اصلاح کی درخواست ہے

BZJFrdJ
all
k8SLiIv
i2i2Wfj
 
آخری تدوین:
اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:

ہم کو دستور وفا کا یہ بدلنا ہوگا۔۔۔۔یا۔۔۔۔ہم کو دستور وفا کا نیا لکھنا ہوگا
ورنہ منہ اگلی رِوایات کا تکنا ہوگا۔۔۔یا۔۔۔۔اب نہ منہ اگلی روایات کا تکنا ہوگا۔۔۔۔حکایات

آج کے زندہ حوالوں سے سند لینا بھی
کل کی تابندہ مثالوں ہی پہ مٹنا ہوگا

شمع کو خیر سے آزادی مبارک تو کہو۔۔۔۔یا۔۔۔شمع کو خیر سے آزادی مبارک کہیے
بہر ِ پروانہ اُسے اب نہیں جلنا ہوگا

آرزوؤں کے گہر سینے میں بے آب ہوئے
سینت کر اِن کو ہمیں اور جگہ رکھنا ہوگا

ہر گھڑی آ کے ڈبو جاتی ہے اِک موج سراب
اب ہمیں پیاس کے صحرا سے نکلنا ہوگا

دیکھو پروانے بھی کیا عقل کی رہ چلنے لگے
شب میں شاید کبھی اب ان کا نکلنا ہوگا۔۔۔۔یا۔۔۔شب کو شاید کبھی اب اِن کا نکلنا ہوگا

کیوں شکیل آپ نہ لکھ لائے کوئی اور غزل
جی نہیں چاہتا پر آپ کو سننا ہوگا۔۔۔یا ۔۔۔۔جی تو مائل نہیں پرآپ کوسننا ہوگا
 
آخری تدوین:
شکیل احمد خان23 بھائی آپ سے درخواست ہے کہ اپنے مراسلے تحریری شکل میں پوسٹ کیجیے۔ اس فورم پر تصویری شکل میں پوسٹ کرنے کے لیے بھی گو ایک دو زمرے دستیاب ہیں لیکن ان ایک دو زمروں کو چھوڑ کر باقی فورم پر تحریری شکل میں ہی مواد پوسٹ کیا جاتا ہے۔ امید ہے خیال رکھیں گے۔
 
شکیل احمد خان23 بھائی آپ سے درخواست ہے کہ اپنے مراسلے تحریری شکل میں پوسٹ کیجیے۔ اس فورم پر تصویری شکل میں پوسٹ کرنے کے لیے بھی گو ایک دو زمرے دستیاب ہیں لیکن ان ایک دو زمروں کو چھوڑ کر باقی فورم پر تحریری شکل میں ہی مواد پوسٹ کیا جاتا ہے۔ امید ہے خیال رکھیں گے۔
محترم!
انشاء اللہ آئندہ اِس کاخیال رکھوں گا۔ ازرہِ کرم یہ بتادیں کہ اساتذہ کرام یا احباب کو ٹیگ کیسے کیاجاتا ہے یعنی ٹیگ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
 
محترم!
انشاء اللہ آئندہ اِس کاخیال رکھوں گا۔ ازرہِ کرم یہ بتادیں کہ اساتذہ کرام یا احباب کو ٹیگ کیسے کیاجاتا ہے یعنی ٹیگ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
جزاک اللہ۔

یوں تو اساتذہ کرام کو ٹیگ کرنے کی ضرورت نہیں، اساتذہ یا احباب اصلاح کے زمرے میں کلام پر توجہ کرلیتے ہیں، لیکن آپ کی معلومات کے لیے ذیل میں ٹیگ کرنے کا طریقہ ملاحظہ فرمائیے۔

@(ایٹ) کا نشان ٹائپ کیجیے اور فوراً بعد ان صاحب کا نام اسی طرح لکھیے جس طرح ان کے مراسلوں میں ظاہر ہوتا ہے، مثلاً استادِ محترم الف عین یعنی جناب اعجاز عبید کو ٹیگ کرنے کے لیے (ایٹ)الف عین ٹائپ کیجیے جو یوں ظاہر ہوگا الف عین
 
