محمد شکیل خورشید
محفلین
زندگی اب تو کچھ ٹھکانہ کر
سانس لینے کا ہی بہانہ کر
ڈھونڈ دے درد کی دوا مجھ کو
یا مجھے ہوش سے بِگانہ کر
چشمِ نمناک رک بھی جایا کر
ایسے اک تار تو بہانہ کر
جی لیا زندگی بہت تجھ کو
اب ہمیں دہر سے روانہ کر
بھول جائے نہ تجھ کو یہ دنیا
اپنا انداز دلبرانہ کر
کوئی مستی الستی چھا جائے
وِرد ایسا قلندرانہ کر
کون سنتا ہے تیرے بین شکیلؔ
اپنی فریاد کو ترانہ کر
سانس لینے کا ہی بہانہ کر
ڈھونڈ دے درد کی دوا مجھ کو
یا مجھے ہوش سے بِگانہ کر
چشمِ نمناک رک بھی جایا کر
ایسے اک تار تو بہانہ کر
جی لیا زندگی بہت تجھ کو
اب ہمیں دہر سے روانہ کر
بھول جائے نہ تجھ کو یہ دنیا
اپنا انداز دلبرانہ کر
کوئی مستی الستی چھا جائے
وِرد ایسا قلندرانہ کر
کون سنتا ہے تیرے بین شکیلؔ
اپنی فریاد کو ترانہ کر