یادِ ماضی کو ہم سے جدا نہ کرو
میرا دو پل کا جیون تباہ نہ کرو

وہ کریں یاد ہم کو ہے ان کا کرم
وہ جو نہ بھی کریں تو گلا نہ کرو

گر ہمیں وصل کا خوب ہے انتظار
وہ تو کہتے ہیں ہم سے ملا نہ کرو

ہم نے چاہا ہے انکو اور کہہ بھی دیا
اور وہ کہتے ہیں یہ سب کہا نہ کرو

یہ غزل ہم نے لکھی تیرے نام ہے
آپ مجھ پے یوں شک تو کیا نہ کرو

ہاں فخرؔ تا عمر بس تیرا ہے صنم
تم یوں قسموں پے قسمیں دیا نہ کرو
 
اچھے خوبصورت الفاظ ہیں مگر کچھ مصرعے وزن میں نہیں ہیں
مصرع نمبر 2 -4-5-7 اور کچھ کتابت کی غلطیاں ہیں ۔ جیسے( آپ مجھ پے ) آپ مجھ پہ
 
یادِ ماضی کو ہم سے جدا نہ کرو
میرا دو پل کا جیون تباہ نہ کرو
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ اس کے علاوہ قافیہ بھی درست نہیں۔ جدا اور تباہ قافیہ نہیں ہوسکتے۔

وہ کریں یاد ہم کو ہے ان کا کرم
وہ جو نہ بھی کریں تو گلا نہ کرو
نہ کو دوحرفی باندھنا (یعنی اس کی آواز کا طویل کھنچنا) مناسب نہیں۔ آپ کی غزل کی ردیف میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ نہ کو دوحرفی باندھا گیا ہے۔
ردیف میں تو نہ کو مت سے بدلا جا سکتا ہے، یعنی نہ کرو کے بجائے مت کرو کہہ لیں۔
وہ کریں یاد ہم کو، تو ان کا کرم
بھول بھی جائیں گر، تو گلا مت کرو

گر ہمیں وصل کا خوب ہے انتظار
وہ تو کہتے ہیں ہم سے ملا نہ کرو
جانے کیوں ہم کو ہے وصل کا انتظار
جب وہ کہتے ہیں ہم سے ملا مت کرو

ہم نے چاہا ہے انکو اور کہہ بھی دیا
اور وہ کہتے ہیں یہ سب کہا نہ کرو
دونوں مصرعے بحر سے خارج ہیں، شعر بھی بھرتی کا لگتا ہے۔
دوسرے مصرعے کو یوں کرکے اس پر کوئی اور گرہ لگائیں
وہ یہ کہتے ہیں یہ سب کہا مت کرو

یہ غزل ہم نے لکھی تیرے نام ہے
آپ مجھ پے یوں شک تو کیا نہ کرو
دونوں مصرعوں میں شتر گربہ ہے۔ ہم کے ساتھ مجھ اور آپ کے ساتھ کرو ۔۔۔ یہ صیغے ایک ساتھ جمع نہیں کئے جاسکتے!

ہاں فخرؔ تا عمر بس تیرا ہے صنم
تم یوں قسموں پے قسمیں دیا نہ کرو
فخر اور عمر دونوں کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے۔
فخر کی خے اور رے دونوں ساکن ہوتی ہیں، بعینہ یہی معاملہ عمر کے ساتھ ہے، جس میں میم اور رے دونوں ساکن ہیں۔
گویا فخر کا تلفظ یوں کیا جائے گا فَخْ+رْ ۔۔۔ اور عمر کا یوں، عُمْ+رْ

دعاگو،
راحلؔ
 
یہ املا لغات میں موجود ہے مگر اپنے علم کے لیے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا بجائے مصرع اس کا استعمال ترجیح رکھتا ہے؟
ترجیح کا تعین تو بھائی اساتذہ ہی کر سکتے ہیں۔ عربی سے ماخوذ اصل املا تو مصراع ہے ۔۔۔ جو اردو لغات میں مدون بھی ہے مگر شاید ہی کوئی استعمال کرتا ہو!
میں ہائے خفی کے ساتھ اس لئے لکھتا ہوں کہ فی زمانہ یہی زیادہ رائج اور مانوس ہے۔ واللہ اعلم!
 
دوسرا مصرعہ بحر سے خارج ہے۔ اس کے علاوہ قافیہ بھی درست نہیں۔ جدا اور تباہ قافیہ نہیں ہوسکتے۔


نہ کو دوحرفی باندھنا (یعنی اس کی آواز کا طویل کھنچنا) مناسب نہیں۔ آپ کی غزل کی ردیف میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ نہ کو دوحرفی باندھا گیا ہے۔
ردیف میں تو نہ کو مت سے بدلا جا سکتا ہے، یعنی نہ کرو کے بجائے مت کرو کہہ لیں۔
وہ کریں یاد ہم کو، تو ان کا کرم
بھول بھی جائیں گر، تو گلا مت کرو


جانے کیوں ہم کو ہے وصل کا انتظار
جب وہ کہتے ہیں ہم سے ملا مت کرو


دونوں مصرعے بحر سے خارج ہیں، شعر بھی بھرتی کا لگتا ہے۔
دوسرے مصرعے کو یوں کرکے اس پر کوئی اور گرہ لگائیں
وہ یہ کہتے ہیں یہ سب کہا مت کرو


دونوں مصرعوں میں شتر گربہ ہے۔ ہم کے ساتھ مجھ اور آپ کے ساتھ کرو ۔۔۔ یہ صیغے ایک ساتھ جمع نہیں کئے جاسکتے!


فخر اور عمر دونوں کا تلفظ غلط باندھا گیا ہے۔
فخر کی خے اور رے دونوں ساکن ہوتی ہیں، بعینہ یہی معاملہ عمر کے ساتھ ہے، جس میں میم اور رے دونوں ساکن ہیں۔
گویا فخر کا تلفظ یوں کیا جائے گا فَخْ+رْ ۔۔۔ اور عمر کا یوں، عُمْ+رْ

دعاگو،
راحلؔ

یادِ ماضی کو مجھ سے جُدا مت کرو
میری خوشیوں کے دو پل فنا مت کرو

وہ کریں یاد ہم کو، تو ان کا کرم
بھول جائیں اگر، تو گلا مت کرو

جانے کیوں ہم کو ہے وصل کا انتظار
جب وہ کہتے ہیں ہم سے ملا مت کرو

ہم محبت کو اپنی بیاں جب کریں
وہ یہ کہتے ہیں یہ سب کہا مت کرو

یہ غزل میں نے لکھی تیرے نام ہے
جانِ جاں مجھ پہ شک تو کیا مت کرو

فخر مرنے تلک بس تیرا ہے صنم
تم یوں قسموں پہ قسمیں دیا مت کرو

محترم! مزید پڑھ کر اصلاح کریں۔۔۔ دعا گو ہوں۔
 
Top