اعتبارِ نغمہ ( برگِ نے) از ناصر کاظمی

نیرنگ خیال

لائبریرین
اعتبارِ نغمہ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب شاعری فنکار کے لیے باعثِ ننگ نہیں تھی گیت گانے والا گاؤں گاؤں ، نگری نگری گھومتا پھرتا تھا اور بات بات پر عشق و محبت، دلیری، شجاعت، سیر و تفریح اور ان جانے دیسوں کے نغمے گاتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی بہت ہی سیدھا سادا اور رس بھر ساز ہوتا تھا جس کی دھن پہ اس کے سارے گیت ڈھلتے تھے اور گلے سے باہر نکلتے ہی دلوں میں اتر جاتے تھے۔ وہ جن لوگوں میں بیٹھ جاتا ان کے دلوں کا تار ملا لیتا ۔ جانی پہچانی دھرتی کا ہر گوشہ اور دھڑکنوں کے سارے مسکن اس کی جاگیر تھے ۔ پاس پڑوس کے سارے باسی اس کی آواز پر فریفتہ تھے۔ کہنے والا ایک تھا اور سننے والے ہزاروں اور ان ہزاروں کے دل اس کی مٹھی میں تھے ۔ جدھر اس کی آواز پھرتی تھی ادھر اس کا سامع کھنچ کر چلا جاتا تھا۔ شاعر اور اس کے سامعین میں اگر کوئی حدِّ فاصل تھی تو یہی کہ وہ کہہ سکتا تھا اور یہ سن سکتے تھے۔ یہ دیوار چین بھی جذب و کیف کے مراحل میں ٹوٹتی پھوٹتی رہتی تھی ۔ سننے والوں کی دھڑ کیں اس کی آواز میں شامل تھیں، ان کے ذہن کی ساری لرزشیں اس کے ساز میں جاگ اٹھتی تھیں ۔ اس " من تو شدم تو من شدی" کے مراحل میں کوئی فاصلے نہ تھے جو مٹ نہیں سکتے تھے اور کوئی روک نہیں تھی جو ان کو جدا نہیں کر سکتی تھی ۔ ا سے پہچاننے والے اسے بھاٹ کہتے تھے موجد اور خالق کا نام دیتے تھے اور اس کے ذریعے دھرتی کا رابطہ آسمانوں سے جاملتا تھا۔ مگر دھرتی پر حکومت کرنے والوں کو اس کی فرماں روائی پر، اس کی گرفت اور اثر و نفوذ پہ حسد ہوا۔ وہ بھی دلوں پر حکومت کرنا چاہتے تھے ۔ دونوں کا ملاپ ہوا اگر منافقت اور جلا پے کی بنیادوں پر ۔ اس مقصدی مصالحت سے حکمر انوں نے اسے کہا کہ ہماری دلیری، ہمارے عشق، ہماری سیر و سیاست اور تفریح کے ترانے گاؤ۔ بھاٹ اب بھٹئی کرنے پر اتر آیا ۔ شاید اسے یہ غرور ہوگیا تھا کہ میں جب بھی اور جیسے بھی چاہوں سننے والوں کو رجھا سکتا ہوں ان کا رخ پھیر سکتا ہوں ۔ درباری سخن ساز نے فن سخن رانی ایجاد کیا ۔ دلوں میں گھر کرنے کے اصول وضع کیے اور جو چیز کبھی اپنے آپ ہو جایا کرتی تھی اُسے اپنی مرضی سے پیدا کرنے کے لیے طریقے سلیقے ترتیب دیے ۔ گھر آہستہ آہستہ وہ ان ہتھ پھیر یوں کا شکار ہو کے رہ گیا۔ شطرنج کی چالوں نے اُسے ایسا الجھایا کہ وہ انہی میں پھنس کر رہ گیا اور سننے والے اس کی آواز سے دور ہوتے گئے ۔ حتی کہ ایک دن اس کا نغمہ اپنی ہی گونج میں کھو کے رہ گیا۔ اس نے آس پاس دیکھا سوا اس کے مربّی اور ممدوح کے کوئی بھی نہ تھا جو اس کی فنّی مہارت اور چابکدستی کی داد دے سکتا ۔ کوئی بھی نہ تھا جو اس کی پروانہ خیال کے ساتھ ذرا بھی اڑ ان دکھا سکتا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی تعریفیں کتنی کھوکھلی، اس کے نغمے کتنے بے روح اور اس کی آوانہ کتنی بے سوز ہو کے رہ گئی ۔ آخر اس کی مدح سرائی کا طلسم بھی ٹوٹنے لگا اور وہ دربار سے بھاگ نکلا ۔
اس نے پھر سننے والے تلاش کرنے شروع کیسے لوگ جمع کیے اور محفلیں جمائیں مگر اب کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا اور اس کے منبع و ماخذ سے آشنائی نہیں رکھتا تھا ۔ لوگ واہ واہ کرتے تھے ، سبحان اللہ کے ڈونگرے برساتے تھے ، مگر وہ لرزشیں اور وہ دھڑکنیں کہاں تھیں ؟ آواز سامعہ کے وہ پرانے عہد و پیماں کہاں تھے ؟ چشم و گوش کی وہ آشتی کہاں تھی؟ اب تو لوگ اس کا وطن پوچھتے تھے، اس کا مذاق اڑاتے تھے ۔ آخر تحسین ناشناس نے اسے خود پسند و خود نگر بنا دیا۔ اب وہ لوگوں سے بھاگتا تھا۔ ان کی داد و تحسین پہ جھلّاتا تھا۔ بعل و گہر اُگلنے کے بعد کچھ بلبلے بطور انعام ملیں تو ان کی کیا بساط ہے ؟ اب تو ممدوح کی مربّیانہ شفقت بھی اسے میسّر نہیں تھی وہ پُرانی مصلحت کسی مقصد سے ہی سہی مگر خود اس کے لیے ایک حد تک آرام و سکون کا باعث تو بنتی تھی، روحانی کوفت کے باوجود پہلے جسمانی آسائش تو سارے سامان مہیا تھے۔ زمانے کی قدر نا شناسی سننے والوں کی بے اعتنائی کو دیکھ کے اس نے بھی روپ بدلا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ تاکہ لوگ راغب ہوں ۔ اس کی فریادوں میں بدلتی دنیا کا الم بھی شامل تھا اور اس کا اپنا المیہ بھی جا بجا نمایاں ہو رہا تھا۔
بدلتی ہوئی دنیا کا عکس اور شاعری میں شاعر کا فرار ایک بہانہ تھا جو روح عصر اپنے اظہار کے لیے ڈھونڈ رہی تھی ۔ نالہ گو یا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے ! وہ آسمان و زمین کے بگڑتے ہوئے رنگ روپ اپنی آواز میں سمو کے کہہ رہا تھا : دیکھو! اور سننے والے اپنی اپنی حدوں میں محبوس اس کی آواز کو سُن سُن کے ڈرے جا رہے تھے ۔ شاعر نے اس باولے کا بھیس بنا رکھا تھا جو ہر گاؤں کے گردا گرد چکّر کاٹتا ہے اور آنے والے حادثوں کی خبر دیتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ یہ پگلا گاؤں سے کتنا پیار کرتا ہے اور گاؤں والوں کے دُکھ میں کس محبت سے اشک فشانی کرتا ہے مگر اس کے باوجود اس بنگلے کی پیغمبری ایک بڑا نا گوار اور دلدوز فریضہ ہے جس کو ادا کر نا کسی محفل پرست، دنیا دار ا ور مصلحت آشنا سخن ساز کے بس کی بات نہیں :
یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اسے ہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
شعر کی ماہیت پر سوچنے والے عموماً شاعر کو بھول جاتے ہیں۔ اس شاعر کو جو بھیس بدل بدل کر ہر زمانے میں نئے جلوسے اپنے ساتھ لے کر آتا رہا ہے ۔ ہمارے زمانے کا شاعر کئی اعتبار سے اکیلا ہے۔ شعر پڑھنے والے ہیں تو شاعری کے بارے میں سوچنے والے اس کے ساتھ نہ چل سکتے ہیں نہ چلنا چاہتے ہیں۔ کہنے والے کی آزمائش اس سے بڑی کیا ہوگی کہ باد جود ان حد بندیوں اور فاصلوں کے اس کی فریادیں دیواریں چیر کے کانوں تک پہنچتی ہیں یا نہیں ۔ اس دورِ ابتلا میں نالہ آفرینی محض ایک دیوانے کی پکار ہی نہیں کئی دلوں کی دھڑکنیں اس کی ہم ساز و ہم نوا ہو سکتی ہیں اگر مصلحت آشنا ذہن ان دھڑکنوں کو ملفوف نہ کردے ۔ آج کا شاعر نگری نگری گھومنے والے شاعر اور درباری سخن ساز دونوں کے مختلف مزاجوں کو ملا کے ایک نئی آواز پیدا کرنا چاہتا ہے، جو اس کے اپنے گردو پیش اور اس کے اپنے آسمان و زمین سے بھی علاقہ رکھتی ہو ۔ طباعت کی مدد سے چشم و گوش تک پہنچنے والا پرانے نغمہ پیرا کی بے ساختگی کو سخن ساز کی مہارتِ فن سے اس طرح باہم پیوستہ کرنا چاہتا ہے کہ دونوں یک جان ہو جائیں ۔ اسی طرح اس کی آواز میں ایک ٹھہراؤ، گرفت اور قوت و تیزی کا اجتماع ہوگا اگر وہ اس شک و شبہ میں ڈوب جائے کہ اس کی آواز کہیں خلاؤں میں کھو کے رہ جائے گی تو شاید اسے بلند کرنے کا ہی کوئی جو از نہ رہ جائے ۔ نالہ آفرینی جبرو اختیار کا ایک انوکھا کرشمہ ہے ۔ قاری کے دل میں جگہ پا نا بھی محض اس کے بس کی بات نہیں - آواز قوی ہو تود ور دور پہنچ جانی ہے، نحیف ہو تو حلق سے باہر ہی نہیں نکلنے پاتی، صرف پہنچنے کی بات نہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ ایک آواز ہزاروں کی آواز بن بھی سکتی ہے یا نہیں ۔محض ہزاروں کا ذکر کرنے یا ہزاروں کو مخاطب کرنے سے ان کی دھڑکنیں اور لرزشیں ساز کی ہم نوائی نہیں کر سکتیں ۔
نالہ محفلیں برہم نہیں کرتا ۔ نالہ آفریں پہ جو کچھ بھی گزری ہو اس کی فریاد فن کے سانچے میں ڈھل کر نغمہ نہیں بن سکتی تو محض چیخ پکار ہے۔

