طالوت
محفلین
اصل میں ذہنی مریض کون ہے؟ محمد حنیف بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی۔
جب بھی کوئی گیارہ سالہ مسیحی بچی رمشا کے انسانی حقوق کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے اس کی دماغی حالت کا ذکر کرتا ہے تو مجھے خود اپنی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
پاکستان میں غیر مسلموں کی آبادی اتنی کم ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کفار کے خلاف جنگ کے لیے، تو ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم نے کافر دیکھے ہیں۔ شاید اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم اچھے بھلے مسلمانوں کو کافر قرار دینے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
ہم نے کافر زیادہ تر یا تو فلموں میں دیکھے ہیں یا اپنی سڑکوں پر جھاڑو دیتے ہوئے۔ حالانکہ اس میں بھی تھوڑی غلط فہمی ہے کیونکہ ارض مقدس میں گند اتنا بڑھ گیا ہے اور نوکریاں اتنی کم ہیں کہ اب ہزاروں خاکروب مسلمان ہیں۔ ہم البتہ ان کلمہ گو بھائیوں کو اچھوت ہی گردانتے ہیں۔
تو ہم نے کبھی کسی غیر مسلم سے سلام دعا کی ہو یا نہیں کی ہو ہمیں یہ یقین ہے کہ پاکستان میں ہر مسیحی، ہر ہندو ہر رات سونے سے پہلے سوچتا ہے کل اٹھ کر کون سی ایسی گستاخی کروں کہ یہ سوئی ہوئی امت مسلمہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے، کیا ایسا کروں کہ مسلمان محلے دار میرے گھر پر چڑھائی کر دیں، مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں سے میرے خلاف فتوے جاری ہونے لگیں، مجھے میری اپنی حفاظت کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے۔
اگر کوئی ایسے سوچتا ہے تو اس کی ذہنی حالت مشکوک ہے۔ اور اگر ہم ان کے بارے میں یہ سوچتے ہیں تو ہماری ذہنی حالت کا سرٹیفیکیٹ کون جاری کرے گا۔
آپ نے زندگی میں کبھی کافر دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو، گیارہ سال کے بچے تو دیکھے ہوں گے۔ اگر آپ کے اپنے بچے نہیں ہیں تو بہن بھائیوں کے ہوں گے، محلے میں کھیلتے دیکھا ہوگا۔
جو خوش نصیب ہیں انہیں صبح صبح سکول کی وردی پہنے ویگنوں اور بسوں میں سکول جاتے دیکھا ہوگا۔ جو کم نصیب ہیں انہیں چائے کے ہوٹلوں پر اور موٹر ورکشاپ پر ڈانٹ کھاتے سنا ہوگا۔ ٹریفک سگنل پر بھیک مانگتے دیکھا ہوگا یا پھر اپنے قدرے بڑے سائز کے تھیلے اٹھائے کچرے کے ڈھیروں سے کچرا اٹھاتے دیکھا ہوگا۔
کیا کبھی ان کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ دین اسلام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ خدا کی خدائی میں راخنہ ڈال سکتے ہیں یا پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب، ہر سیاسی نظام، ہر فلسفہ حیات میں معصوم سمجھے جاتے ہیں۔
تو پھر ہم اس حال میں کیسے پہنچے کہ گیارہ سالہ رمشا کو معصوم ثابت کرنے کے لیے پہلے یہ لازم ہے کہ اسے ذہنی مریض ثابت کیا جائے۔ جو جج اور ڈاکٹر حضرات رمشا کے گیارہ سالہ دماغ کی خرابی ڈھونڈ رہے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک نظر ہمارے دماغ پر بھی ڈالیں اور ہمیں بتائیں کہ اصل میں ذہنی مریض کون ہے۔
-----------------
بشکریہ بی بی سی اردو
اگرچہ محمد حنیف میرے پسندیدہ لکھاریوں کی فہرست میں نہیں ، مگر جس بات سے متفق ہوں اس کو بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ صحتمندانہ گفتگو کی امید ہے۔