جزاک اللہ۔

یوں تو اساتذہ کرام کو ٹیگ کرنے کی ضرورت نہیں، اساتذہ یا احباب اصلاح کے زمرے میں کلام پر توجہ کرلیتے ہیں، لیکن آپ کی معلومات کے لیے ذیل میں ٹیگ کرنے کا طریقہ ملاحظہ فرمائیے۔

@(ایٹ) کا نشان ٹائپ کیجیے اور فوراً بعد ان صاحب کا نام اسی طرح لکھیے جس طرح ان کے مراسلوں میں ظاہر ہوتا ہے، مثلاً استادِ محترم الف عین یعنی جناب اعجاز عبید کو ٹیگ کرنے کے لیے (ایٹ)الف عین ٹائپ کیجیے جو یوں ظاہر ہوگا الف عین
دل کی انتہائی گہرائیوں سے شکریہ قبول فرمائیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کے قوافی غلط ہیں۔ قوافی کا یہ اصول ہے کہ مشترک حروف سے فوراً پہلے جو حرف ہو وہ متحرک ہو، یعنی اس پر زیر، زبر یا پیش ہو۔ اس غزل میں تکنا اور نکلنا قوافی بنائے گئے ہیں، جن میں مشترک حروف 'نا' ہے، اور ان سے پہلے کاف اور لام ساکن ہیں۔ البتہ تکنا، لٹکنا قوافی ہو سکتے ہیں جن میں 'کنا' مشترک ہے اور اس سے پہلے ت، ک پر زبر ہے۔ لیکن چُکنا قافیہ نہیں ہو سکتا کہ چ پر پیش ہے، یعنی حرکت یا اعراب بھی یکساں ہونے چاہئیں۔ بہلنا، مچلنا نکلنا قوافی کا ایک گروپ ہے، تکنا، سکنا، دھڑکنا ایک اور گروپ، اور بکھرنا،سنورنا، گزرنا ایک تیسرا گروپ۔ اور ہر گروپ کے الفاظ خلط ملط نہیں کیے جا سکتے
 
اس غزل کے قوافی غلط ہیں۔ قوافی کا یہ اصول ہے کہ مشترک حروف سے فوراً پہلے جو حرف ہو وہ متحرک ہو، یعنی اس پر زیر، زبر یا پیش ہو۔ اس غزل میں تکنا اور نکلنا قوافی بنائے گئے ہیں، جن میں مشترک حروف 'نا' ہے، اور ان سے پہلے کاف اور لام ساکن ہیں۔ البتہ تکنا، لٹکنا قوافی ہو سکتے ہیں جن میں 'کنا' مشترک ہے اور اس سے پہلے ت، ک پر زبر ہے۔ لیکن چُکنا قافیہ نہیں ہو سکتا کہ چ پر پیش ہے، یعنی حرکت یا اعراب بھی یکساں ہونے چاہئیں۔ بہلنا، مچلنا نکلنا قوافی کا ایک گروپ ہے، تکنا، سکنا، دھڑکنا ایک اور گروپ، اور بکھرنا،سنورنا، گزرنا ایک تیسرا گروپ۔ اور ہر گروپ کے الفاظ خلط ملط نہیں کیے جا سکتے
استادِ محترم !
آپ کی توجہ اور رہنمائی کا ازحد شکریہ ، آپ کی ہدایات کی روشنی میں اِس پر مزید کام کروں گا، انشاء اللہ ۔
 
