اصلاح فرمائیے۔ ہیں زندگی کے راز تو پوشیدہ تہِ خاک

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جناب الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی سے اصلاح کی درخواست ہے


ہیں زندگی کے راز تو پوشیدہ تہِ خاک
کیوں تجھ کو لبھاتی ہے مگر وسعتِ افلاک

وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ اپنے
سینے کو میں نے کر لیا اپنی بُکا سے چاک

تسلیم کہ کچھ وجہِ مسرت نہیں ہوں میں
پر صاحبِ ادراک ہو کس طرح طربناک

اٹھا تری محفل سے جو طوفاں میں گھرا ہوں
ہر آن مَیں گردش مِیں ہوں مثلِ خس و خاشاک

حیرت میں ہے رضواں، کہ ہے آدم کہاں آباد
لوٹا وہاں سے جو بھی وہی لوٹا ہے نمناک

غافل نہیں ہے لطف بجز غفلتوں کے کچھ
جب گلیوں میں قزاقِ اجل پھرتا ہو بے باک

جز آس کچھ اے شافعِ محشر نہیں پلّے
امت میں تری ہوں مگر اے صاحبِ لولاک
 
آخری تدوین:
ہیں زندگی کے راز تو پوشیدہ تہِ خاک
کیوں تجھ کو لبھاتی ہے مگر وسعتِ افلاک
زندگی کی ی کا اسقاط ٹھیک نہیں۔

وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ اپنے
سینے کو میں نے کر لیا اپنی بُکا سے چاک
اگر میں درست شناخت کر پایا ہوں تو غالباً اس غزل کی بحر مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے۔
اس حساب سے دوسرے مصرعے میں گڑ بڑ ہے۔ ’’میں نے‘‘ محض منے تقطیع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بُکا کی الف کا اسقاط بھی ٹھیک نہیں۔ دھیان رہے کہ عربی و فارسی الاصل الفاظ میں حروفِ علت کا اسقاط بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔

تسلیم کہ کچھ وجہِ مسرت نہیں ہوں میں
پر صاحبِ ادراک ہو کس طرح طربناک
پہلے مصرعے میں نہیں کی ی کا اسقاط روانی میں خلل پیدا کر رہا ہے کہ آخری کے فعولن کے بجائے فاعلن ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ عجز بیان بھی محسوس ہوتا ہے۔ صاحبِ ادارک کو صرف مایوسیوں کا ہی کیوں ادراک ہے؟

اٹھا تری محفل سے جو طوفاں میں گھرا ہوں
ہر آن مَیں گردش مِیں ہوں مثلِ خس و خاشاک
پہلے مصرعے کی بنت کمزور ہے، تعقید بھی ہے۔ دوبارہ فکر کر کے دیکھیں۔

حیرت میں ہے رضواں، کہ ہے آدم کہاں آباد
لوٹا وہاں سے جو بھی وہی لوٹا ہے نمناک
رضوان سے داروغۂ جنت تک شاید ہر قاری نہ پہنچ پائے ۔۔۔ اس لیے عجز بیان کا احتمال رہے گا۔
دوسرے مصرعے میں وہاں کا محض ’’وہَ‘‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔

غافل نہیں ہے لطف بجز غفلتوں کے کچھ
جب گلیوں میں قزاقِ اجل پھرتا ہو بے باک
یہاں بھی پہلے مصرعے میں نہیں کی ی ساقط ہو رہی ہے، جو اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح غفلتوں میں ’’وں‘‘ کا گرانا بھی روانی متاثر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ مجھ پر تو مفہوم واضح نہیں ہوسکا۔

