اصلاح کا واحد راستہ

الف نظامی

لائبریرین
10292220_10152307633831998_9218125127143570078_n.jpg
اصلاح کا واحد راستہ یہ ہے کہ مایوس لوگوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی جائے۔ ملک بھر کے ہر گلی کوچے میں لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی قسمت آپ بنانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو مایوسی اور قنوطیت سے نکالا جائے اور ان کے دلوں کو یقین کی روشنی سے معمور کر دیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔
(مضامین قاضی حسین احمد ؛ صفحہ 227)
 
اسلام میں اصلاح معاشرہ کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اوائل زندگی ہی سے سچائی اور راست بازی پر سختی کے ساتھ عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور صحابیوں کو بھی اس رذیل ترین فعل سے احتراز کرنے کی تاکید فرماتے رہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ وصف بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے۔ معاشرے کی تمام برائیوں میں سرفہرست جھوٹ ہے، اسلام کی لغت کا سخت ترین لفظ ”لعنت“ ہے، قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان اور اس کے بعد مشرک، کافر اور منافق کو بتایا گیا ہے، لیکن کسی مومن کو کذب یعنی جھوٹ کے سوا اس کے کسی فعل کی بناءپر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ ایسی برائی ہے کہ مسلمان سے بھی سرزد ہو تو اس کے لیے لعنت کی وعید ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
واقعی ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنا پہلی بار آسان لگتا ہے اور پھر مشکل ہی مشکل ہے،یاد بھی نہیں رہتا کہ پہلے کیا کہا تھا۔ جھوٹ کی عادت پڑ جائےتو ا یسے لوگ شوقیہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یعنی جن باتوں میں جھوٹ کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی وہ اُن میں بھی جھوٹ بولتے ہیں۔
ڈھٹائی بھی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔اور مزید برائیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ یادگار ہے جب آپ نے ایک شخص کو تین گناہوں میں سے ایک چھوڑنے کو کہا تھا( یہ اُس کی فرمائش تھی کہ میں تینوں میں سے صرف ایک چھوڑ سکتا ہوں) اور وہ گناہ تھا جھوٹ۔کیونکہ یہ سب برائیوں کی جڑ ہے۔
اور سچ سے زیادہ کیا حسین ہو گا؟ پہلی بار بولنا مشکل اور پھر آسانی ہی آسانی۔ اعتماد ،دل کا سکون،ضمیر سے دوستی،اور خاص طور پر اللہ اور اللہ کے نبی کی خوشنودی۔
 
واقعی ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنا پہلی بار آسان لگتا ہے اور پھر مشکل ہی مشکل ہے،یاد بھی نہیں رہتا کہ پہلے کیا کہا تھا۔ جھوٹ کی عادت پڑ جائےتو ا یسے لوگ شوقیہ جھوٹ بولتے ہیں۔ یعنی جن باتوں میں جھوٹ کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی وہ اُن میں بھی جھوٹ بولتے ہیں۔
ڈھٹائی بھی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔اور مزید برائیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ یادگار ہے جب آپ نے ایک شخص کو تین گناہوں میں سے ایک چھوڑنے کو کہا تھا( یہ اُس کی فرمائش تھی کہ میں تینوں میں سے صرف ایک چھوڑ سکتا ہوں) اور وہ گناہ تھا جھوٹ۔کیونکہ یہ سب برائیوں کی جڑ ہے۔
اور سچ سے زیادہ کیا حسین ہو گا؟ پہلی بار بولنا مشکل اور پھر آسانی ہی آسانی۔ اعتماد ،دل کا سکون،ضمیر سے دوستی،اور خاص طور پر اللہ اور اللہ کے نبی کی خوشنودی۔
ایک راستہ ہے کہ بندہ بات بھی کرے،( بظاہر لگے کہ جھوٹ ہے لیکں اصل میں جھوٹ نہ ہو) ، اس معاملے پر کچھ عرصہ بعد بات کر سکوں گا علماء سے بات کرنے کے بعد کہ اس کی شرائط کڑی ہیں اور عادت ہو جائے تو بہت برا - ابھی تک کے میرےعلم کے مطابق
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
کوئی بھی چیز آمیزش کے بعد اصلی نہیں رہتی۔اور جانتے بوجھتے سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ۔ اِس کی مثال اسظرح ہے۔اگر میں اس وجہ سے کہ میرا جی نہیں چاہتا، کہیں جانا نہیں چاہتی اور بتاتی ہوں کہ میری طبیعت ناساز ہے تو یہ جھوٹ ہے۔
میرے بچے تو میری اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ مزاق میں بھی جھوٹ مت بولو۔ اب وہ خودٹوکنے لگے ہیں۔الحمداللہ!
 

جاسمن

لائبریرین
خصوصا بیوی سے صلح کرنی ہوتو کبھی کبھی ضروری بلکہ واجب بلکہ مستحب بلکہ۔۔۔ بلکہ۔۔۔ ہے
ہاہاہاہا:lol: بالکل۔ کیونکہ میاں بیوی کے رشتے کو توڑنے کے لئے شیطان سب سے زیادہ بیتاب رہتا ہے۔ اور یہ بڑا نازک رشتہ ہے۔ ٹوٹ گیا خدا نخواسطہ تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور پھر سے جُڑنا ۔۔۔۔۔اور حلال کاموں میں ناپسندیدہ کام اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔ شاید اسی لئے اس میں صلح کے لئے جھوٹ کی چھوٹ ہے۔ واہ ! زبردست ! کتنا خوبصورت جملہ سرزد ہو گیا مجھ سے! تالیاں:clap:
 

جاسمن

لائبریرین
عموماَََََََََََ َ ََ َ ہم بچوں سے جھوٹے وعدے کر لیتے ہیں محض انھیں ٹالنے کے لئے۔ اسی طرح بچوں کو قابو کرنے کے لئے جھوٹے ڈراوے،جن آ جائے گا،بلی کاٹی کر لے گی۔ کتا کاٹ لے گا، وغیرہ ۔۔۔ہم اپنے بچوں کو خود جھوٹ کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک دو سال پہلے اگر میں کہتی کہ بچو بھوک لگی ہو گی کھانا کھا لو،یا خربوزہ میٹھا لگ رہا ہے،تو میرے بچے فوراََ َ َ کہتے۔۔جھوٹ جھوٹ۔ یہ تو جھوٹ ہے۔یہ سن کر میں بڑی حیران پریشان ہوتی تھی۔ ان کو اندازہ لگانے کے بارے میں علم نہ تھا۔
 
Top