اس غزل کے قوافی غلط ہیں۔ قوافی کا یہ اصول ہے کہ مشترک حروف سے فوراً پہلے جو حرف ہو وہ متحرک ہو، یعنی اس پر زیر، زبر یا پیش ہو۔ اس غزل میں تکنا اور نکلنا قوافی بنائے گئے ہیں، جن میں مشترک حروف 'نا' ہے، اور ان سے پہلے کاف اور لام ساکن ہیں۔ البتہ تکنا، لٹکنا قوافی ہو سکتے ہیں جن میں 'کنا' مشترک ہے اور اس سے پہلے ت، ک پر زبر ہے۔ لیکن چُکنا قافیہ نہیں ہو سکتا کہ چ پر پیش ہے، یعنی حرکت یا اعراب بھی یکساں ہونے چاہئیں۔ بہلنا، مچلنا نکلنا قوافی کا ایک گروپ ہے، تکنا، سکنا، دھڑکنا ایک اور گروپ، اور بکھرنا،سنورنا، گزرنا ایک تیسرا گروپ۔ اور ہر گروپ کے الفاظ خلط ملط نہیں کیے جا سکتے
جنابِ محترم !
غزل دوبارہ پیشِ خدمت ہے:

بیوفائی کو وفا بلکہ ادا مانیں گے
ہم یہی کلیہ و دستورِ وفا مانیں گے

آج کے زندہ حوالے ہی رہیں پیشِ نظر
کل کی تابندہ مثالوں کو خطا مانیں گے

شمع کچھ اپنی زباں سے نہ کہے حال اپنا
اب نہ پروانے اسے دل کی صدا مانیں گے

آرزوؤں کے گہر ہوتے ہی بے آب میاں!
لوگ اس کو بھی دغا نا کہ خطا مانیں گے

وہ جو اٹھتی ہے ڈبونے کے لیے موجِ سراب
پیاس کے صحرا میں اس کو بھی روا مانیں گے

جب نہ پروانوں میں ہو گرمیٔ کردار کہیں
پھر اُجالوں کو وہ کیوں قبلہ نُما مانیں گے

اے شکیل آپ جو لکھ لائے ہیں یہ ایک غزل
کیا اسے حضرتِ اعجاز بجا مانیں گے؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ شکیل آپ تو لکھ آئے ہیں اک اور غزل!!
یہ وہ غزل تو نہیں ہے، بہر حال آپ کے خیالات اور بحر و اوزان کے لحاظ سے اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ تلفظ وغیرہ کی اغلاط ہی ممکن ہیں یا کہیں اگر مدعا واضح نہ ہو تو نشان دہی کی جا سکتی ہے
اس غزل میں فاعل کی کمی کی وجہ سے سوچنا پڑتا ہے کہ ہم مانیں گے ہو گا یا آپ مانیں گے، یا کچھ اور لوگ!
کلیہ کے تلفظ پر غور کرو، یہ لفظ کُلِّیہ ہے، بر وزن فاعلن، یہاں فعلن باندھا گیا ہے جو غلط ہے

لوگ اس کو بھی دغا نا کہ خطا مانیں گے
مصرع واضح بھی نہیں اور میرا اصل اعتراض 'نا' پر ہے، جو بمعنی نہ استعمال کیا گیا ہے۔ 'نا' بطور زور دینے کے لیے مہمل لفظ کے طور پر درست ہے، جیسے 'یہ بات ہے نا! ' 'نہ' کی شعری بندش محض نَ کے طور پر ہوتی ہے، فع کے طور پر نہیں
اور ایک بات، غزل بجا نہیں مانی جا سکتی، درست کے لیے بجا کا استعمال علط ہے۔ ہاں، کسی حضرت اعجاز نے کسی لفظ کی صحت پر انگلی اٹھائی تھی تو کہا جا سکتا ہے کہ' اب اس لفظ کے اس استعمال کو بجا مانا جا سکتا ہے؟'
باقی اس غزل میں کوئی اور خامی نہیں
 
یہ شکیل آپ تو لکھ آئے ہیں اک اور غزل!!
یہ وہ غزل تو نہیں ہے، بہر حال آپ کے خیالات اور بحر و اوزان کے لحاظ سے اصلاح کی کوئی ضرورت نہیں، البتہ تلفظ وغیرہ کی اغلاط ہی ممکن ہیں یا کہیں اگر مدعا واضح نہ ہو تو نشان دہی کی جا سکتی ہے
اس غزل میں فاعل کی کمی کی وجہ سے سوچنا پڑتا ہے کہ ہم مانیں گے ہو گا یا آپ مانیں گے، یا کچھ اور لوگ!
کلیہ کے تلفظ پر غور کرو، یہ لفظ کُلِّیہ ہے، بر وزن فاعلن، یہاں فعلن باندھا گیا ہے جو غلط ہے