جز آس کچھ اے شافعِ محشر نہیں پلے
امت میں تری ہوں مگر اے صاحبِ لولاک
مگر کی معنویت سمجھ نہیں آسکی، کیونکہ پہلے مصرعے میں اس کے لیے کوئی حرف شرط موجود نہیں۔ اگر پہلے مصرعے میں ’’اِس آس کے سوا‘‘ کہا جاتا تو ٹھیک تھا۔
امت میں تری ہوں اے مرے صاحبِ لولاکﷺ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں دو بحور کا خلط ملط ہو گیا ہے، کچھ مصرعے دونوں میں تقطیع ہوتے بھی ہیں تو غلط جگہ حروف کو گرا کر۔ قافیے والا مصرع تو مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات میں تقطیع ہوتا ہی نہیں
پہلے مصرع کو ہیلو
ہیں زندگی کے راز تو پوشیدہ تہِ خاک
مفعول /مفاعیل/ مفاعیل/فعولن
میں زند /گ کے راز/ تو پوشی/ د تہ خاک
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
میں زند/ گی کے راز/ تو پوشی/ دہ تاہ جاک
پہلی بحر ہو تو زندگی درست نہیں آتا، دوسری بحر ہو تو تہِ خاک میں گڑبڑ ہوتی ہے۔ روائز کرو اور تقطیع کر کے دیکھو پھر دوبارہ اصلاح کے لئے پوسٹ کرو
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
زندگی کی ی کا اسقاط ٹھیک نہیں۔


اگر میں درست شناخت کر پایا ہوں تو غالباً اس غزل کی بحر مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہے۔
اس حساب سے دوسرے مصرعے میں گڑ بڑ ہے۔ ’’میں نے‘‘ محض منے تقطیع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بُکا کی الف کا اسقاط بھی ٹھیک نہیں۔ دھیان رہے کہ عربی و فارسی الاصل الفاظ میں حروفِ علت کا اسقاط بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔


پہلے مصرعے میں نہیں کی ی کا اسقاط روانی میں خلل پیدا کر رہا ہے کہ آخری کے فعولن کے بجائے فاعلن ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ عجز بیان بھی محسوس ہوتا ہے۔ صاحبِ ادارک کو صرف مایوسیوں کا ہی کیوں ادراک ہے؟


پہلے مصرعے کی بنت کمزور ہے، تعقید بھی ہے۔ دوبارہ فکر کر کے دیکھیں۔


رضوان سے داروغۂ جنت تک شاید ہر قاری نہ پہنچ پائے ۔۔۔ اس لیے عجز بیان کا احتمال رہے گا۔
دوسرے مصرعے میں وہاں کا محض ’’وہَ‘‘ تقطیع ہونا اچھا نہیں۔


یہاں بھی پہلے مصرعے میں نہیں کی ی ساقط ہو رہی ہے، جو اچھا نہیں لگتا۔ اسی طرح غفلتوں میں ’’وں‘‘ کا گرانا بھی روانی متاثر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ مجھ پر تو مفہوم واضح نہیں ہوسکا۔


مگر کی معنویت سمجھ نہیں آسکی، کیوں پہلے مصرعے میں اس کے کوئی حرف شرط موجود نہیں۔ اگر پہلے مصرعے میں ’’اِس آس کے سوا‘‘ کہا جاتا تو ٹھیک تھا۔
امت میں تری ہوں اے مرے صاحبِ لولاکﷺ
شاید ہم دونوں ساتھ ہی لکھ رہے تھے اپنا مراسلہ لیکن میں اپنا کام کرتے ہوئے لکھ رہا تھا، جب پوست کرنے کی نوبت آئی تو تم نے پوسٹ کر دیا تھا
 
