اصولِ شاعری کے حوالے سے چند سوال۔۔۔؟

محمد وارث

لائبریرین
وہ کون سی بحریں ہیں جن کے ابتدائی رکن میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے؟

عام طور پر مزاحف بحروں میں دو طرح سے پہلے رکن میں کچھ تبدیلی کی جاتی ہے۔

اول - مزاحف بحروں کے پہلے سالم رکن کو مخبون رکن سے بدل دینا، جیسے

بحر رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع - اسکے افاعیل فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ہیں لیکن پہلے رکن یعنی فاعلاتن کو مخبون رکن فعلاتن سے بدل کر وزن فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن بھی ہو جاتا ہے۔

اسی طرح بحر رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع اسکے افاعیل فاعلاتن فعلاتن فعلن ہیں لیکن فعلاتن فعلاتن فعلن بھی جائز ہے۔

اسی طرح بحر خفیف مخبون محذوف مقطوع افاعیل فاعلاتن مفاعلن فعلن سے فعلاتن مفاعلن فعلن ہو سکتے ہیں۔

ان مثالوں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عام طور پر فاعلاتن کو فعلاتن بنایا جاتا ہے، لیکن یاد رہے کہ رمل مثمن محذوف فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن اور رمل مسدس محذوف فاعلاتن فاعلاتن فاعلن میں اس تبدیلی کی اجازت نہیں ہے۔

دوسری قسم میں تسکین اوسط زحاف کی مدد سے پہلے رکن میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔

جیسے بحر کامل متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن میں پہلے رکن بلکہ کسی بھی رکن کو مستفعلن کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح بحر ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف - مفعول مفاعلن فعولن میں تسکین اوسط سے مفعولن فاعلن فعولن وزن کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن کو بدل کر مفعولن مفعول مفاعیل فعولن کیا جا سکتا ہے۔

ان تمام بحور کی امثال آپ میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
کیا بحر کامل کے تمام ارکان کو مستفعلن میں بدلا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں کیا اس بحر کانام تبدیل ہو جائے گا کہ نہیں؟ اگر چاروں ارکان کو نہیں بدلا جاسکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کتنے اراکین کو ایک غزل میں بدلنا ممکن ہے؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
کیا بحر کامل کے تمام ارکان کو مستفعلن میں بدلا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں کیا اس بحر کانام تبدیل ہو جائے گا کہ نہیں؟ اگر چاروں ارکان کو نہیں بدلا جاسکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کتنے اراکین کو ایک غزل میں بدلنا ممکن ہے؟؟

میرے خیال میں بحر کامل میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ کتنے رکن متفاعلن سے مستفعلن میں بدل سکتے ہیں یعنی کوئی بھی رکن بدل سکتا ہے اور چاروں بھی بدل سکتے ہیں۔ چاروں ارکان کو مستفعلن کرنے سے بحر رجز مثمن سالم بن جائے گی، اگر مطلع کے دونوں مصرعوں میں مستفعلن چار بار ہوگا تو پھر پڑھنے والا یہی سمجھے گا کہ بحر رجز ہے، اور رجز میں مستفعلن کو متفاعلن نہیں کیا جاتا۔ دوسری صورت میں اگر مطلع میں کوئی رکن متفاعلن اور کوئی مستفعلن ہوگا تو جاننے والے اس غزل کی بحر کو کو بحر کامل سمجھیں گے اور نہ جاننے والے ہو سکتا ہے اعتراض جڑ دیں کہ بے وزن ہے۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
بحر کامل میں شروع کی گئی غزل کے کیا دوسرے شعروں میں متفاعلن کی جگہ مستفعلن استعمال کر سکتے ہیں اور اگر ایک شعر میں ایک رکن کو تبدیل کیا گیا اب اس سے اگلے شعر میں دو رکنوں کی تبدیلی جائز ہے کہ نہیں؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین

