیں اور مے پیے جاتے ہیں ہم

ان کے آنے کی خبر تھی ہم چراغاں گھر کئے
آکے کہتے ہیں بجھا کے سب دیے جاتے ہیں ہم

لوگ کہتے تھے کہ مر کے سب یہیں رہ جائے گا
حسرت و یاس و الم سب کچھ لیے جاتے ہیں ہم

اس جہانِ نو میں الفت کے طریقے اور ہیں
یاں وفا چلتی نہیں اب جو کیے جاتے ہیں ہم

ایک جھوٹی بھی تسلی تک نہ دی جس نے ہمیں
شانؔ اس بیداد گر کو جاں دیے جاتے ہیں ہم
 

الف عین

لائبریرین
مجھے بھی یہی شعر روانی کا خواست گار لگا
اگر یوں کر دو تو شاید مدعا واضح ہو جائے
ان کے آنے کا سنا، ہم نے چراغاں کر دیا
 
Top