جب بھی کوئی گیارہ سالہ مسیحی بچی رمشا کے انسانی حقوق کے بارے میں دلائل دیتے ہوئے اس کی دماغی حالت کا ذکر کرتا ہے تو مجھے خود اپنی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
پاکستان میں غیر مسلموں کی آبادی اتنی کم ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر کفار کے خلاف جنگ کے لیے، تو ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم نے کافر دیکھے ہیں۔ شاید اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم اچھے بھلے مسلمانوں کو کافر قرار دینے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
ہم نے کافر زیادہ تر یا تو فلموں میں دیکھے ہیں یا اپنی سڑکوں پر جھاڑو دیتے ہوئے۔ حالانکہ اس میں بھی تھوڑی غلط فہمی ہے کیونکہ ارض مقدس میں گند اتنا بڑھ گیا ہے اور نوکریاں اتنی کم ہیں کہ اب ہزاروں خاکروب مسلمان ہیں۔ ہم البتہ ان کلمہ گو بھائیوں کو اچھوت ہی گردانتے ہیں۔
تو ہم نے کبھی کسی غیر مسلم سے سلام دعا کی ہو یا نہیں کی ہو ہمیں یہ یقین ہے کہ پاکستان میں ہر مسیحی، ہر ہندو ہر رات سونے سے پہلے سوچتا ہے کل اٹھ کر کون سی ایسی گستاخی کروں کہ یہ سوئی ہوئی امت مسلمہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائے، کیا ایسا کروں کہ مسلمان محلے دار میرے گھر پر چڑھائی کر دیں، مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں سے میرے خلاف فتوے جاری ہونے لگیں، مجھے میری اپنی حفاظت کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے۔
اگر کوئی ایسے سوچتا ہے تو اس کی ذہنی حالت مشکوک ہے۔ اور اگر ہم ان کے بارے میں یہ سوچتے ہیں تو ہماری ذہنی حالت کا سرٹیفیکیٹ کون جاری کرے گا۔
آپ نے زندگی میں کبھی کافر دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو، گیارہ سال کے بچے تو دیکھے ہوں گے۔ اگر آپ کے اپنے بچے نہیں ہیں تو بہن بھائیوں کے ہوں گے، محلے میں کھیلتے دیکھا ہوگا۔
جو خوش نصیب ہیں انہیں صبح صبح سکول کی وردی پہنے ویگنوں اور بسوں میں سکول جاتے دیکھا ہوگا۔ جو کم نصیب ہیں انہیں چائے کے ہوٹلوں پر اور موٹر ورکشاپ پر ڈانٹ کھاتے سنا ہوگا۔ ٹریفک سگنل پر بھیک مانگتے دیکھا ہوگا یا پھر اپنے قدرے بڑے سائز کے تھیلے اٹھائے کچرے کے ڈھیروں سے کچرا اٹھاتے دیکھا ہوگا۔
کیا کبھی ان کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ دین اسلام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ خدا کی خدائی میں راخنہ ڈال سکتے ہیں یا پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں۔ دنیا کے ہر مذہب، ہر سیاسی نظام، ہر فلسفہ حیات میں معصوم سمجھے جاتے ہیں۔
تو پھر ہم اس حال میں کیسے پہنچے کہ گیارہ سالہ رمشا کو معصوم ثابت کرنے کے لیے پہلے یہ لازم ہے کہ اسے ذہنی مریض ثابت کیا جائے۔ جو جج اور ڈاکٹر حضرات رمشا کے گیارہ سالہ دماغ کی خرابی ڈھونڈ رہے ہیں انہیں چاہیے کہ ایک نظر ہمارے دماغ پر بھی ڈالیں اور ہمیں بتائیں کہ اصل میں ذہنی مریض کون ہے۔
-----------------
بشکریہ بی بی سی اردو
اگرچہ محمد حنیف میرے پسندیدہ لکھاریوں کی فہرست میں نہیں ، مگر جس بات سے متفق ہوں اس کو بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ صحتمندانہ گفتگو کی امید ہے۔