محمد فخر سعید
محفلین
فخر اس ہنر میں کب سے کمال رکھتا ہے
آنکھ میں نیند نہیں، خواب پال رکھتا ہے
ہم نے چاہا ہے انہیں ، ان کو اس سے کیا مطلب
وہ تو باتوں سے ہمیں خوب ٹال رکھتا ہے
کس طرح دردِ دل چہرے سے عیاں ہو تیرا
کہ تُو غم میں بھی تبسم بحال رکھتا ہے
ایک فرقہ ہے مکمل ہمارے یاروں کا
جان سے بڑھ کے ہمارا خیال رکھتا ہے
تیرا ہر زخم یار شہد سے بھی میٹھا ہے
اس لیے فخر تیرے غم سنبھال رکھتا ہے
کیا کروں شمع دل کا، بجھا نہ دوں اس کو؟
فخر جس دل میں صنم کے خیال رکھتا ہے
آنکھ میں نیند نہیں، خواب پال رکھتا ہے
ہم نے چاہا ہے انہیں ، ان کو اس سے کیا مطلب
وہ تو باتوں سے ہمیں خوب ٹال رکھتا ہے
کس طرح دردِ دل چہرے سے عیاں ہو تیرا
کہ تُو غم میں بھی تبسم بحال رکھتا ہے
ایک فرقہ ہے مکمل ہمارے یاروں کا
جان سے بڑھ کے ہمارا خیال رکھتا ہے
تیرا ہر زخم یار شہد سے بھی میٹھا ہے
اس لیے فخر تیرے غم سنبھال رکھتا ہے
کیا کروں شمع دل کا، بجھا نہ دوں اس کو؟
فخر جس دل میں صنم کے خیال رکھتا ہے