اصلاح کے لیے غزل پیش ہے

من

محفلین
اس کو اگر ایسے پڑھیں تو سمجھ آئے گا۔ :)
جو تحفے ہیں دیے غم، آپ نے ہم کو دم رخصت
یہاں غم نے تحفے نہیں دیے، بلکہ مخاطب نے غم تحفے میں دیے ہیں۔
شکریہ تابش جی یہی کہا گیا ہے سمجھانے کے لیے شکریہ ویسے میں تھوڑی سی تبدیلی کر دی تاکہ سمجھنا آسان ہو
 
ایک مبتدی کی حیثیت سے آپ کی غزل کے حوالے سے چند باتیں عرض کر رہا ہوں۔ آپ کو پسند آئیں تو ٹھیک ورنہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔
اپنی گزارشات اقتباس میں شامل کر دی ہیں۔
"زندان" لفظ ہے۔ یعنی 'ز' سے نہ کے 'ذ' سے۔
دوسرا یہ کہ "بنجر نگاہیں" ایسا فصیح لہجہ تو نہیں ہے۔ آپ اسے بہتر کر سکتے ہیں۔ نگاہوں کا بنجر ہونا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
غم جاناں کی صورت میں کوئی ذندان رکھا ہے
مری بنجر نگاہوں میں چھپا طوفان رکھا ہے

پھٹی یادوں کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔
پھٹی یادوں کی تصویریں ہیں کچھ ماضی کے پردے ہیں
جلا ڈالو یہ گھر بوسیدہ سا کچھ سامان رکھا ہے

جدائی کی گھٹن کے بجائے شاید آپ 'جدائی میں گھٹن' کی بات کہنا چاہ رہے ہیں۔
جدای کی گھٹن محسوس ہوتی ہے مگر جاناں
ہوا کے واسطے ہم نے در امکان رکھا ہے

'جو غم تحفے میں ہم نے آپ سے پائے دمِ رخصت' ایک ممکنہ شکل ہو سکتی ہے۔
جو تحفے میں دیے غم اپ نے ہم کو دم رخصت
انہی کا نام ہم نے اب متاع جان رکھا ہے

اس شعر کا مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔ کس نے کہا؟ کس سے کہا؟
کہا تھا لوٹ کر واپس میں اؤں تو سجا رکھنا
ابھی تک اپکی خاطر یہ گھر ویران رکھا ہے
ذرا سی کوشش ا س غزل کو اور بہتر بنا سکتی ہے۔
 

من

محفلین
ایک مبتدی کی حیثیت سے آپ کی غزل کے حوالے سے چند باتیں عرض کر رہا ہوں۔ آپ کو پسند آئیں تو ٹھیک ورنہ نظر انداز کر سکتے ہیں۔
اپنی گزارشات اقتباس میں شامل کر دی ہیں۔

ذرا سی کوشش ا س غزل کو اور بہتر بنا سکتی ہے۔
بہت بہت شکریہ میں پھر سے کوشش کرونگی اس پر
 

الف عین

لائبریرین
رعایت تو نہیں کرتا ہوں البتہ یہ لگتا ہے کہ ایسا غلط بھی نہیں۔ جہاں کو جہان زنداں کو زندان باندھنا اسی نوعیت کا ہے۔یہاں مگر یہی قافیہ ہے تو مجبوری کہا جا سکتا ہے!!
 

من

محفلین
اصلاح کے بعد کچھ اضافے کے ساتھ غزل پیش ہے

غزل

غم جاناں کی صورت میں کوئی ذندان رکھا ہے
مری تشنہ نگاہوں میں چھپا طوفان رکھا ہے

پھٹی تصویریں ماضی کی ہیں کچھ دیمک زدہ یادیں
جلا دو گھر یہ بوسیدہ سا کچھ سامان رکھا ہے

جُدای میں گھٹن محسوس ہوتی ہے مگر جاناں
ہوا کے واسطے ہم نے در امکان رکھا ہے

ملے غم آپ سے تحفے میں ہم کو جو دم رخصت
انہی کا نام اس دل نے متاع جان رکھا ہے

جو اُجڑے تیری فرقت میں وہ اب تک بس نہیں پاے
یہ نظریں اور یہ دل سب ہی کچھ ویران رکھا ہے

سمیٹے تھے ستارے جو وہ بکھرے ٹوٹ کر ایسے
یہ آنچل اب تلک دیکھو تہی دامان رکھا ہے

جو روٹھے ہیں وہ کب لوٹے دل ناداں کو سمجھاو
کہ اُسکے لوٹ آنے کا فقط ارمان رکھا ہے

جلاتی ہوں میں خوابوں کی چتا ہر روز آنکھوں میں
منڈیروں پر مری پلکوں کے اک شمشان رکھا ہے

غزل جو کہہ رہی ہے منؔ اسے ہے روکنا مشکل
قلم تھمتا نہیں اک درد کا دیوان رکھا ہے
منؔ
 
Top