شاید ہم دونوں ساتھ ہی لکھ رہے تھے اپنا مراسلہ لیکن میں اپنا کام کرتے ہوئے لکھ رہا تھا، جب پوست کرنے کی نوبت آئی تو تم نے پوسٹ کر دیا تھا
استاذی آپ کا لکھا بہر حال میرے لکھے پر مقدم ہے۔ جزاک اللہ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام
میں ںے طبع آزمائی کی جسارت تو بہرحال "مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن" میں ہی کی ہے۔ باقی میں آپ دونوں کی آراء کی روشنی میں ایک بار پھر کوشش کر کے آپ کی خدمت میں حاضر کرتا ہوں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہیں زندگی کے راز تو پوشیدہ تہِ خاک
کیوں تجھ کو لبھاتی ہے مگر وسعتِ افلاک
اسرار ہیں موجود ترے جبکہ تہِ خاک
یا
ہیں زیست کے اسرار تو پوشیدہ تہِ خاک
کیوں تجھ کو لبھاتی ہے مگر وسعتِ افلاک
وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ اپنے
سینے کو میں نے کر لیا اپنی بُکا سے چاک
وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ آخر
نالوں نے مرے کر دیا سینے کو مرے چاک
یا
وہ پتھروں کو گریہِ دل سوز سنایا
گلیوں میں لیے پھرتا ہوں اب سینہِ صد چاک
تسلیم کہ کچھ وجہِ مسرت نہیں ہوں میں
پر صاحبِ ادراک ہو کس طرح طربناک
تسلیم کہ کچھ وجہِ مسرت میں نہیں ہوں
پر صاحبِ ادراک ہو کس طرح طربناک
کچھ عجز بیان بھی محسوس ہوتا ہے۔ صاحبِ ادارک کو صرف مایوسیوں کا ہی کیوں ادراک ہے؟
(ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں کس طرح ہنسی خوشی رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا (فرشتہ) صور کو منہ میں لیے ہوئے ہے اور اللہ کی اجازت پر کان لگائے ہوئے ہے کہ کب اسے (صور) پھونکنے کا حکم دیا جائے اور وہ صور پھونکے۔)
رواہ الترمذی
ایسا ہی کچھ(یعنی ایسی احادیث کی روشنی میں) کہنے کی کوشش کی کہ جس کو قبر یا آخرت کی ہولناکیوں کا ادراک ہو جائے تو کیسے ہنسنے مسکرانے کی باتیں کر سکتا ہے
اٹھا تری محفل سے جو طوفاں میں گھرا ہوں
ہر آن مَیں گردش مِیں ہوں مثلِ خس و خاشاک

چھوٹا ترا دامن تو میں طوفاں میں گھِرا ہوں
یا
اٹھا جو تری بزم سے طوفاں میں گھِرا ہوں
ہر آن میں گردش میں ہوں مثلِ خس و خاشاک
حیرت میں ہے رضواں، کہ ہے آدم کہاں آباد
لوٹا وہاں سے جو بھی وہی لوٹا ہے نمناک
حیران ہے جنت کہ ہے آدم کہاں آباد
اُس پار سے جو لوٹا وہی لوٹا ہے نمناک
غافل نہیں ہے لطف بجز غفلتوں کے کچھ
جب گلیوں میں قزاقِ اجل پھرتا ہو بے باک
تیرے لیے بہتر ہے فقط گوشہ نشینی
جب گلیوں میں قزاقِ اجل پھرتا ہو بے باک
جز آس کچھ اے شافعِ محشر نہیں پلّے
امت میں تری ہوں مگر اے صاحبِ لولاک
جز آس کچھ اے شافعِ محشر نہیں پلے
امت میں تری ہوں اے مرے صاحبِ لولاک
یا
کچھ اس کے سوا آس نہیں شافعِ محشر
امت میں تری ہوں مگر اے صاحبِ لولاک
یا پھر
گرچہ میں گنہگار ہوں امت مِیں تری ہوں
اے شافعِ محشر اے مرے صاحبِ لولاک
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہاں، زیست کے ساتھ مطلع درست ہو جاتا ہے
وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ آخر
نالوں نے مرے کر دیا سینے کو مرے چاک
یا
وہ پتھروں کو گریہِ دل سوز سنایا
گلیوں میں لیے پھرتا ہوں اب سینہِ صد چاک
.. اب بھی پہلا مصرع مفعول مفاعیل میں بہتر رقطیع ہوتا ہےاٹھا جو تری بزم سے طوفاں میں گھِرا ہوں
ہر آن میں گردش میں ہوں مثلِ خس و خاشاک
... بزم سے کے بعد کاما ضرور لگاؤ
دوسرے مصرعے میں پہلا 'میں' واحد متکلم کے لئے صرف م تقطیع ہونا درست نہیں ۔ ہوں سے صیغہ واضح ہو جاتا ہے، اس کی جگہ 'ہی' استعمال کرو

تیرے لیے بہتر ہے فقط گوشہ نشینی
جب گلیوں میں قزاقِ اجل پھرتا ہو بے باک
... قزاق می) ز پر تشدید ضرور دو، بغیر شد کے مفعول فاعلات کا اشتباہ ہوتا ہے