لوگ اس کو بھی دغا نا کہ خطا مانیں گے
مصرع واضح بھی نہیں اور میرا اصل اعتراض 'نا' پر ہے، جو بمعنی نہ استعمال کیا گیا ہے۔ 'نا' بطور زور دینے کے لیے مہمل لفظ کے طور پر درست ہے، جیسے 'یہ بات ہے نا! ' 'نہ' کی شعری بندش محض نَ کے طور پر ہوتی ہے، فع کے طور پر نہیں
اور ایک بات، غزل بجا نہیں مانی جا سکتی، درست کے لیے بجا کا استعمال علط ہے۔ ہاں، کسی حضرت اعجاز نے کسی لفظ کی صحت پر انگلی اٹھائی تھی تو کہا جا سکتا ہے کہ' اب اس لفظ کے اس استعمال کو بجا مانا جا سکتا ہے؟'
باقی اس غزل میں کوئی اور خامی نہیں
استادِ محترم!
آپ کی تحریرکا ایک ایک لفظ میرے لیے ہدایت اور رہنمائی کا کوہِ نوربلکہ کوہِ طور ہے۔میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سےآپ کا ممنون ہوں ، آپ نے توجہ فرمائی۔میں نے اِس غزل پر کئی بار نظر کی اور اب بھی باعتبارِ خیال اور بلحاظِ شعری ضرویات ، یہ غزل میرے پیشِ نظر ہے ۔جنابِ محترم میں اِسے آپ کی گراں قدررائے کے لیے ایک بار پھر خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ازرہِ لطف و کرم اجازت مرحمت فرمائیں تو ان شاء اللہ آئندہ اِسے لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اجازت کی کیا ضرورت ہے؟ پوسٹ کر دیا کرو۔ میرے علاوہ بھی دوسرے احباب کو استحقاق حاصل ہے کہ وہ بھی مشورہ دے سکتے ہیں۔ میں بھی حتی الامکان کوشش کروں گا
 
اجازت کی کیا ضرورت ہے؟ پوسٹ کر دیا کرو۔ میرے علاوہ بھی دوسرے احباب کو استحقاق حاصل ہے کہ وہ بھی مشورہ دے سکتے ہیں۔ میں بھی حتی الامکان کوشش کروں گا
سر !
بہت بہت شکریہ ، ان شاء اللہ جلد پوسٹ کردوں گا۔
 
گرامی قدر استادِ محترم کی خدمت میں اصلاح کی غرض سے۔۔۔۔۔۔پھر وہی دل لایا ہوں۔
دیگر احباب سے بھی نقد و نظر کی درخواست ہے:

بیوفائی کو وفا بلکہ ادا مانیں گے
ہم بیچارے اِسے دستورِ وفا مانیں گے

آج کے زندہ حوالے، یعنی نابینا خدا۔۔۔۔۔۔۔آج کے زندہ حوالے یہی نابینا خدا
کل کی تابندہ مثالوں کو عصا مانیں گے

شمع کچھ اپنی زباں سے نہ کہے حال اپنا
بزم برہم سی ہے پروانے بُرا مانیں گے

آرزوؤں کے گہر ہوں گے جو بے آب، اِسے
ہم تو اڑ جائیں گے قسمت کی دغا مانیں گے

"راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے"
لوگ عشاق کی اب عقلِ رسا مانیں گے۔۔۔۔فکرِ رسا۔۔۔۔؟

عکس کی موج اُٹھے صحرا میں تو ہم تِشنہ لباں
اس کو بھی باعثِ خوشنودیٔ ما مانیں گے

جب نہ پروانوں میں ہو گرمیٔ کردار کہیں
پھر اُجالوں کو وہ کیوں قبلہ نُما مانیں گے

یہ شکیل آپ نے جو قافیہ باندھا ہے ادا
کیا اسے اُردُو کے استاد بجا مانیں گے؟
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بیوفائی کو وفا بلکہ ادا مانیں گے
ہم بیچارے اِسے دستورِ وفا مانیں گے
... عجز بیان ہے۔ وفا لفظ دونوں مصرعوں میں لانا اچھا نہیں۔ بے چارے، 'بچارے' باندھا گیا ہے کچھ اس قسم کا کر دو تو بہتر ہے
بے وفائی کو ہم ان کی اک ادا مانیں گے
گویا........ دستور وفا....

