مرزا غالب کے ایک خط سے اقتباس؛
"کیا ہنسی آتی ہے کہ تم مانند اور شاعروں کے مجھ کو بھی یہ سمجھے ہو کہ استاد کی غزل یا قصیدہ سامنے رکھ لیا، یا اس کے قوافی لکھ لیے اور ان قافیوں پر لفظ جوڑنے لگے۔ لا حول ولا قوۃ الا بالللہ! بچپن میں جب میں ریختہ لکھنے لگا ہوں، لعنت ہے مجھ پر اگر میں نے کوئی ریختہ یا اس کے قوافی پیشِ نظر رکھ لیے ہوں۔ صرف بحر اور ردیف قافیہ دیکھ لیا۔ اور اُس زمین میں غزل قصیدہ لکھنے کا تم کہتے ہو، نظیری کا دیوان وقت تحریر قصیدہ پیشِ نظر ہوگا۔ اور اس کے قافیے کا شعر دیکھا ہوگا، اس پر لکھا ہوگا واللہ اگر قصیدہ بھی ہے چہ جائے آں کہ وہ شعر: بھائی! شاعری، معنی آفرینی ہے! قافیہ پیمائی نہیں ہے۔۔۔"
(بنام منشی ہرگوپال تفتہ، 27 اگست، 1862)