یہ بہترین ہےکچھ اس کے سوا آس نہیں شافعِ محشر
امت میں تری ہوں مگر اے صاحبِ لولاک
تم نے اقتباسات لئے ہیں اس لئے مکمل غزل کاپی پیسٹ نہیں کر سکا، ایک ایک شعر کرنا پڑا، اور جن کو کاپی پیسٹ نہیں کیا، وہ درست ہی ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہاں، زیست کے ساتھ مطلع درست ہو جاتا ہے
وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ آخر
نالوں نے مرے کر دیا سینے کو مرے چاک
یا
وہ پتھروں کو گریہِ دل سوز سنایا
گلیوں میں لیے پھرتا ہوں اب سینہِ صد چاک
.. اب بھی پہلا مصرع مفعول مفاعیل میں بہتر رقطیع ہوتا ہےاٹھا جو تری بزم سے طوفاں میں گھِرا ہوں
ہر آن میں گردش میں ہوں مثلِ خس و خاشاک
... بزم سے کے بعد کاما ضرور لگاؤ
دوسرے مصرعے میں پہلا 'میں' واحد متکلم کے لئے صرف م تقطیع ہونا درست نہیں ۔ ہوں سے صیغہ واضح ہو جاتا ہے، اس کی جگہ 'ہی' استعمال کرو

تیرے لیے بہتر ہے فقط گوشہ نشینی
جب گلیوں میں قزاقِ اجل پھرتا ہو بے باک
... قزاق می) ز پر تشدید ضرور دو، بغیر شد کے مفعول فاعلات کا اشتباہ ہوتا ہے

یہ بہترین ہےکچھ اس کے سوا آس نہیں شافعِ محشر
امت میں تری ہوں مگر اے صاحبِ لولاک
تم نے اقتباسات لئے ہیں اس لئے مکمل غزل کاپی پیسٹ نہیں کر سکا، ایک ایک شعر کرنا پڑا، اور جن کو کاپی پیسٹ نہیں کیا، وہ درست ہی ہیں
آپ اپنی قیمتی آراء سے مجھ جیسوں کو نوازتے رہتے ہیں جس کے لیے آپ کا بے حد شکریہ
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
وہ پتھروں کو گریہ سنایا ہے کہ آخر
نالوں نے مرے کر دیا سینے کو مرے چاک
یا
وہ پتھروں کو گریہِ دل سوز سنایا
گلیوں میں لیے پھرتا ہوں اب سینہِ صد چاک

اس کا ہی کرم ہے جو یہاں شخص مکیں تھا
میں اب جو لیے پھرتا ہوں یہ سینہِ صد چاک

سر الف عین نظرِ ثانی کی درخواست ہے
 

الف عین

لائبریرین
'جو شخص یہاں مکیں' درست محاورہ ہے جو یہاں شخص.. عجیب ہو جاتا ہے
اس کا ہی کرم ہے کہ جو اس دل میں مکیں تھا
بہتر ہو گا
گریہ والا مصرع ٹھیک ہو گیا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بھائی ، ٹیگ کرنے کا شکریہ ۔ آپ کی اس غزل پر مفصل کلام تو اساتذہ کرچکے ہیں ۔ میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ صاحبِ لولاک کہنا درست نہیں ہے ۔ یہ عقیدہ ایک من گھڑت ، بے سند اور فضول بات پر مبنی ہے ۔لولاک والا من گھڑت جملہ بالتحقیق اور متفقہ طور پر موضوع ہے اور اسلام کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے ۔مناسب سمجھیں تو اس سے رجوع کرلیجئے۔ :)
 
۔لولاک والا من گھڑت جملہ بالتحقیق اور متفقہ طور پر موضوع ہے اور اسلام کے بنیادی عقیدہ کے خلاف ہے ۔مناسب سمجھیں تو اس سے رجوع کرلیجئے
ظہیر بھائی، یوں تو ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا :)