رفعت

محفلین
بحث تو جناب، چلی بہت خوب۔۔۔
اب چاہت یہ ہے،یوں کہیے گزارش یہ ہے کہ کوئی شاعری کے اصول بتاتی؛ کتاب کی تلاش ہے۔۔۔
کہاں سے ملے گی؟ کوئی لنک؟ کوئی پتہ؟
مشکور فرمائیے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سرور عالم راز صاحب کے جو اسباق اردو انجمن پہ موجود ہیں، کیا وہ ہمارے لئے مفید ہیں، جو عروض سے بالکل ہی نا واقف ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
سرور بھائی استاد شاعر ہیں، یقیناً درست ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہاں اصلاح سخن کی مختلف پوسٹس اور وارث کے بلاگ پر بحروں کے بارے میں مختلف پوسٹس بھی مفید ثابت ہوں گی۔
 
میرے خیال میں بحر کامل میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ کتنے رکن متفاعلن سے مستفعلن میں بدل سکتے ہیں یعنی کوئی بھی رکن بدل سکتا ہے اور چاروں بھی بدل سکتے ہیں۔ چاروں ارکان کو مستفعلن کرنے سے بحر رجز مثمن سالم بن جائے گی، اگر مطلع کے دونوں مصرعوں میں مستفعلن چار بار ہوگا تو پھر پڑھنے والا یہی سمجھے گا کہ بحر رجز ہے، اور رجز میں مستفعلن کو متفاعلن نہیں کیا جاتا۔ دوسری صورت میں اگر مطلع میں کوئی رکن متفاعلن اور کوئی مستفعلن ہوگا تو جاننے والے اس غزل کی بحر کو کو بحر کامل سمجھیں گے اور نہ جاننے والے ہو سکتا ہے اعتراض جڑ دیں کہ بے وزن ہے۔

بہت شکریہ جناب محمد وارث صاحب۔
میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں: ’’جہاں ہر رکن مستفعلن ہے وہ بحرِ رجز ہوئی اور جہاں مستفعلن اور متفاعلن ملے جلے آئے یا ہر رکن متفاعلن ہے وہ بحرِ کامل ہوئی۔‘‘

آپ کی اجازت سے ایک گزارش کرنا چاہوں گا: غزل کی صورت میں اس امر کا اعلان مطلع میں ہو جانا چاہئے۔ اگر مطلع میں سارے مستفعلن ہیں یا سارے متفاعلن ہیں تو؟ ۔۔۔ مسئلہ تو ہے نا!
 
بہت شکریہ جناب محمد وارث صاحب۔
میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں: ’’جہاں ہر رکن مستفعلن ہے وہ بحرِ رجز ہوئی اور جہاں مستفعلن اور متفاعلن ملے جلے آئے یا ہر رکن متفاعلن ہے وہ بحرِ کامل ہوئی۔‘‘

آپ کی اجازت سے ایک گزارش کرنا چاہوں گا: غزل کی صورت میں اس امر کا اعلان مطلع میں ہو جانا چاہئے۔ اگر مطلع میں سارے مستفعلن ہیں یا سارے متفاعلن ہیں تو؟ ۔۔۔ مسئلہ تو ہے نا!

میرے خیال میں ایسی بھی کوئی پابندی نہیں۔ کامل متفاعلن میں کہیں بھی مستفعلن اور وافر مفاعلتن میں کہیں بھی مفاعیلن لانا ایک عام رواج ہے عرب و عجم کا۔
بس اتنا خیال رکھا جائے کہ بحر نہ بدل جائے۔ جیسے "مفاعیلن" ہزج سے "فاعلن" اشتر ہے۔ مگر جب سارے فاعلن ہوں تو پھر ہزج اشتر نہیں بلکہ متدارک ہوتی ہے۔
یہاں بھی اگر سارے مفاعیلن ہوں تو وافر معصوب نہیں بلکہ ہزج سالم ہو جائے گی۔ یا سارے مستفعلن ہوں کامل مضمر نہیں بلکہ رجز سالم ہوگی۔ ہاں مطلع میں سالم کامل یا وافر ہو تو بحر کے زحافات یعنی اضمار اور عصب یہ اجازت دیتے ہیں کہ کہیں بھی ان کا استعمال کر لیا جائے۔ اس میں مطلع مصاریع کی پابندی ضروری نہیں میرے نا چیز خیال میں۔ :)
 
Top