اصلاح سخن:

فاخر

محفلین
غزل
جمیع اساتذہ بالخصوص عالی جناب الف عین صاحب سے خصوصی گذارش :
شام دے ، ساز دے ، ماہ رو آج پھر
ہوگئی جشن کی ، جستجو آج پھر
ساقئ مے کدہ ، اک نظر بس ذرا
جام کی ہوگئی ، آرزو آج پھر
حسن کے اے خدا! چوم لوں لب ذرا
ہاں وہی رندہے، باوضو آج پھر
کوچہء غیر بھی مشک بو ہے کیوں ؟
رکھ دیئے ہیں قدم ، مشک بو آج پھر
یہ تصدق ترا، بن کے میں خوش بیاں
کر رہا ہوں مگر ، گفتگو آج پھر !
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کوچہء غیر بھی مشک بو ہے کیوں ؟
یہ مصرع بحر میں قید نہیں ہو رہا ۔ اسے پھرسے کہیں ۔
شام دے ، ساز دے ، ماہ رو آج پھر
مطلع میں ماہرو آپ کو ساز تو دے سکتا ہے شام دینا عجیب بات ہے ۔"شام ہے" البتہ ہوسکتا ہے کہ شام کے وقت آپ کو جستجو ہوئی اور آپ نے ساز طلب کر لیا ۔
مقطع میں پورا شعر "مگر" کے لفظ کا محل نہیں بنا رہا ۔
 

فاخر

محفلین
یہ مصرع بحر میں قید نہیں ہو رہا ۔ اسے پھرسے کہیں ۔

مطلع میں ماہ رو آپ کو ساز تو دے سکتا ہے شام دینا عجیب بات ہے ۔"شام ہے" البتہ ہوسکتا ہے کہ شام کے وقت آپ کو جستجو ہوئی اور آپ نے ساز طلب کر لیا ۔
مقطع میں پورا شعر "مگر" کے لفظ کا محل نہیں بنا رہا ۔
اس میں ’’مگر ‘‘ کی جگہ ’’صنم‘‘ کردیتے ہیں ،مگر الف عین صاحب کو ’’صنم‘‘ سے بیر ہے اور اسے ’’عامیانہ ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ :LOL::LOL::LOL::LOL: (اللہ ان کا ’’سایہء ھما‘‘ہمارے سروں پر دیر تک رکھے آمین )
’’شام دے‘‘ میں مجھے بھی یہی محسوس ہوا تھا ،اس کی جگہ تراکیب تو ڈھیر ساری دماغ میں کلبلارہی تھیں ،مگر وزن کی بندش کی وجہ سے ’’شام ‘‘ پر ہی اکتفاء کرنا پڑا ، اسے تھوڑی توجہ کے بعد درست کرتا ہوں ، اور جو مصرع بحر میں قید نہیں ہورہا ہے وہ اس لفظ ’’ ہے کیوں ‘‘ کی وجہ سے ہوگیا ، خیر! اس کی جگہ ’’کوچہء غیر بھی مشک بو ہوگیا ‘‘ کردیتے ہیں ۔ اصل میں تختی سامنے رکھ کر لکھنے کی وجہ سے کبھی کبھار ایسی ’’غلطئ ناگہاں‘‘ پیش آجاتی ہے۔
 

فاخر

محفلین
حسب وعدہ توجہ کے بعد کچھ درستگی ہوئی ہے ، اس درستگی کے بعد غزل دوبارہ آپ کی نذر ہے۔ الف عین صاحب اور @سیدعاطف علی صاحبان آپ کی رائے کا انتظار ہے۔
غزل
افتخاررحمانی فاخرؔ
’’طرب دے ، ساز دے ، ماہ رو آج پھر
ہوگئی جشن کی جستجو ، آج پھر
ساقی ٔ مے کدہ ، اک نظر بس ذرا
ہوگئی جام کی آرزو ، آج پھر
حسن کے اے خدا، چوم لوں لب ذرا
میں وہی رندہوں باوضو، آج پھر
کوچۂ غیر بھی مشک بوہوگیا
رکھ دیئے ہیں قدم ، مشک بو، آج پھر
یہ تصدق ترا، بن کے اک بے نوا
کر رہا ہوں صنم گفتگو ، آج پھر
دل سنبھالوں کہ جاں ، مشورہ بھی بتا
ہوگئے دفعتاً روبرو ، آج پھر‘‘
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ردیف پر بھی غور کریں کہ آج پھر کی معنویت سمجھ میں آ جائے۔ یعنی پہلے بھی ایسا ہوا ہے اور آج پھر ہونے جا رہا ہے
محبوب کو حسن کا خدا کہنا عجیب ہے
مشک بو دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا پسند نہیں آیا
تصدق ترا،؟ بے معنی لگتا ہے، صنم کے بارے میں معلوم ہی ہے سب کو
مشورہ بتایا نہیں جاتا، دیا جاتا ہے
مشورہ دے ذرا' کہنے میں کیا حرج تھا؟
روبرو کون ہو گئے؟ یہ تو بتایا ہی نہیں گیا؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
:LOL::LOL: اس كی جگہ کوئی اور لفظ جو اس بحر میں سما سکے آہی نہیں رہا تھا ؛ اس لیے طوعاً و کرہاً لایا گیا اس کے لیے معذرت چاہوں گا ۔
مجھے تو لگتا ہے صنم کے قبلیے کے بہت سے اور الفاظ بھی ہیں جو غزل میں گانوں گیتوں وغیرہ تاثر دیتے ہیں اور تغزل کے پختہ اثر کو زائل کرتے ہیں ۔ :)
ویسے اگرلفظ صنم بت کے معنوں میں ہو یا اصنام بتوں کے معنی میں ہو تو یہ تاثر پیدا نہیں ہوتا ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے تو لگتا ہے صنم کے قبلیے کے بہت سے اور الفاظ بھی ہیں جو غزل میں گانوں گیتوں وغیرہ تاثر دیتے ہیں اور تغزل کے پختہ اثر کو زائل کرتے ہیں ۔ :)
ویسے اگرلفظ صنم بت کے معنوں میں ہو یا اصنام بتوں کے معنی میں ہو تو یہ تاثر پیدا نہیں ہوتا ۔

میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بتخانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
 

فاخر

محفلین
طالب علمانہ کوشش کے بعد ایک بار پھر آپ کی خدمت میں پیش ہے : الف عین صاحب سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے ۔
غزل
نغمہ ٔ شوق دے ، ماہ رو آج پھر
ہوگئی جشن کی جستجو آج پھر
ساقی ٔ مے کدہ ، اک نظر بس ذرا
ہوگئی جام کی آرزو ، آج پھر
سجدۂ شوق کی ہو اجازت مجھے
اب وہی رند ہے باوضو ، آج پھر
کوچۂ غیر بھی عنبریں ہوگیا
رکھ دیئے ہیں قدم مشک بو ، آج پھر
یہ نوازش تری ، ہے کہ اک بے نوا
کررہا ہے ، مگر گفتگو ، آج پھر
دل سنبھالیں کہ جاں ،مشورہ دے ذرا
آگئے میری جاں روبرو، آج پھر
چہرہ ٔ یوسفی کو چھپالے ذرا
تجھ کو ہی دیکھتا ہے عدو ، آج پھر
مصحف عشق میں ، درج ہے واقعہ
ذکر تیرا چھِڑا ، کو بہ کو ، آج پھر
ِ
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
شروع کے اشعار تو درست ہو گئے ہیں تقریباً

یہ نوازش تری ، ہے کہ اک بے نوا
کررہا ہے ، مگر گفتگو ، آج پھر
... کوما غلط جگہ لگانے گئے ہیں

دل سنبھالیں کہ جاں ،مشورہ دے ذرا
آگئے میری جاں روبرو، آج پھر
... میری جاں آ گئے؟ شاید میری جاں بھرتی کا ہے
آ گئے وہ مرے روبرو.. . سے بات نہیں بن سکتی؟

چہرہ ٔ یوسفی کو چھپالے ذرا
تجھ کو ہی دیکھتا ہے عدو ، آج پھر
... سمجھ نہیں سکا

مصحف عشق میں ، درج ہے واقعہ
ذکر تیرا چھِڑا ، کو بہ کو ، آج پھر
... کس واقعہ کا ذکر ہے؟ سمجھ نہیں سکا
 
کوما ، اگر روانی میں بحر کساتهہ ہوتے کوما تهوڑا سا ٹهر سانس لینے کو بہتر نہیں اس کے بغیر نقش ہوتے
یا یوں اکثر غزلوں میں بهی ہے شاید کیفیت اور بحر نقش کرنے کو احساس الفاظ نہ ملے ایک بہتر غزل ایسے نہیں ہوسکتا روانی میں ہو کوما کے بغیر لڑی
 
جی نقطے کا مطلب مجهے اظہار خیال نہیں کرنا ہے ہاں میں نے دیکها موجود ہوں اور سمجهنے کی کوشش کر رہا
نقطہ ڈالنے کا مطلب یہ ہوتا ہے
 
کوما ، اگر روانی میں بحر کساتهہ ہوتے کوما تهوڑا سا ٹهر سانس لینے کو بہتر نہیں اس کے بغیر نقش ہوتے
یا یوں اکثر غزلوں میں بهی ہے شاید کیفیت اور بحر نقش کرنے کو احساس الفاظ نہ ملے ایک بہتر غزل ایسے نہیں ہوسکتا روانی میں ہو کوما کے بغیر لڑی
سفیر بھائی اردو ترجمہ بھی کردیتے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو ہمیں سمجھنے میں آسانی ہوجاتی!
 
جی حضور سادہ الفاظ اور مفہوم میں شعر ہے لڑی ہے
اس کے اندر یہ کوما جو لکهہ لیتے ہیں اس کی ضرورت ہے لڑی اور شعر میں خیال بحر کوما کے بغیر نہیں ہوسکتا
 
نہیں سادگی نہیں بعض اوقات سمجهنے کی کیفیت مجروح ہوتا ہے پکڑ دهکڑ خیال کی سوچ اور سمجهہ کی رکے ہوتے ہیں تو ضروری سمجها پوچها جائے جواب دے دیں اور مجهے بهی بہت برا محسوس ہوتا ہے کچهہ پوچهہ لیں
 
Top