ناصر کاظمی
لاہور
پہلا دن1954
 

سیما علی

لائبریرین
نالہ محفلیں برہم نہیں کرتا ۔ نالہ آفریں پہ جو کچھ بھی گزری ہو اس کی فریاد فن کے سانچے میں ڈھل کر نغمہ نہیں بن سکتی تو محض چیخ پکار ہے۔
اِس عہدِ نو میں قدرِ متاعِ وفا نہیں
اس رسم و راہِ عہدِ کہن کو ترس گئے

منزل کی ٹھنڈکوں نے لہو سرد کر دیا
جی سُست ہے کہ پاؤں چبھن کو ترس گئے

اندھیر ہے کہ جلوۂ جاناں کے باوجود
کوچے نظر کے ایک کرن کو ترس گئے
ناصر کاظمی
 

سیما علی

لائبریرین
نحیف ہو تو حلق سے باہر ہی نہیں نکلنے پاتی، صرف پہنچنے کی بات نہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ ایک آواز ہزاروں کی آواز بن بھی سکتی ہے یا نہیں ۔محض ہزاروں کا ذکر کرنے یا ہزاروں کو مخاطب کرنے سے ان کی دھڑکنیں اور لرزشیں ساز کی ہم نوائی نہیں کر سکتیں ۔
ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا

دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا

اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا
ناصر کاظمی
 
Top