باذوق
محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اطیعواللہ و اطیعوالرسول
دین اور دنیا ۔۔۔ دونوں کے معاملے میں ، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شریعت میں جتنے بھی امر و نہی ( کرنے اور نہ کرنے کے کام ) ہیں، ان سب کی اتباع واجب ہے ۔ اس کی تائید میں درج ذیل آیاتِ مقدسہ ملاحظہ کریں ۔
اور جو کچھ تمھیں رسول دیں ، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رُک جاؤ۔ ( الحشر : ٧ )
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرواور ان کی مخالفت کر کے اپنے اعمال برباد نہ کرو۔
( محمد : ٣٣ )
اے رسول ، کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔
( اٰل عمرٰن : ٣١ )
سنو ، جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں ، اُنہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں اُن پر کوئی زبردست آفت یا دردناک عذاب نہ آ پڑے۔
( النور : ٦٣ )
معاش کے کاموں کے تعلق سے ۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو حدیث ہے ، وہ صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے ۔ اور اُس باب میں اسی ایک مضمون کی تین حدیثیں تین مختلف راویوں نے بیان کی ہیں ۔ وہ تینوں حدیثیں یہاں ملاحظہ کریں اور پھر ان پر امام نووی کی تشریح بھی۔
صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، حدیث نمبرات : ٣١ ، ٣٢
باب : وجوب امتثال ما قالہ شرعاً دون ما ذکرہ من معایش الدنیا علیٰ سبیل الرّای ۔
( باب : آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جوشرع کا حکم دیں ، اُس پر چلنا واجب ہے ۔ اور جو بات دنیا کی معاش کی نسبت اپنی رائے سے فرما دیں ، اُس پر چلنا واجب نہیں )۔
١) طلحہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے ، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ گذرا ۔ کچھ لوگوں پر ، جو کھجور کے درختوں کے پاس تھے ، آپ نے فرمایا : یہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ لوگوںنے عرض کیا ، پیوند لگاتے ہیں یعنی نر کو مادہ میں رکھتے ہیں اور وہ گابہہ ہو جاتی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں سمجھتا ہوں اس میں کچھ فائدہ نہیں ہے ۔ یہ خبر اُن لوگوں کو ہوئی تو انھوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بعد میں یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر اس میں اُن کو فائدہ ہے تو وہ کریں ، میں نے تو ایک خیال کیا تھا۔ میرے خیال پر مواخذہ مت کرو۔ لیکن جب میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اس پر عمل کرو ، اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا نہیں۔
٢) رافع بن خدیج سے روایت ہے ... ......... آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا۔ انہوں نے گابہہ کرنا چھوڑ دیا تو کھجوروں کی افزائش گھٹ گئی۔ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے یہ بیان کیا ۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : میں تو آدمی ہوں جب کوئی دین کی بات تم کو بتلاؤں تو اس پر چلو اور جب کوئی بات مَیں اپنی رائے سے کہوں تو آخر مَیں آدمی ہوں ( یعنی آدمی کی رائے ٹھیک بھی پڑتی ہے ، غلط بھی ہوتی ہے )۔
٣) انس(صلی اللہ علیہ وسلم) سے روایت ہے ... .......... آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اگر نہ کرو تو بہتر ہوگا۔ انہوں نے نہیں کیا ، اور آخر خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ادھر سے گزرے اور لوگوں سے پوچھا : تمھارے درختوں کو کیا ہوا ؟ انھوں نے کہا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا فرمایا تھا کہ گابہہ نہ کرو ، ہم نے نہ کیا ، اس وجہ سے خراب کھجور نکلی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ کی تشریح :
علماء نے کہا ہے کہ معاش کے کاموں میں ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جو رائے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی اپنی طرف سے ہو ، وہ دیگر لوگوں کی طرح ہے ۔
اور یہ کوئی خراب بات نہیں ۔ اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اکثر وقت آخرت کی اصلاح اور اس کی فکر میں صرف ہوتا ہے۔ دنیا کے کاموں میں زیادہ غور کرنے کی آپ کو فرصت نہ ہوتی۔
اور حدیث نمبر (١) میں '' میرے خیال '' سے مراد وہی رائے ہے جس کی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) تصریح کر دیں (یعنی واضح طور پر ظاہر کر دیں) کہ یہ صرف اپنی رائے سے میں نے کہا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہ رائے بھی صرف اس مقدمہ سے متعلق ہو جو دین کے احکام سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
اس کے سوا ، باقی جتنے اوامر و نواہی (کرنے اور نہ کرنے والے کام ) ہیں ، خواہ وہ دین سے متعلق ہوں یا دنیاسے ، ان سب کا اتباع واجب ہے ۔
حدیث نمبر (٣) میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جو یہ فرمایا ہے '' تم اپنے دنیا کے کاموں کو مجھ سے زیادہ جانتے ہو'' ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس بات میں فائدہ ہو وہ کرو ، بشرط یہ کہ شرع کی رو سے منع نہ ہو۔
اس ضمن میں دو مثالیں :
١) تجارت یعنی بزنس کی اسلام میں اجازت ہے ۔ اب تجارت ہم اپنی سہولت اور مرضی سے کسی بھی طرح کر سکتے ہیں ، مثلاً کوئی چھوٹی سی دکان ڈال کر ، یا کوئی سوپر مارکٹ یا شاپنگ پلازا کھول کر یا گھر کے کمپیوٹر سے ہی e-commerce کے ذریعے۔ لیکن ، شراب جو آج کل دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک عام مشروب کی طرح پی جاتی ہے ۔۔۔ اس کو ہم اپنی تجارت میں استعمال نہیں کر سکتے(چاہے ہم کو شراب کے بزنس میں کتنا ہی زیادہ فائدہ کیوں نہ ہو) ۔ کیونکہ شریعت میں واضح طور پر حکم ہے کہ شراب کی ہر قسم کی خرید و فروخت ممنوع ہے۔
٢) قرآن میں ذکر ہے کہ اس پر غور و فکر کرو۔ قرآن کی باتوں پر غور و فکر کرنے کے لئے ہم کو عربی زبان پر بھی عبور ہونا چاہئے۔ لیکن زور '' زبان'' پر نہیں دیا گیا ہے بلکہ '' غور و فکر '' پر دیا گیا ہے ۔ اگر ہم دنیا کی کسی بھی زبان ( مثلاً اُردو ) کے ترجمہ و تفسیر کے ذریعے قرآن کی باتوں پر غور و فکر کرتے ہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔ لیکن ۔۔۔ نماز میں ہم کو قرآن ، عربی میں ہی پڑھنے کا حکم ہے ۔ اس کی ایک دلیل تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے : '' تم ویسے ہی نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے '' ۔ (بخاری : ٦٣١)
ظاہر ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نماز میں قرآن کی عربی آیات ہی کی تلاوت کرتے تھے ۔