آپ کی یہ بات تو درست ہے کہ محولہ بالا الفاظ کی حامل روایت کی استنادی حیثیت پر سب کا اتفاق ہے ... تاہم بہرحال یہ ایک معرکۃ الآراء مسئلہ رہا ہے ... اور کم از کم برصغیر کے دینی حلقوں میں اہلسنت میں صرف غیر مقلدین نے ہی اس روایت سے معناً اعراض کیا ہے. دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے جید علماء کی کافی تحاریر اس موضوع پر موجود ہیں.
یہ بات بھی تفصیل طلب ہے مذکورہ الفاظ سے کون سے بنیادی عقیدے پر ضرب پڑتی ہے؟
میرا مقصد کوئی کلامی یا فقہی بحث شروع کرنا نہیں. گزارش صرف اتنی سی ہے کہ اس طرح کے اختلافی مسائل میں سب کو تھوڑی وسعت و رعایت سے کام لینا چاہیے.
امید ہے آپ نے میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا.
والسلام.
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
میرا ذہن کسی مناسب جواب کے لیے شش و پنج میں تھا کہ آپ کا خوبصورت سا جواب آ گیا
یہ بات تو درست ہے کہ محولہ بالا الفاظ کی حامل روایت کی استنادی حیثیت پر سب کا اتفاق ہے ... تاہم بہرحال یہ ایک معرکۃ الآراء مسئلہ رہا ہے ... اور کم از کم برصغیر کے دینی حلقوں میں اہلسنت میں صرف غیر مقلدین نے ہی اس روایت سے معناً اعراض کیا ہے. دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے جید علماء کی کافی تحاریر اس موضوع پر موجود ہیں.
اس میں علماء کا ماننا ہے کہ لولاک لما خلقت الأفلاک والی حدیث موضوع ہے جبکہ تقریباً ایسا ہی مضمون کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف احادیث میں بیان ہوئے ہیں جس میں لفظ لولاک بھی آیا ہوا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی، یوں تو ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا :)
راحل بھائی ، پنڈورا بکس تو تب کھلے گا جب ہم کھولنا چاہیں گے۔ نہ تو میرا اس موضوع پر کسی بحث یا مزید گفتگو کا ارادہ ہے اور نہ ہی میں پبلک فورم پر اس قسم کے موضوعات پر مکالمے کا قائل ہوں ۔ میں نے تبصرہ ظاہر ہے کہ شعر کے تکنیکی پہلو پر نہیں بلکہ اس کے مضمون پر کیا ہے ۔ شعر کے مضمون یا اس میں بیان کردہ کسی نکتے سے اتفاق یا اختلاف تو ممکن ہے اورعام بات ہے۔ سو میں نے اپنی رائے پیش کردی اور کہہ دیا کہ " اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس سے رجوع کرلیجئے ۔" اگر شاعر اپنے عقیدے پر قائم ہے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ میں نے اپنا نقطۂ نظر پیش کردیا ۔ ہر شخص اپنے عقیدے اور فلسفے کا خود ذمہ دار ہے ۔ کسی پر کوئی زبردستی نہیں ۔ :):):)

اس بارے میں یہ لڑی ملاحظہ فرمائیے گا ۔ اس لڑی کے مراسلے 11 سے 18 تک دیکھئے گا ۔ شاید اس سے آپ کو میرے منہج کا اندازہ ہوسکے ۔ :)

یہ بات بھی تفصیل طلب ہے مذکورہ الفاظ سے کون سے بنیادی عقیدے پر ضرب پڑتی ہے؟
مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کے اس سوال کا مختصر سا جواب بھی ساتھ ہی ساتھ دے دوں تاکہ یہ مکالمہ اختتام کو پہنچے۔ قرآن کریم کی یہ آیت دیکھئے گا۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ( الذاریات:۵۶)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً بنی نوع انسان میں سے تھے ۔ نیز لولاک کا فلسفہ ماننے سے اس بات پر ایمان بھی لازم آتا ہے کہ رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم علیہ السلام سے بھی پہلے پیدا کیا گیا اور ایسا ماننا قرآن و حدیث کے خلاف ہے ۔

اس میں علماء کا ماننا ہے کہ لولاک لما خلقت الأفلاک والی حدیث موضوع ہے جبکہ تقریباً ایسا ہی مضمون کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف احادیث میں بیان ہوئے ہیں جس میں لفظ لولاک بھی آیا ہوا ہے
عبدالرؤف بھائی ، اس مضمون کی جو تین چار روایات ملتی ہیں وہ سب کی سب متفقہ طور پر بالاجماع المحدثین موضوع اور مردود ہیں ۔ ان روایات کی تفصیل اگر چاہیں تو ذاتی مکالمے میں رابطہ کرلیجئے۔ :)
 
Top