آج کے زندہ حوالے، یعنی نابینا خدا۔۔۔۔۔۔۔آج کے زندہ حوالے یہی نابینا خدا
کل کی تابندہ مثالوں کو عصا مانیں گے
... یعنی تو بحر سے خارج کر دیتا ہے پہلے مصرع کو، یہی یا 'یہ ہیں' بہتر ہو گا
شعر اگرچہ واضح نہیں لیکن زبان کی کوئی اور غلطی نہیں

شمع کچھ اپنی زباں سے نہ کہے حال اپنا
بزم برہم سی ہے پروانے بُرا مانیں گے
... درست

آرزوؤں کے گہر ہوں گے جو بے آب، اِسے
ہم تو اڑ جائیں گے قسمت کی دغا مانیں گے
... دغا کچھ بے محل سا لگ رہا ہے، سزا قافیہ کیسا رہے گا؟

"راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے"
لوگ عشاق کی اب عقلِ رسا مانیں گے۔۔۔۔فکرِ رسا۔۔۔۔؟
.. فکر رسا بہتر ہے

عکس کی موج اُٹھے صحرا میں تو ہم تِشنہ لباں
اس کو بھی باعثِ خوشنودیٔ ما مانیں گے
... واضح نہیں ہوا لیکن استادانہ استعمال ہے زبان کا ماشاء اللہ

جب نہ پروانوں میں ہو گرمیٔ کردار کہیں
پھر اُجالوں کو وہ کیوں قبلہ نُما مانیں گے
... درست

یہ شکیل آپ نے جو قافیہ باندھا ہے ادا
کیا اسے اُردُو کے استاد بجا مانیں گے؟
.. درست
 
استادِ محترم!
آپ کا بے حد ممنون ہوں ۔اللہ تعالیٰ ربِ کریم آپ کو ہمیشہ صحت مند، تندرست اور توانا رکھے ، خوش اور سلامت رکھے اور آپ کا فیضِ کرم جاری و ساری رہے ،آمین ثم آمین!!
 
۔۔۔پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں


بے وفائی کو وفا بلکہ ادا مانیں گے
ہم بے چارے بھلا کیا اِس سے سِوا مانیں گے

آرزوؤں کے گہر جو پڑیں ماند اِنھیں ہم
سینت کر سینے میں رکھنے کی سزا مانیں گے

"راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے"
لوگ عشاق کی اب فکرِ رسا مانیں گے!

عکس کی موج اُٹھے صحرا میں تو با حسرت و یاس۔۔۔۔تو باحسرت ہم۔۔۔۔تو ہم تشنہ لب؟؟؟
ہم اِسے باعثِ خوشنودیٔ ما مانیں گے۔۔۔۔۔اس کو ہی ۔۔۔۔اس کو بھی؟؟

جب نہ پروانوں میں ہو گرمیٔ کردار کہیں
پھر اُجالوں کو وہ کیوں قبلہ نُما مانیں گے

دورِ حاضر کے فراعین بھی یہ اپنے تئیں
کب عناصر کے مرکب کی بِنا مانیں گے

کب یہ قدرت کے مظاہر کو کریں گے تسلیم
کب یہ خود کو اِسی مٹی سے بنا مانیں گے

یہ مرے عہد کے شداد یہ نمرود نما
یہ کبھی خود کو بھی مخلوقِ خدا مانیں گے؟

شمع اب اپنی زباں سے نہ کہے حال اپنا
بزم برہم سی ہے پروانے بُرا مانیں گے

"یہ شکیل آپ تو لکھ آئے ہیں اک اور غزل"
قول سب آپ کا بے شک یہ بجا مانیں گے
 
آخری تدوین:
Top